……پاھار……
کمزورخارجہ پالیسی باعث
بلوچستان میں ریاستی مظالم میں اضافہ
ماہ ِ جولائی میں 30سے زائد فوجی آپریشنز میں 23 افرادلاپتہ،
10افرادقتل،100سے زائد گھروں میں لوٹ مار
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
جولائی2021 کا مہینہ بھی مقبوضہ بلوچستان میں سنگینیوں کا مہینہ ثابت ہوا۔اس مہینے پاکستانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 30 سے زائد فوجی آپریشنز کرنے کے ساتھ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق23 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا اور انہیں اپنے عقوبت خانوں میں ڈال دیا۔اسی مہینے 10 نعشیں برآمد ہوئیں جس میں ایک لاش کی شناخت نہ ہو سکی،جبکہ 5 لاشوں کے محرکات سامنے نہیں آئے اور چار بلوچ بشمول ایک بلوچ بیٹی شہید ہوئے۔
جولائی کے مہینے میں دوران آپریشنز فورسز نے سو سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ چالیس سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا،جبکہ گیشکور میں ایک پورے گاؤں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔
اسی مہینے 15 افراد ریاستی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے، جس میں 9 افراد اسی سال کے جولائی اور جون کے مہینے فورسز نے لاپتہ کیے تھے،جبکہ2017 سے زیر حراست ایک شخص،2018 سے تین اور2019 سے زیر حراست دو افراد بازیاب ہونے والوں میں شامل تھے۔
پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کا احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس وقت مقبوضہ بلوچستان میں انسانی بحران، ریاستی فورسز کی جبر میں انتہائی درجے کی تیزی آ ئی ہے،خاص کر احتجاج کرنے والے افراد کے لواحقین کو دھمکیاں دینے کے ساتھ ان کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے پاکستانی خفیہ ادارے نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں تاکہ جبری گمشدگی کے شکار افراد اپنی پر امن احتجاج سے دستبردار ہوجائیں۔
ریاستی فورسز آج کل لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مار رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔ اوریہ ایک خاص حکمت عملی کے طور پر ہو رہا ہے تاکہ پرامن آوازوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
ان تمام ریاستی جرائم پر مہذب اقوام،عالمی انسانی حقوق کے ادارے بالکل خاموش ہیں،جو یقینا نیک شگون نہیں ہے۔دنیا میں تبدیلیاں آج تیزی سے رونماء ہورہی ہیں ان کا کچھ سال قبل کوئی گمان نہیں کرسکتا تھا۔اس کے علاوہ جو حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں یہ تبدیلیاں ہمارے لئے نقصاندہ ثابت ہونگی یا فائد مند؟ یہ ہماری سیاسی بصیرت پر انحصار کرے گا۔ہمارے پالیسی ساز اداروں کو دنیا کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ ہمارے مطالبات کیا ہیں۔
غیر فطری ریاست پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اس کی فورسز نے بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ ستر کی دہائی میں پاکستانی فورسز نے اپنے بربریت کے دوران ہزاروں لوگوں کو قتل یا لاپتہ کیا ہے چونکہ اس دور میں میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوالے سے کوئی دستاویزات موجود نہیں ہیں مگر اس حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ بلوچ عوام کس قدر فوجی بربریت کا نشانہ بن چکی ہے۔
ہر روز اس میں اضافہ کیا جارہا ہے دو دہائیوں میں جس قدر پاکستانی فورسز کی بربریت بلوچستان میں جاری ہے وہ سب سورج کی روشنی کی طرح دنیا کے سامنے عیاں ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا نے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے۔
جہد آزادی کے اس فیز میں بلوچ کے پاس ریاستی بربریت کے تمام ریکارڈ موجود ہیں،ایسے میں بلوچ آزادی پسندوں کو چائیے کہ کوئی خاطر خواہ اور مشترکہ پالیسی اس حوالے سے سامنے لائیں اور ریاستی جنگی جرائم کو دنیا و اقوام متحدہ کے سامنے اجاگر کریں کیونکہ ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوری کی وجہ سے ریاستی مظالم میں بھی تیزی آئی ہے۔
