صحافت کو پابند سلاسل کرنے کے لیے پاکستانی حربے جاری ہیں ,تحقیق۔ سمیر جیئند بلوچ

0
342


کسی مہذب اور جمہوری معاشرے کی عمارت چار ستونوں پر استوار ہوتی ہے،مقننہ انتظامیہ،عدلیہ اور صحافت ان میں سے کوئی ایک ستون بھی کمزورہوتو عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔مقننہ اور انتظامیہ کو آئین کے فریم ورک کے اندرکام کرنا ہوتاہے۔آزاد عدلیہ کا سب سے اہم کام یہ نگرانی کرنا کہ یہ ونوں آئین کی حدود میں رہیں۔ چوتھے ستون کا کام اس سے بھی زیادہ اہم ہے جو کچھ ہورہاہے اس سے عوام کو باخبر رکھنا اور اہم موجود ہ مسائل پر رائے عامہ کو منظم کرنا،قوم کی جانب سے صحافت پر ایک فرض عائد ہوتاہے نہ صرف رائے عامہ کی تنظیم و ترتیب،نگہداشت اور اظہار کرنا بلکہ تمام متعلقہ لوگوں کے علم میں لانا کہ کون سی باتیں غلط ہورہی ہیں جو عوام کی آزادی،حق اور بہبود کو خطرہے میں ڈال سکتی ہیں۔
دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں حکومتوں پر تنقید کرنا صحافت کا بنیادی حق ہے،خواہ یہ تنقید غلط ہی کیوں نہ ہو۔صحافت کی آزادی میں غلطیاں کرنے کی آزادی بھی شامل ہوتی ہے۔ان کے برعکس پاکستان کے الگ ہونے کے ایک سال بعد قوم کے لیڈروں نے ملک کی تعمیر وترقی میں حصے لینے کے بجائے اقتدار کی جنگ شروع کردی۔ عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام کے چوتھے ستون صحافت کے حوالے سے اقدامات کی ضرورت تھی دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح صحافت بھی بے بسی کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس1963 کے نفاذ سے پہلے پریس پر عائد ہونے والے متعدد قوانین موجود تھے۔
مثال کے طورپر تعزیرات پاکستان کی دفع 124(اے)باغیانہ تحریروں کے مصنفوں اور ناشروں کیلئے سزا تجویز کرتی تھی۔ اسی طرح قوم کے مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کے جذبات پیدا کرنے والی تحریروں پر سزا دینے کیلئے دفع ۳۵۱(اے)موجود
تھی۔ ہتک عزت کرنے والی مطبوعات سے نمٹنے کیلئے دفع 499 اور500 موجود تھی۔دفع 295(اے) ان لوگوں کو سزا کا مستحق قرار دیتی ہے جواپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے کسی گروہ کے مذہبی جذبات بھڑکانے کا باعث بنیں۔اسی طرح دفع292 فحش تحریروں کی روک تھام کیلئے موجود تھے۔اس کے علاوہ ہمہ گیر دفع 505 بھی موجود تھی، جس کی روسے ایسے کسی شخص کو سزا دی جاسکتی ہے جو ہر سطح پر افواج کو بغاوت پر اکسانے،عوام کو خوف وہراس میں مبتلا کرکے ریاست یا امن عامہ کے خلاف مجرمانہ سرگرمی پر اکسانے کے مقصد سے کسی بیان،افواہ یا رپورٹ کی اشاعت یا ترویج کا مرتکب ہو۔28ستمبر1954 کو مرکزی حکومت نے پریس کمیشن قائم کیا تھا، اسکی ٹرمز آف ریفرنس (دائرہ کار) کی شق ۱ کے تحت کمیشن کا کام یہ تھا ”پاکستان میں پریس کی نگرانی کرنے والے قوانین کا جائزہ لینا اور دوسرے جمہوری ملکوں کے ان سے ملتے جلتے قوانین اور موجودہ انتظامی طریقوں کی روشنی میں اور پاکستان کے مخصوص حالات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے،ایسی سفارشات کرنا جو قوانین میں ترمیم،نظرثانی یا انھیں مضبوط بنانے کیلئے ضروری ہوں“۔
