…..پاھار……
بلوچستان: انسانی حقوق خلاف ورزیوں کی بدترین سطح پر
ماہ ِ فروری میں 70سے زائد فوجی آپریشنز میں 60 افرادلاپتہ،
10افرادقتل،200سے زائد گھر نذر آتش
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
بلوچستان میں ہر ماہ کی طرح اس ماہ بھی پاکستانی فوج کی بربریت جاری رہی۔جہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں حسب معمول
بلا روک ٹوک ہوتی رہیں لیکن پاکستان کی بیلگام فوج و ایجنسیوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
البتہ پاکستان شدید داخلی بحران کا شکار ہے۔عسکری اسٹیبلشمنٹ اب کھل کر سامنے آگئی ہے اورطاقت کے بے رحمانہ استعمال کی وجہ سے عوامی حلقوں میں بھی اس کے لئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔اور سہرا یقیناً ان قوتوں کو جاتا ہے کہ جنہوں نے سخت سے سخت ریاستی ظلم وجبر کے باوجود اپنی آوازکو دبنے نہیں دیا جس سے آ ج عوام میں یہ پیغام پہنچ چکا ہے کہ پاکستان میں عوامی استحصال کا دارومدار سیاستدان نہیں بلکہ عسکری اسٹیبلشمنٹ ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے ایک بار پر پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا جس سے پاکستان شدید معاشی بحران و دباؤ کا شکار ہے۔عالمی ادارہ فنائنشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت سے متعلق اب تک کے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان کو جون تک گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو ادارے کی جانب سے تجویز کردہ 27 میں سے 3 سفارشات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس لیے اسے جون 2021 تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے جس کے بعد اس پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے گی۔یاد رہے کہ اکتوبر 2020 میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے 6 سفارشات پر عمل درآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے چار ایسے شعبوں کی نشاندہی کی تھی جس میں مزید کام درکار تھا اور اس کے لیے پاکستان کو فروری 2021 تک کا اضافی وقت فراہم کیا تھا۔یہ فیصلہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے عالمی نگراں ادارے ایف اے ٹی ایف کے تین روزہ اجلاس کے بعد کیا گیا ہے۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرے کریں کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کر کے نہ صرف اس کی تحقیقات کر رہے ہیں بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف جو قانونی کارروائی کی جائے اس کے نتیجے میں انھیں سزائیں ہوں جس سے ان جرائم کا مکمل خاتمہ ممکن ہو پائے۔
اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشتگردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ انھیں فنڈز اکھٹا کرنے سے روکا جا سکے اور ان کے اثاثوں کی نشاندہی کر کے منجمد کیا جائے اور ان تک رسائی روکی جائے۔
مگر دور دور تک پاکستان کی جانب سے کوئی عملی پیش رفت ہونے والا نہیں ہے، جسکی وجہ یہ ہے کہ عالمی دہشت گرد حافظ سعید،بخت زمین خان سمیت القاعدہ،جیش اور طالبان کے تمام سرگردہ لوگ جو افغانستان اور انڈیا سمیت افریقی ممالک میں دہشت گردی کروا رہے ہیں پاکستان بیس ہیں اور مالی معاونت سمیت منی لانڈرنگ میں پاکستان دنیا کی بدنام ترین ممالک میں شامل ہے۔
اسکے علاوہ داخلی بحران کی وجہ سے عمران خان نیازی کی حکومت بھی آخری سانس لے رہی ہے، سینیٹ میں نیازی مخالف اتحاد کی جیت نے نیازی کے لیے خطرے کی کی گھنٹی بجا دی ہے،دوسری جانب چین بھی پاکستان سے سی پیک و دیگر منصوبوں میں پیش رفت نہ ہونے قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے پر ناراض دیکھائی دے رہا ہے۔
فروری2021 میں حسب معمول پاکستانی فوج نے بلوچستان بھر میں 70سے زائد زمینی و فضائی آپریشنز کئے۔جن میں ضلع آواران،ضلع کیچ، ضلع پنجگور،سمیت بولان،کوہلو،سبی ڈیرہ بگٹی،مستونگ،قلات کے علاقے شامل تھے۔ جس میں دو سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ دو سو گھروں میں لوٹ مار کی گئی،خواتین و بچوں پر تشدد کے ساتھ 60 افراد کو فورسز نے لاپتہ کیا۔دو اسکولوں پر فوج نے قبضہ کر کے کیمپ میں تبدیل کیا۔