ماہ جولائی کی
تفصیلی رپورٹ
یکم جولائی
۔۔۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مختلف ادوار میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد لاپتہ ہونے والے چار افراد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔بازیاب ہونے والوں میں بلال ولد بخشی سکنہ ڈلسر مند، قاسم ولد عبدالغنی سکنہ گومازی تمپ، منصور قمبرانی اور طلال ولد دوست محمد سکنہ گومازی شامل ہیں۔
لاپتہ ہونے والوں میں سے بلال اور قاسم کو فورسز نے گذشتہ ماہ کوئٹہ سے جبکہ طلال کو فورسز نے گومازی سے دوران آپریشن حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا۔
جبکہ براہوئی زبان کے شاعر پڑو ادبی کچاری کے ممبر اور بلوچستان کے کوہ پیما منصور قمبرانی کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے کلی سہراب خان قمبرانی سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے لیبر سیکرٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی کے گھر پہ چھاپہ مار کر گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا تھا۔
2 جولائی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں بدنام زمانہ کٹھ پتلی صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی کے بھائی صغیر بلیدی نے پولیس پر فائرنگ کی ہے جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بدنام زمانہ صوبائی وزیر کے بھائی کو گرفتار کرلیا۔
خیال رہے کہ ضلع کیچ اور گردنواح میں کئی جرائم پیش افراد کو ظہور بلیدی کا سرپرستی حاصل ہے جبکہ سانحہ ڈنک کے مرکزی ملزم اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار سمیر سبزل کا ظہور بلیدی کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پہ پہلے وائرل ہوچکے ہیں۔اسکا مذکورہ بھائی میں بلیدہ،زامران،کیچ میں ڈیتھ اسکواڈ کا اہم سرغنہ بتایا جاتا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ سے پاکستانی فورسز نے دو بھائیوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔گرفتاری کے بعد لاپتہ ہونے والے بھائیوں کی شناخت الطاف آزاد اور بھدان ولد مولابخش کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں بھائیوں کو اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا جب دونوں بھائی گمشاد ہوٹل میں کھانا کھا کر گھر جارہے تھے۔لاپتہ ہونے والوں میں الطاف لیویز فورس میں اور بھدان اے ایس ایف میں ملازم ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو زخمی کردیا۔
فائرنگ کا واقعہ پنجگور کے مرکزی بازار چتکان میں پیش آیا جہاں فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والے شخص کی شناخت نوراحمد ولد منور کے نام سے ہوئی ہے۔
3 جولائی
۔۔۔جبری گمشدہ مزار خان کے لواحقین 11 سال سے اسکے واپسی کے منتظر،جبکہ نصیب اللہ بادینی کی جبری گمشدگی کو 7 سال ہوئے ہیں،ضلع نوشکی سے پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار نصیب اللہ بادینی کے لواحقین کا کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے کیمپ آمد، والدہ نے بیٹے کی بازیابی کی اپیل کی ہے۔نصیب اللہ بادینی کو 2014 میں فورسز نے نوشکی سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جس کے بعد وہ لاپتہ ہے۔
حاجی مزار خان ولد گہرام کو 28 مئی 2010 کو دیگر چار افراد کے ہمراہ پاکستانی فورسز نے حراست بعد لاپتہ کیا۔
۔۔۔کوئٹہ سے فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے علی اکبر مینگل کے والد ولی محمد مینگل نے کہا ہے کہ