چنانچہ19 اگست 1959 کو مرکزی کابینہ نے پریس کمیشن کی سفارشات کو منظور کرنے کا اعلان کیا اور یہ فیصلہ کیاکہ ایک مجموعی قانون،پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس نافذ کیا جکائے، جس میں وہ تمام قوانین شامل ہوں جو”جزوی یا کلی طورپر اثر انداز ہوتے ہیں“۔
پریس کمیشن کی رپورٹ 1959 کے مطابق مندرج ذیل خواتین جزوی یا کلی طورپر پاکستان صحافت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

۔۔ پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس 1867 ایکٹ
۔۔ اسٹیٹ (پروٹیکشن اگنیٹ ڈس آفیکشن) 1923 ایکٹ
۔۔ آفیشل سیکرٹس 1923 ایکٹ،
۔۔ پریس (ایمرجنسی پاورز) 1931ایکٹ
۔۔ فارن ریلیشنز 1932 ایکٹ
۔۔ اسٹیٹس (پروٹیکشن) 1924 ایکٹ
۔۔ تعزیر ات1860 پاکستان (ہند)
۔۔ کوڈ آف گریمینل 1898 پروسیجرز،
۔۔ سی کسٹمز 1885ایکٹ،۵
۔۔ ٹیلیگراف 1885 ایکٹ
۔۔ پوسٹ آفس 1898 ایکٹ،
۔۔ پراوونشل پبلک سیفٹی ایکٹ،1049،اور سیکورٹی آف پاکستان ایکٹ ۲۵۹۱ء کا بینہ نے کارکن صحافیوں کی تنخواہوں کے اسکیل اور دیگر مراعات طے کرنے کیلئے ایک ویج بورڈ کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا۔
تقریباََ آٹھ ماہ بعد ۶۲ اپریل 1960ء کو صدر ایوب نے تیس صفحوں پر مشتمل پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس،1960 نافذ کیا جو پرنٹنگ
پریسوں اخباروں،رسالوں،کتابوں اوردیگر مطبوعات سے تعلق رکھتا تھا۔اس میں ڈیکلریشن سے اجراء اور اس سے متعلق دوسرے معاملات کے بارے میں اصول وضح کئے گئے تھے۔ایوب خان کے مارشلا کے دوران پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس،1960 کو پریس کو آختہ کرنے کیلئے کافی سمجھا گیا،لیکن جون 1963میں مارشلاء کے اٹھائے جانے اور فرد واحد کے بنائے ہوئے آئیں کے نفاذ کے بعد ایوب کو اپنی حکومت کیلئے،سیاسی حمایت پیدا کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا، اور اس کیلئے ایک مکمل طورپر مفتوح صحافت کی ضرورت محسوس ہوئی۔یوں صحافت کی آزادی کا دائرہ مزید تنگ کردیا گیا۔(یہ کام صوبائی آرڈیننسوں کی مدد سے کیا گیا،جو ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشنز دوسرا ترمیمی آرڈیننس،1963 کے نام سے مصروف ہیں)۔
اس آرڈیننس کی بعض نارو ادفعات کی بناء پر اھل صحافت نے”کالے قانون“سے تعبیر کیا۔
آرڈیننس 1963کے خدوخال درج ذیل ہیں
پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس (۱۱) 1963 میں جاری ہوا،اس سے قبل رائج ”پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ“ خود بخود ختم ہوگیا۔1964 میں پی پی اور مجریہ1963 میں چندترامیم کی گئیں،جبکہ بھٹو دور حکومت کے دوران1973میں اس آرڈیننس میں کچھ اضافے بھی کئے گئے، اس آرڈیننس کے تحت ضروری قرار دیا گیا کہ:
۔۔ اخبار نکالنے کیلئے ضلعی مجسٹریٹ سے اجازت لینا ضروری ہوگا، ضلعی مجسٹریٹ ڈیکلرین کے اجراء سے قبل اس بات کا تعین حاصل کریگا کہ درخواستدہندہ کسی اخلاقی جرم میں پانچ سال سے زائد سزا یافتہ تو نہیں؟اس کے پاس اخبار جاری کرنے کیلئے مناسب سرمایہ ہے؟ وہ خود اس کے مجوزہ اخبار کا ایڈیٹر تعلیم یافتہ یا صحافت میں تربیت یافتہ ہے،اس یقین دہانی کے بعد ضلعی مجسٹریٹ اخبار کا اجازت نامہ (ڈیکلریشن
) جاری کردیگا۔
۔۔اگر اس بات کا خدشہ ہوکہ اخبار کا پرنٹریا پبلشر دفاع وطن،خارجہ تعلقات یا امن عامہ کے منافی حرکات کریگا،یا ہتھک عزت کیلئے اخبار کا استعمال کرے گا، تو ضلعی مجسٹریٹ ڈیکلریشن کی تصدیق سے انکار کرسکتاہے،ضلعی مجسٹریٹ کے اس فیصلہ کے خلاف پرنٹر یا پبلشر حکومت سے اپیل کرنے کا حق رکھتاہے۔
۔۔ کوئی غیر ملکی شہری حکومت کی اجازت کے بغیر کسی اخبار یا رسالے کی ملکیت میں حصہ دار نہیں بن سکتاحکومتی اجازت کے نتیجہ میں وہ صرف چوتھائی حصے کا مالک بن سکتاہے۔
۔۔کوئی اخبار اسمبلیوں اور سینٹ کی ایسی کاروائی شائع نہیں کرسکتا،جسے اسپیکر یا چیئر مین سینیٹ نے کاروائی سے حذف کروادیا ہو،اس کی خلاف ورزی کرنے والے اخبار کے خلاف قانونی کاروائی ہوسکتی ہے۔
۔۔ اگر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ زیر سماعت ہوتو عدالت کا جج مکمل کاروائی یا اس کے مخصوص حصوں کی اشاعت پر پابندی عائد کرسکتاہے۔
۔۔ دفعہ24(الف) پس ایسے پندرہ جرائم کا زکر موجود ہے،جن پر اخبارات کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہو۔
i۔تشدد پر اکسانا۔
ii ۔جرائم یا مجرموں کی تحسین۔
iii۔تشدد یا جنس سے متعلق ایسے جرائم کی تشہیر،جس کے نتیجہ میں ایسے جرائم کی حوصلہ افزائی ہو۔
iv۔بلیک میلنگ کرنا۔
v۔قانون کے نظم ونسق میں مداخلت پر اکسانا۔
vi۔امن عامہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنا۔
vii۔فحش،غیر شائستہ اور ہتک آمیز مواد کی اشاعت۔
viii۔جھوٹی افواہیں پھیلانا۔
ix۔تخلیق پاکستان کی مذمت یا اس کی خود مختیاری کے خلاف مواد کی اشاعت۔

۔ملک کے مختلف صوبوں کے درمیان منافرت کے جذبات پیدا کرنا۔
i x۔کسی بیرونی ملک سے دوستانہ تعلقات کو بگاڑ نا۔
xii۔مسلح افواج اور امن امان قائم رکھنے والی فورسز کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ۔
xiii۔سرکاری ملازمین کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی،تاخیر یا استعفی پر آمادہ کرنا۔
۷۔ تمام پرنٹر اور پبلشر اپنے اخبارات اور پرنٹنگ پریس کے آمد و خرچ کے حسابات کا اہتمام کریں گے۔
۸۔اخبارات کی جانب سے سرزد ہونے والی درج ذیل خلاف ورزیوں کی باز پرس صرف عدلیہ کرسکے گی۔
.iپرنٹ لائن (ایڈیٹر،پرنٹر،پبلشرز،پریس) اور مقام اشاعت کی عدم اشاعت۔
ii۔ڈیکلریشن کے حصولی کیلئے جھوٹا بیان۔
iii۔ڈیکلریشن کے بغیر پرنٹنگ پریس لگانا یا اخبار جاری کرنا۔
iv۔قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اخبار چھاپنا یا مرتب کرنا۔
۹۔دفع ۵۳کے مطابق اگر حکومت چاہے، تو کسی بھی اخبار کے درج ذیل امور کی چھان بین کیلئے انکوائری کمیشن کا تقرر کرسکتی ہے۔
i۔اخبار نقد،منقولہ یا غیر منقولہ آمدن کی صورت میں کسی سے مددلے رہی ہے۔