بیٹا گھر سے نکلا، کچھ فاصلے پر بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں سوار اہلکار اس کو زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار نوجوان علی اکبر مینگل کے والد ولی محمد مینگل کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا 28 جون 2021 کو سریاب روڈ پر واقع موسیٰ کالونی سے اپنے گھر سے نکلا تھا جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگیا، بیٹے کے پاس دو موبائل تھے جو بند ہیں۔
۔۔۔نیشنل پارٹی کے مقامی لیڈر اور پاکستانی فوج کے معاون کار عزیز بزنجو نے یاسین ولد شیران کو گھر سے اٹھا کر فوج کی تحویل میں دیا۔
ضلع کیچ کے علاقے پیدراک میں 29 جون کو پاکستانی فوج نے شیران بلوچ کے گھر پر ان کے بیٹے ’یاسین ولد شیران‘ کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا۔یاسین کی عدم موجودگی میں فوجی اہلکار شیران اور ان کے چھوٹے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے اور تشدد کے بعد انھیں اس تنبیہ کے ساتھ چھوڑ دیا کہ وہ یاسین کو فوج کے حوالے کریں بصورت دیگر انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یکم جولائی کو پاکستانی فوج کا معاون کار نیشنل پارٹی کا لیڈر اور ڈیتھ اسکواڈ کا مقامی سرغنہ عزیز بزنجو مسلح افراد کے ساتھ شیران کے گھر گیا اور بندوق کی زور پر نوجوان یاسین کو اُٹھا،تشدد کے بعد پاکستانی فوج کی تحویل میں دیا اور تب سے مذکورہ نوجوان جبری لاپتہ ہیں۔
4 جولائی
۔۔۔پاکستانی فورسز نے جینے کا حق چھین لیا ہے،کیلکور متاثرین کا تربت میں پریس کانفرنس
ضلع پنجگور کے علاقے کیلکور سے تعلق رکھنے والے بلوچ قبائلی عمائدین نے تربت پریس کلب میں اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس کی۔پریس کانفرنس میں رحمت داؤد نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستانی فورسز نے ہمارے چار نہتے پیاروں کو بیدردی سے قتل کر دیا ہے، اور پیرجان کو فورسز نے حراست میں لے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جو شدید زخمی ہونے کی وجہ سے جانبر نہ ہوسکا۔
رحمت داؤد نے کہا کہ ہمارا جینا ریاستی اداروں نے دوبھر کر دیا ہے، ہمارے گھروں کو نظر آتش کردیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ فورسز آپ لوگوں کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گیے ہیں، مگر یہ تو ہمیں مار رہے ہیں، ہمارے مال مویشیوں کو بھی فائر کرکے مار دیا گیا ہے، ہمارے پانچ اونٹوں کو بھی ماردیا گیا ہے، ہمارے خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے، ہمیں سمجھایا جائے، کیا یہ کسی محافظ کے اعمال ہوسکتے ہیں؟
پریس کانفرنس میں غلام نبی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے زمینوں پر کاشت کاری کرنے کی اجازت نہیں دیا جاتا، انہوں نے کہا کہ ہمارے فصلوں کو تباہ کیا گیا ہے۔
میرے اور میرے ہمسایوں کے گھر میں چھاپہ مار کر ہمارے خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ہم اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں اس بے لگام فورسز کی ظلم و بربریت سے نجات دلائے۔
بانْک جانگْل نے میڈیا کے سامنے ایک چھوٹے بچے کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پانچ سال کا بچہ مْغْل ہے، جس کے والد دلجان کو آپریشن کے دوران شہید کیا گیا ہے، اس یتیم بچے کو اب کون انصاف دلائے گا ہمیں تو اس ملک سے کہیں بھی انصاف ملنے کی توقع نہیں، ہمیں ہمارا جْرم بتایا جائے، آخر ہم نے اس فورسز کا کیا بگاڑا، میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں اپنے سرزمین پر جینے کا حق دیا جائے۔
6 جولائی
۔۔۔شہید لالا منیر کا جوانسال بھتیجا زوہیب حادثے میں جابحق
بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے شہید رہنمالالا منیر کا جوانسال بھتیجا زوہیب ولد محمد گل کراچی میں ایک حادثے میں جابحق ہوگئے ہیں۔پیر کے روز یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب زوہیب اپنے تیل کی ٹینکی کے پاس کھڑے تھے جو ویلڈنگ کے دوران گیس بھرنے کی وجہ سے پھٹ گئی جس سے زوہیب موقع پر جابحق جبکہ دیگر دو افراد شدید زخمی ہوئے۔
۔۔۔ضلع پنجگور کی تحصیل گوارگو کا یونین کونسل کیلکور ایک مرتبہ پھر پاکستانی فوج کی شدید جارحیت کے زد میں ہے علاقے کے لوگ گذشتہ کافی عرصے سے پاکستانی فوجی مظالم کی شکایت کر رہے ہیں لیکن فوجی جارحیت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
جارحیت کی تازہ لہر گذشتہ تین دنوں سے شروع کی گئی ہے جس میں بڑی تعداد میں فوجی موٹر سائیکل دستے حصہ لے رہے ہیں۔
موٹرسائیکل سوار فوجی اہلکاروں نے اپنے موٹرسائیکل کانڈاری کنڈگ (پہاڑی راستہ) کے نیچھے کھڑے کیے اور پیدل پہاڑوں کے اندر چلے گئے ہیں اسی طرح گیشکور (ندی) کے اندر بھی فوجی اہلکاروں کی گشت میں اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے گذشتہ اتوار کو کیلکور کے رہائشیوں نے تربت میں فوجی مظالم کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ انھیں علاقے میں باعزت طریقے سے جینے کا حق دیا جائے۔
۔۔۔ کوئٹہ کے ہزار گنجی علاقے میں سی ٹی ڈی(کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) فورسز نے مقابلے میں 5 افراد کو ہلاک کرنیکا دعویٰ کیا ہے۔
ترجمان کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبینہ دہشتگردوں کی موجودگی پر آپریشن کیا تو دہشتگردوں نے فائرنگ شروع کردی۔
ترجمان نے بتایا کہ فورسز کی جانب سے جوابی کارروائی کی گئی اور اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں 5 مبینہ دہشتگرد ہلاک ہوگئے۔تاہم مارے جانے والوں کے نام اور دیگر تفصیلات نہیں بتائے گئے۔
10 جولائی
۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے سرحدی تحصیل مند سے آمدہ اطلاعات کے مطابق چار نوجوان تیں دن قبل پہاڑی علاقے میں پکنک پر گئے تھے کہ انہیں فورسز نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا۔لاپتہ نوجوانوں کی شناخت صابر، حیاتان، قادو اور قابوس کے ناموں سے ہوئے ہیں جو تحصیل مند گیاب کے رہائشی بتائے جاتے ہیں۔
۔۔۔پاکستانی فورسز نے بلوچستان سے ایک اور بلوچ طالب علم کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
نوجوان کو فورسز نے تلار چیک پوسٹ سے اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جب وہ تربت سے کراچی جارہا تھا۔حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت اکبر ولد برکت سکنہ نودز کیچ کے نام سے ہوئی ہے جو نیول ٹیکنیکل کالج کا طالبعلم بتایا جاتاہے۔
11 جولائی
۔۔۔ گذشتہ روز ہرنائی شاہرگ میں تقریباً چار بجے بڑی تعداد میں پاکستانی فوجی اہلکار علاقے میں داخل ہوگئے جس کے باعث عوام سراپا احتجاج ہوگئے اور فوجی اہلکاروں کو گھروں میں گھسنے سے منع کردیا۔ شاہرگ میں صبح 4 بجے آرمی اور ایف سی کے ہزاروں اہلکاروں نے جارحیت کی لیکن اہل علاقہ نے ان کو گھروں میں داخل ہونے سے صاف انکار کردیا۔ اس صورت حال میں شاہرگ کے عوام اور فوج کے اہلکاروں کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی۔ اہلکاروں نے عوام پر فائرنگ کی جبکہ جواب میں عوام نے ان پر پتھراؤ کیا۔
۔۔۔ مقبوضہ بلوچستان کے ضلع گوادر جی ڈی اے ہسپتال کے نزدیک ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ملنے والی لاش کی شناخت عبدالغفار ولد لال بخش نامی شخص سے ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ ضلع گوادر میں وفات پانے والے 60 سالہ شخص عبدالسلام بازار سنگانی سر تربت ضلع کیچ کے رہائشی بتائے جاتے ہیں جو حال ہی میں گوادر کے ساحلی گاؤں جیمڑی میں رہائش پذیر تھے۔ تاحال ان کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے۔
۔۔۔ضلع پنجگور اور کیچ سے پاکستانی فورسز نے چار افراد کو حراست میں لینے کے بعد جبری طور پرلاپتہ کردیا ہے۔
پنجگور سے لاپتہ ہونے والوں کو گذشتہ روز گرمکان سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا ہے جنکی شناخت عادل، اس کے بھائی عمران اور عابد کے ناموں سے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو گھر پہ چھاپہ مارکر حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا ہے جبکہ اس دوران فورسز نے گھر میں موجود خواتین و بچوں کو شدید ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