ii۔ایسی مدد مقامی افراد سے لی جارہی ہے یا بیرونی ممالک کے افراد سے حاصل کی جارہی ہے۔
iii۔کیا یہ رقم حکومتی اداروں،عام اداروں یا افراد کو بلیک میل کرکے حاصل کی جارہی ہے۔
iv۔کوئی اور معاملہ،جو مندرج بالا امور سے متعلق ہو۔
۔اخبارات کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ حکومتی فیصلے کے خلاف دوماہ کے اندر اپیل کر سکتے ہیں۔ایسی اپیلوں کی سماعت کیلئے ایک یا ایک سے
زائد ٹریبونل کا تقرر کیا جاسکے گا۔ ٹریبونل کو عدالت دیوانی تصور کیا جائے گا، اور اسے وہ اختیارات حاصل ہوں گی جو ضابط دیوانی کسی عالت کو دیوانی مقدمات کی سماعت کے وقت حاصل ہوتے ہیں۔ ٹریبونل کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوگا،اس کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکے گی۔
اس آرڈیننس کو اھل صحافت نے اپنے سروں پر لٹکی ہوئی تلوار قرار دیا اور اس کو سیاہ قانون سے بھی تعبیر کیا۔ اس آرڈیننس کے نفاذکے ساتھ ہی اخبارات کے مالکان کی تنظیم اور کارکن صحافیوں کی انجمنوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔کبھی کھلے عام اور کبھی دبے انداز پر احتجاج ہر دور حکومت میں جاری رہا۔ صدر ایوب کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس آرڈیننس کو معمولی ردوبدل کے ساتھ اپنائے رکھا۔ جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو اس آرڈیننس کے عملاََ آمد میں نرمی کا رویہ اختیار کیا گیا،جس کے نتیجہ میں ایک اخبار نے صدرمملکت کو ایک مضمون میں فحش گالی سے بھی نوازا۔دسمبر 1988 میں بے نظیر حکومت قائم ہوئی تو اس نے صدر کے جانب سے جاری ہونے والے آر پی پی اوکو یکم جنوری 1989کو نافذکردیا۔ اس آردیننس کے نفاذ کے کچھ ہی عرصہ بعد بے نظیر حکومت نے اس میں ضروری ردوبدل کیلئے سینٹ کی اسٹیندنگ کمیٹی کے سپرد کردیا۔بے نظیر دور حکومت کے بعد نواز شریف حکومت نے ملکی نظم ونسق کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کی نظر بھی رجسٹریشن آف پرنٹنگ پر اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس پر پڑی۔ حکومت نے اس قانون کا جائز ہ لینے کیلے کمیٹی تشکیل دی،پرنٹنگ اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس مجریہ 1963کو نئی شکل میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ وہ مختصر داستان ہے جو پی پی او مجریہ1963سے شروع ہوئی اور مختلف مراحل سے گزرتی 12 اکتوبر کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ تک پہنچا۔ لیکن اس داستان کا سفر جاری ہے،کیونکہ ایشیائی ممالک میں موجود جمہوری حکومتوں کو آزادی صحافت عموماََراس نہیں آتی۔
جب جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اکتوبر میں ملکی اقتدار پر قبضہ کیا تو سال 2001تک ملک ایک ایسے دور سے گزر رہاتھا،جہان نجی ٹی وی چینل کا نام نشان نہیں تھا۔اکتوبر2002ء میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط پر عمل در آمد کرتے ہوئے پہلی بار با ضابطہ طورپر نجی ٹی وی چینلز کو پاکستان میں کام کی اجازت دی گئی تو ملک میں صحافت کی اہمیت نئے موثر انداز میں اجاگر ہوا۔یوں میڈیا حالیہ سالوں کے پہلے اور نئے دور میں داخل ہوا، ایک ایسا دور جس میں ٹی و ی چینلزنے آہستہ آہستہ خبروں اور تبصروں پر اجارہ داری