اسی طرح گذشتہ روز فورسز نے کیچ کے مرکزی شہر تربت سے بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم شاکر کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
12 جولائی
۔۔۔ بحر ہ بلوچ میں چائنیزٹرالرز کی موجودگی وغیر قانی فشنگ کی تصدیق
حکومت نے بحرہ بلوچ میں چائنیزٹرالرز کی موجودگی اورغیر قانونی شکار کی تصدیق کردی ہے۔
میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی (ایم ایس اے) کے مطابق انہوں نے گذشتہ دنوں بحرہ بلوچ میں چائنیز ٹرالرز کو گوادر کے سمندری حدود میں روک دیا ہے۔ایم ایس اے کے مطابق مذکورہ ٹرالرز کی تعداد پانچ تھی جن میں شکار کی گئی مچھلیوں کی بڑی ایک کھیپ بھی موجود تھی ہے۔
۔۔۔نوجوان بلو چ آرٹسٹ صمد عبداللہ کا انتقال بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں ہوا۔وہ کافی عرصے سے معدے کے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔صمدعبداللہ کا تعلق بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی سے تھا۔اور بطورمصوراورسینڈآرٹسٹ اس نے پنی ایک شناخت بنائی۔
15 جولائی
۔۔۔مستونگ سے ایک اور ضلع کیچ سے چار نوجوان فورسز کی حراست سے بازیاب
مستونگ سے پاکستانی فوجی عقوبت خانے میں برسوں اذیت برداشت کرنے والے جبری لاپتہ عبدالحکیم ولد جمعہ خان بنگلزھی کو رہا کر دیا گیا ہے۔انھیں 13 دسمبر 2017 کو دشت ضلع مستونگ سے پاکستانی فوج نے گرفتار کیا تھا۔
جبکہ مند سے شکار کو جانے والے چار زیر حراست نوجوانوں کو بھی پاکستانی فوج نے رہا کردیا ہے۔ حیاتان ولد محمد کریم، قادر بخش ولد اسماعیل، قادر بخش ولد یونس ساکنان گیاب اور یحی ولد بجار سکنہ گوک مند گھر سے بروز بدھ30 جون 2021 کو شکار کے لیے پہاڑوں کی طرف نکلے تھے جن کی بعد ازاں فوج کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر سامنے آئی۔انھیں گذشتہ 14 دن سے فوجی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔
۔۔۔ضلع گوادر کے علاقے تحصیل پسنی میں بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے فورسز پر حملے کے بعد علاقے و گرد نواح میں زمینی و فضائی آپریشن کی گئی۔
صبح کلانچ کے مختلف علاقے سردشت، شادی کور، گانو، جوئی، کوڈیج میں پاکستانی فورسز نے آپریشن کی۔
۔۔۔ تاج محمد سرپرہ کی جبری گمشدگی کیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ
کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جمعرات کے روز لاپتہ تاج محمد سرپرہ کی جبری گمشدگی کے خلاف انکے لواحقین کے جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرے میں سیاسی و سماجی تنظیموں سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی۔ہاتھوں میں پلے کارڈز اور لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھے مظاہرین نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کیا۔
17 جولائی
۔۔۔ ضلع تربت سے پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔جس کی شناخت عقیل ولد بشیر احمد کے نام سے ہوگئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق عقیل ولد بشیر احمد کو 10 جولائی کو اس کے قریبی رشتہ داروں کے سامنے سے فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔ دو ماہ قبل خاران سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طورپر لاپتہ ہونے والے رسول بخش ولد نذیر احمد اور سفیان بلوچ سکنہ خاران گذشتہ روز بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔
18 جولائی
۔۔۔۔پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے ضلع گوادر کے تحصیل پسنی سے ایک شخص کو حراست میں لے کر جبری طور پرنامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔فورسز نے نوجوان کو پسنی کے علاقے ببر شور وارڈ نمبر 1 سے گذشتہ شب حراست میں لے کر لاپتہ کردیا، جسکی شناخت داد بخش ولد محمد کے نام سے ہوئی ہے۔ مذکورہ نوجوان پیشے کے لحاظ سے ٹیلر ماسٹر اور بلوچی زبان کے شاعر ہیں۔
۔۔۔والدہ کی وفات پر تعزیت کرنیوالوں اور دکھ بانٹنے والوں کا مشکور ہوں، ستار نواز
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سینئر کارکن ستار نواز بلوچ نے اپنی والدہ کی وفات پر تعزیت کرنے والے تمام دوست اور خیرخواہوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ دکھ کی گھڑی میں جن دوستوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے میرے دکھ کو باٹنے کی کوشش کی میں ان تمام دوستوں کا اور خیراندیشوں کا مشکور ہوں۔ستار نواز کی والدہ بی بی گنجاتون 14 جولائی کو گوادر میں وفات پاگئی تھیں۔
20 جولائی
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی پسنی میں آج بروزمنگل صبح سویرے جڈی بیچ پر ایک نوجوان کی لاش برآمد ہوگئی ہے۔جس کی شناخت علی جان ولد الہی بخش ساکن وارڈ نمبر 6کے نام سے ہوگئی ہے۔
مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ لاش کی سر مٹی میں د ھنسا ہوا تھاجبکہ اس کے سر پر گہرے وار کے نشانات پائے گئے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے اس پر کسی آہنی راڈ سے وارکرکے پھر اس کے سر کو مٹھی میں دھنسا کر اس کی سانسیں سلب کی گئیں۔ فیملی ذرائع کے مطابق وہ گذشتہ دوروز سے لاپتہ تھے۔
واضع رہے کہ مذکورہ نوجوان کا ایک بھائی نجیب اللہ گذشتہ رمضان سے اپنے کشتی سمیت لاپتہ ہے جس کی اب تک کوئی خیر خبر نہیں ہے۔
۔۔۔بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)دشت زون کے سابق صدر جاسم بلوچ کے والدہ ماجدہ بی بی لالین انتقال کرگئے۔
۔۔۔۔۔ایران میں بلوچ موسیقار حمید جیئند کو قتل کردیا گیا
ایران میں بلوچستان سیستان کے علاقے پیشن میں پیر کے روز بلوچ فنکار نواز حمید کوگولی مار کر قتل کردیا گیاہے۔
حمید جیئند معروف سماجی کارکن اور فلاحی ادارہ احساس ویلفئر کے سربراہ ملا لیاقت ولی کے بھائی تھے، جن کا آبائی تعلق مند سے تھا۔
۔۔۔بلوچستان سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں کے جبری طور پر لاپتہ 5افراد رہا ہوکر گھر پہنچ گئے۔
جن میں 31 مئی 2019 کو قلات سے لاپتہ طالب علم ماجد بلوچ،تین سال سے لاپتہ محمد ملوک عرف برین بگٹی،4 مئی 2019 کو ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ جوانسال ولد گہنور بگٹی،مستونگ سے 3 سال سے لاپتہ یاسر عرفات اورتین سال سے لاپتہ لطیف سرکری بگٹی بازیاب ہو کر گھر پہنچ گئے ہیں ہیں۔
21 جولائی
۔۔۔جبری لاپتہ افراد کے لیے عید کے دن کوئٹہ وکراچی میں احتجاجی مظاہرہ
ہر عید کی طرح اس عید میں بھی بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کوئٹہ اور کراچی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔
23 جولائی
۔۔۔ضلع کیچ سے 3افراد کی جبری گمشدگی پانچ مہینے بعد رپورٹ
ضلع کیچ کے علاقے تجابان میں پاکستانی فورسز نے چار پانچ مہینے قبل یعنی مارچ اور اپریل کے مہینے میں گھروں پر چھاپے مارکر تین افراد کو حراست میں لینے کے بعدجبری طور پر لاپتہ کیا۔
جن کی شناخت جہانزیب ولد علی بخش، عیس ولد میر دوست سکنہ سنگانی سر تربت اور جلال ولد پلین سکنہ تجابان کیچ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ان لاپتہ فراد کی جبری گمشدگی اہلخانہ کی خاموشی کی وجہ سے میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوسکی۔ان میں جہانزیب کو فورسز نے 9 اپریل 2021 حراست میں لے لیا جبکہ دیگر دو افراد کو 21 مارچ 2021 کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا گیا۔
خاندانی ذرائع نے مذکورہ افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا پہلے ہم اسی وجہ سے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ شاہد ہمارے لوگ بازیاب ہوں مگر بہت زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی وہ تاحال لاپتہ ہیں۔