حاصل کرنا شروع کردی، اس دور میں میڈیا نے اکتوبر2005ء کے زلزلہ میں بے مثال کردار ادا کیا گھروں میں والدین اپنے بچوں کو سی ایس ایس کرنے،ڈاکٹر یا انجنئر بننے کے ساتھ ساتھ میڈیا جوائن کرنے کے مشورے بھی دینے لگے نتیجتاََ یونیورسٹیوں میں میڈیا سے متعلق شعبہ جات میں طلبہ کا سیلاب آنے لگا۔میڈیا کا دوسرا دور نو مارچ ۷۰۰۲ء تک قائم رہا،جس میں میدیا ایک ایسے بچے کی طرح تھا جو اپنے آپ اور اپنی طاقت سے آشنائی حاصل کرنے میں مگن تھا۔
نو مارچ 2007 کو فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے تب کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا تو میڈ یا ملک میں آمریت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا ہراول دستہ بن کر ابھرایہ میڈیا کے مجموعی طورپر دوسرے دور کا آغاز تھا۔میڈیا بڑھ چڑھ کر طاقت کے مراکز کو چیلنج کر رہا تھا،یہ الگ بات کہ آمریت کے خلاف بننے والی علامت،بکدوش چیف جسٹس درون پردہ طاقت کے انہی مراکز سے مزاکرات اور کچھ لو کچھ دو کی ڈیل میں مصروف تھے اس مرحلے پر پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دن بہ دن طاقت پکڑتے اس میڈیا سے نمٹیں تو نمٹیں کیسے؟چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کے بعد تین نومبر2007 کو ایک بار پھر برطرفی کی گئی تو اس عمل میں ٹی وی چینلز بھی بند کردیئے گئے اور اخبارات کو بھی کڑی ہدایت دی گئی یہ اس دور میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے میڈیا کو مکمل طورپر کنٹرول کرنے کی پہلی بڑی کوشش تھی۔معافی تلافی اور منت سماجت کے ساتھ بدلتے حالات اور دن بدن کمزور ہوتے پرویز مشرف نے ایک وقفے کے بعد ٹی وی چینلز کو بحال کردیا۔18 اگست2008 کو مشرف تو مستعفی ہوگئے مگر طاقت کے مراکز کی نظر حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی اٹک گئی،کیونکہ ملک میں صحافت طاقت کی ایک نئی شکل بن کر ابھری تھی جس نے اسٹیبلشمنٹ کے مراکز کو ہلا کر رکھ دیا تھا،ظاہر ہے اسے کنٹرول کرنا بھی ترجیحات میں شامل ہوگیا تھا۔ اس دور میں میڈیا نے اپنی طاقت کے نشے میں کچھ غلطیاں بھی کیں میڈیا مہذ حقائق رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ احتساب کا ایک ہتھیار بھی بن گیا تھا،طاقت کے مراکز کو سال 2008 میں میڈیا کی طرف سے ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کی رپورٹنگ کا بھی بڑا رنج تھا۔ اس عمل کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا جارہاتھا یہ عمل ملکی مفاد کی خلاف ورزی تھا یا نہیں یہ ایک مکمل الگ موضوع بحث ہے مگر یہاں ایک تاریخی درستگی بھی ضروری ہے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کی خبر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ کے ٹیوی چینل جیو نیوز نے دی حالانکہ یہ سراسر غلط ہے،یہ خبر سب سے پہلے دائیں بازو کے ایک میڈیا گروپ نوائے وقت کے وقت ٹی وی نے نشر کی تھی۔ بعد ازاں یہ خبر ڈان پر نشر ہوئی پھر ایک غیر ملکی اخبار نے اسے شائع کیا تو پاکستانی میڈیا کے تمام چینلز بشمول جیو نے اسے رپورٹ کیاچونکہ لوگ دیکھتے ہی جیو تھے اس لیئے طاقت کے مراکز بھی یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید یہ خبر جیو نے ہی سب سے پہلے دی جوکہ ہرگز درست نہیں۔
افتخار کھوکر لکھتے ہیں:
”معروف ٹی وی اینکر حامد میر پر حملے کے بعد میڈیا تیسرے دور میں داخل ہوااس واقع بعد ایسا کیچڑ اچھالا گیا کہ ہرطرف گند ہی گند ہوگیامیڈیا اداروں میں تقسیم آئی کہ خدا کی پناہ۔دراصل2007سے2014 کے دوران جب میڈیا طاقت کے عروج پر تھا اور اقتدار اور طاقت کے بڑے بڑے ایوانوں کو چیلنج کر رہا تھا تو اسی وقت میڈیا کے اس جن کو بوتل میں بند کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔طاقت کے عروج کے دنوں میں میڈیا کے اداروں میں کچھ لوگوں کی خدمات مستعار لی گئیں تو کچھ لوگوں کو خاس طورپر میڈیا اداروں میں شامل کروایا گیا۔کچھ کیسز میں رے اوپن کر لئے گئے اور کچھ نئے ادارے قائم کرکے قیام پاکستان سے موجودہ میڈیا کے اداروں پر گند اچھالا گیا۔اس سارے عمل میں میڈیا کے اندر اہم عہدوں پر تعینات کچھ کرداروں نے اسٹیبلشمنٹ کی خوب معاونت کی۔وہ کردار آج بھی میڈیا کے اداروں میں بدستور موجود ہیں کیونکہ پاکستانی میدیا مالکان کو طاقتور حلقوں سے بات چیت کیلے ان کی خدمات درکار ہیں لہذا دونوں کاکام چل ر ہے ہیں۔
حامد میر پر 2014حملے کے بعد سے آنے والا ہر سال میڈیا کو متنازع بنانے اور ممتاز پیشہ ور صحافیوں کی درگت بنانے جیسے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ آئے روز صحافت اور صحافی زوال کے نئے عروج پکڑچھو رہے ہیں اس عمل کے دوران خاموشی سے میڈیا کے اندر چھاتا بردار طبقہ زیادہ تر ٹی وی اینکر ز کی شکل میں نمودار ہوا۔کسی صحافتی پس منظر کے بغیر خاموشی سے میڈیا میں در آنے والے ان حضرات کے پاس یا تو طاقتور حلقوں کی پرچی تھی یا کسی کی سفارش دونوں صورتوں میں یہ افراد یہ ضرور سمجھ چکے تھے کہ پاکستانی میڈیا میں کامیابی کی واحد کنجی طاقت کے اصل مراکز کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہی ہے۔ آج میڈیا پر کوئی پیشہ ور صحافی سوال اٹھائے تو اس کے سوال پر غور کرنے کہ بجائے اس پر الزام عائد کرکے اسے متنازع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس عمل کا سب سے زیادہ سامنا دی نیوز کے معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کو ہے۔ ا ن کے ہمراہ احمد نورانی بھی اپنی خبروں اور تبصروں کے باعث ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔یہ کام اعلٰی ترین سرکاری سطح سے شروع ہوکر سوشل میڈیا پر موجود ہر دوسرا شخص کر رہاہے۔ابھی کل کی بات ہے ممتاز صحافی عاصمہ شیرازی حکومت پر ایک سوال اٹھاتی ہیں تو جواب میں پنجاب حکومت کے ترجمان ان پر ے بنیاد الزامات کا دلائل سے جواب دیا جاتاہے تو معافی مانگنا تک گوارہ نہیں کیا جاتا۔تاہم عاصمہ شیرازی کے خلاف سوشل میڈیا پر خوب مہم چلائی جاتی ہے۔