24 جولائی
۔۔۔گومازی پاکستانی فوج کا آبادی پر دھاوا،بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے سابق وائس چیئرمین غلام نبی سمیت کئی افراد کے گھروں میں لوٹ مار تشدد،غلام نبی بلوچ کا کزن انتقال کر گیا۔
ضلع کیچ کے علاقے گومازی میں پاکستانی فوج نے آبادی کو محاصرے میں لینے کے بعد چئیرمین غلام نبی سمیت سیٹ پلان، کریم داد،مولابخش، سیٹ الحیٰ بخش، اور چئیرمین غلام نبی کے خالہ کے گھروں پر دھاوا بول کر گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا،دوران آپریشن پاکستانی فورسز کی تشدد کے بعدچئیرمین غلام نبی کے کزن بی بی کیگد اسی وقت دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔
25 جولائی
۔۔۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہاکہ پاکستانی بربریت و بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری بین الاقوامی سطح پرآگاہی مہم کے سلسلے میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جرمنی کے صوبہ ساکسن کے شہر کیمنٹس میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں صوبے کے مختلف علاقوں سے آنے والے بلوچوں نے شرکت کی۔ شرکا نے بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف ہونے والے مظالم اور بر بریت کے خلاف نعرے لگایا اوربلوچستان میں ہونے والے ظلم و بر بریت اورجبری لاپتہ افراد کے بارے میں مقامی لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیے۔
شرکاء نے اپنے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی وہ بلوچستان میں پاکستانی مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدہ بلوچوں کی منظر عام پر لانے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔
۔۔۔۔بی آر جی کاکمانڈردشمن کے ٹارچر سیلوں سے رہائی کے بعد شہید ہوگئے
شہید ستار کو سنہ 2014 میں پاکستانی آرمی نے سبی میں گرفتارکیا اور 2019 میں فورسز نے نیم مردہ حالت میں رہا کیا، دوران حراست 5 سال تک تشدد برداشت کرتے رہے اور اپنے تنظیم کے اہم راز اور اپنے ساتھیوں کے نام تک نہیں بتائیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ رہائی کے بعد شہید کمانڈر ستار ڈومکی نے بیماری کے حالت میں تنظیم کے لیے کئی کام سر اجام دیئے، طویل عرصے سے علاج کے دوران زخموں کے تاب نالاتے ہوئے آج بلوچستان کے علاقے کوئٹہ میں ایک ہسپتال میں شہید ہوئے۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے تشدد سے پارٹی ممبربانک کیگد بلوچ کو شہید کردیا، بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ کیچ گومازی میں پاکستانی فوج نے بی این ایم کے سابق وائس چیئرمین غلام نبی بلوچ، سیٹ پلان، کریم داد، مولا بخش، سیٹھ علی اور غلام نبی کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں پر حملہ کرکے خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا،فوجی تشدپارٹی کے خاتون ممبر بانک کیگد بنت عبداللہ شہید ہوئیں۔ترجمان نے کہا کہ فوج نے اس آپریشن میں عالم ولد سلام سکنہ چیری بازار گومازی کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔
26 جولائی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے تحصیل تمپ کے علاقے گومازی کے پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج کی جنگی جیٹ طیاروں کی بمباری کی اطلاعات ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق جنگی جیٹ طیارے گومازی کے پہاڑی علاقوں بومن سے بانپیر تک گشت کرتے دیکھے گئے جہاں طیاروں کی بمبارمنٹ کی۔
27 جولائی
۔۔۔منا مری اور تاؤ مری بازیابی کے باوجود گھر نہیں پہنچ سکے، نصر اللہ بلوچ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ 7 جولائی 2021 کو بازیاب ہونے والے منا جنڈوانی مری اور تاؤ جنڈوانی مری ابھی تک گھر نہیں پہنچ سکے۔