میڈیا کو تو پہلے ہی متنازع بنادیا گیا تھا مگر معاشی بحران کورونا کے لاوے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ اعشاریے اور علامتیں بتا رہی ہیں کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی آنے والے کئی سالوں تک مشکل کا شکار رہیں گے۔ صرف پاکستان میں میڈیا معاشی بحران کا شکار نہیں بلکہ دنیا کے بعض دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔پاکستان میں بھی اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی ہے تو دوسری اہم وجہ حکومت اور میڈیا مالکان کی آنکھ مچولی بھی ہے۔ حکومت میڈیا مالکان کے کم و بیش پانچ ارب روپے دینے سے گریزاں ہے تو میڈیا مالکان بھی صحافیوں کو اپنے خالی ہاتھ اور جیبیں دکھارہے ہیں۔ اس سارے عمل نے خبر اور معلومات کی رسائی جیسے نازک مگر انتہائی اہم کام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینل کی خبروں اور تبصروں کی مکمل نگرانی ہورہی ہے۔ جس کے باعث سچ کی کڑواہٹ بیان کرنے والی آوازیں مدہم ہورہی ہیں یا ٹی وی اسکرین اور اخبارات کے صفحات سے غائب۔
صحافت کے تین ادوار میں سے تیسرا دور بدترین تباہی کا دور ہے۔یہ دور میڈیا پر مکمل کنٹرول کا زمانہ ہے۔پہلے میڈیا کی پہنچ اور رسائی پر کنٹرول حاصل کیا گیا۔ پھر میڈیا اداروں کے اندر ایسے گھس بیٹھے داخل ہوئے جو نام تو صحافت کا لیتے رہے مگر چھید بھی اسی تھالی میں کرتے رہے۔ اس سارے عمل کے ساتھ خاموشی سے یہ کب ختم ہوگا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں لیکن اگر سیاسی سطح پرکچھ مثبت تبدیلیاں نہ آئیں اور آئین کی بالادستی صحیح معنوں میں قائم نہ ہوئی تو ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا ہی صحافت کے چوتھے دور کی نشانی ہوں گے۔
دنیا بھر میں صحافت اور میڈیا کے اداروں کی بجائے اب صحافیوں کو دیکھا جانے لگا ہے۔ آزاد صحافیوں کے ٹویٹر،فیس بک اور یوٹیوب اکاؤنٹس پر نظر رکھی جارہی ہے۔(ہاں کچھ جعلی کردار بھی اس میں گھس رہے ہیں) پاکستان بھی صحافت کے اس دور کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان میں صحافت کے چوتھے دور کا آغاز اسی روز ہوگیا تھا،جس روز پاکستان کے پہلے صحافی نے سوشل میڈیا کو مستند خبروں اور تجزیے کے اجرا کیلئے اپنا ہتھیار بنایا افسوس ناک بات یہ ہے کہ چوتھا دور میڈیا کے اداروں کی تباہی اور صحافیوں کے بے روزگاری کے ملبے کے نیچے سے نکل رہا ہے۔ سچ کا سفر مگر جاری ہے۔ اگر پابندیوں کا انداز نیا ہے تو سچ بولنے والے بھی نت نئے راستے نکال رہے ہیں۔“ موجودہ جاری وقت میں عمران خان کے غیر اعلانیہ فوجی حکومت بارے یورپی پارلیمنٹ نے اپنے قراداد میں کہاہے کہ
”صحافیوں اور سول سوائٹی کے اراکین کو بھی حراساں کیاجارہاہے جس پر یورپی پارلیمٹ کو تشویش ہے“

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here