منا جنڈوانی مری اور تاؤ جنڈوانی مری کو پاکستانی فوج نے ایک فوجی جارحیت کے دوران کاہان سے حراست میں لیکر جبری طور پرلاپتہ کیا تھا۔
۔۔۔کولواہ، فوج کے ہاتھوں ایک بستی زبردستی خالی، 2افراد جبری لاپتہ
بلوچستان کے علاقے کولواہ شاپکول کی پوری بستی کو پاکستانی فوج نے زبردستی خالی کردیااور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا۔
جبکہ گیشکور سے پاکستانی فوج نے ایک گھر پر حملہ کرکے دو افراد کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
جن کی شناخت رفیق ولد سید اورسلیم ولد نیک کے ناموں سے ہوگئی ہے۔
گذشتہ روز پاکستانی فوج نے کولواہ شاپکول کے مکینوں کو اپنے کیمپ بلاکرکہا کہ وہ فوری طور پر شاپکول کو خالی کرواور نقل مکانی کرکے خضدارچلے جاؤ۔جس پر لوگوں نے وجوہات پوچھے تو انہوں نے کہا کہ تمام بستی والے آزادی پسند بلوچ جنگجوؤں سے رابطے میں ہے جس کی وجہ سے ہمیں کافی مشکلات اور عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ اہلیان شاپکول کی بڑی منت سماجت کے بعد پوری آبادی کو زبردستی کیچ منتقل کردیا گیا۔
30 جولائی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع سوراب سے سی ٹی ڈی نے دو مبینہ دہشتگروں کی گرفتاری دعویٰ کیا ہے۔
ترجمان کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے مطابق سوراب میں ایک مکان میں دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارکر وہاں موجود دو مبینہ دہشتگردوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
واضع رہے کہ سی ٹی ڈی، پولیس اورایف سی کی طرف سے اس طرح کے دعوے عموماً ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ گرفتار یا انکاؤنٹر کے نام سے مارے جانے والے اکثر جبری لاپتہ افراد ہوتے ہیں جو کئی کئی سالوں سے ریاستی عقوبت خانوں میں غیر انسانی اذیت سہہ رہتے ہوتے ہیں۔
۔۔۔ منگچر کی طرف پہاڑی علاقے میں ایک لاش بر آمد ہوئی ہے۔جس کی شناخت غلام مصطفی ولد غلام قادر بنگلزھی سکنہ مستونگ کے انم سے ہوگئی ہے جنہیں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا ہے۔ قتل کے محرکات سامنے نہ آ سکے
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست بعد جبری لاپتہ ہونے والے چرواہے کو فورسز نے دوران حراست قتل کرکے لاش اسپتال منتقل کردیا۔
گذشتہ دنوں ضلع کیچ کے علاقے ہیرونک اور سنگ آباد میں پاکستانی فوج نے دوران بربریت چرواہے غلام ولد شیہی کو حراست میں لیکر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایااور دوران حراست قتل کرکے لاش اسپتال منتقل کردیا ہے جبکہ اس کے ساتھ اغواء ہونے والے اللہ داد تاحال لاپتہ ہیں۔
۔۔۔گذشتہ دنوں کالی شیشے والی سرف گاڑی میں سوار مسلح افراد نے پنجگور کے علاقے گرمکان سے دو افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ حراست بعد لاپتہ ہونیوالوں کی شناخت مومو اور باسط کے ناموں سے ہوئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق اغواء کاروں کا تعلق ریاستی حمایت یافتہ گروہ یعنی ڈیتھ اسکواڈ سے ہیں جبکہ اغواء ہونے والوں میں باسط کو بعدازاں چھوڑ دیا گیا جبکہ مومو تاحال لاپتہ ہیں۔
31 جولائی
۔۔۔کو ئٹہ وکچی میں فائرنگ سے 2 افراد ہلاک
حاجی شہر بالاناڑی کچی کے علاقے چندڑ اور آمدان گاؤں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں امان اللہ ولد خیرجان ابڑو ہلاک جبکہ محمد امین ولد سبزل ابڑو شدید زخمی ہوگیا۔ زخمی محمد امین کو سول ہسپتال سبی لے جایا گیا۔
جبکہ شال میں مستونگ روڈ پر الاصف ہوٹل کے قریب نا معلوم افراد نے موٹر سائیکل پر فائرنگ کی جس سے مقبول احمد ولد اللہ بخش بادینی، عمر 35 سالسکنہ کیچی بیگ ہلاک ہوگیا۔ واقع کے محرکات سامنے نہ آ سکے
۔۔۔ نوکنڈی سے نامعلوم شخص کی پرانی اور تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔نوکنڈی سے 8کلو میٹر جنوب کی طرف ایک شخص کی تقریباً ایک ماہ پرانی لاش برآمد ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق لاش کی پہچان نہیں ہوئی ہے۔