دوران آپریشنز اطلاعات کے مطابق150 سے زائد مویشیاں فوج اپنے ساتھ لے گئی جبکہ سو سے زائد گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے مارے گئے۔
اسی ماہ 10افراد کی لاشیں برآمد ہوئے۔
دو بلوچ فورسز کے حملے میں شہید ہوئے، ایک خاتون باردوی سرنگ کی زد میں آئی،جبکہ7 افراد کے قتل کے محرکات سامنے نہیں آ سکے۔
اسی ماہ20افراد ریاستی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے۔
جس میں 2020 سے لاپتہ چھ افراد،2019 سے لاپتہ7 افراد،2018 سے لاپتہ دو افراد،2016 سے دو افراد،2015 سے لاپتہ ایک شخص،2014 سے لاپتہ ایک شخص،2013 سے لاپتہ ایک شخص تھا۔
پاکستانی قبضے سے ہی بلوچ ریاستی جبر کا شکار ہے،مگر خاص کر2006 کے بعد سے اس میں تیزی لائی گئی اور آج شاید ہی بلوچستان میں کوئی ایسا خاندان ہو جو ریاستی فورسز کی سنگینوں سے بچ سکا ہو۔
مقبوضہ بلوچستان لہولہان ہے مگر ہمسایہ ممالک اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بے خبر اور خاموش ہیں۔گھروں میں لوٹ مار ان کو نذر آتش کرنے کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ و بمباری معمول بن چکی ہے۔اسکولوں،گھروں پر قابض فوج قبضہ کر کے انکو آرمی کیمپ،چوکیوں،چیک پوسٹوں میں تبدیل کر رہی ہے۔مقبوضہ بلوچستان میں اسکولوں سے زائد آرمی کیمپ،چیک پوسٹ،چوکیاں قائم ہیں۔
آج بلوچستان لہولہان ہے،عالمی میڈیا و انسانی حقوق کے اداروں کی بلوچستان میں دسترس نہیں،اسکے علاوہ سب سے بڑی بدنصیبی کہ آج تک بلوچ اقوام متحدہ کو قائل نہ کر سکے کہ وہ بلوچستان کو مقبوضہ تسلیم کرنے کے ساتھ زمینی حقائق جاننے کے لیے کوئی دفد بھیجے۔
سرزمین بلوچاں میں بلوچ سرمچار بہادری کے ساتھ قابض دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے دشمن پر وار کر کے اس کو وار سائیکو بنا دیا ہے،اب بلوچ تنظیموں کو چائیے کہ وہ اپنے سفارتی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے منظم حکمت عملی بنائیں اور داخلی و خارجی تباہی کے دہانے پر کھڑا پاکستان کو آخری دھکا دیں۔
جس خطے میں بلوچ سرزمین واقع ہے وہاں کوئی بھی پاکستان کی دہشت گردانہ پالیسیوں سے خوش نہیں حالانکہ چین بھی پاکستان کی دہری پالیسی جان چکا ہے،مگر میرے خیال میں منظم فارن پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ ان فوائد کا فائدہ نہیں اُٹھا پا رہا ہے۔
حالات کا تقاضہ ہے کہ بلوچ بدلتے عالمی و علاقائی تبدیلیوں سے فائدہ اُٹھائے اور قابض کے داغ دار چہرے کو دنیا کے سامنے عیاں کر کے اپنی آزادی کے لیے مہذب اقوام و ہمسایہ ممالک کو قائل کرئے۔
ماہ فروری 2021کی تفصیلی رپورٹ درج ذیل ہے۔
یکم فروری
۔۔۔ضلع قلات کے علاقے منگچر میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے کبیر احمد نامی شخص کو قتل کردیا۔منگچر واقعہ کلی محمد شہی کے مقام پر پیش آیا۔ پولیس نے لاش تحویل میں لیکر اسپتال منتقل کردیا ہے۔فائرنگ کے واقعہ کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے۔
2 فروری
۔۔۔بلوچستان کے علاقے اوتھل میں تیز رفتار کوچ الٹ گئی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد جاں بحق اور 9 زخمی ہو گئے۔
مسافرکوچ پنجگور سے کراچی جا رہی تھی کہ اوتھل میں سکن کے علاقے میں ویارو فارم کے قریب تیز رفتاری کے باعث حادثے کا شکار ہو گئی۔
3 فروری
۔۔۔بلوچستان کے علاقے بولان میں فوجی آپریشن کے دوران کے دوران پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو اس کے بیٹوں کے ہمراہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد وہ لاپتہ ہیں۔فورسز کی جانب سے بولان کے علاقے سارو اور گردنواح میں آپریشن کی گئی اس دوران فورسز نے ککی وڈھ کے مقام سے دینار مزارانی نامی ایک شخص کو ان کے دو بیٹوں کے ہمراہ حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جس کے حوالے سے تاحال کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔واضح ہے کہ دوران آپریشن مذکورہ علاقوں میں زمینی فورسز کو فضائی کمک بھی حاصل تھی۔
۔۔وادی مشکے متعدد علاقوں میں پاکستانی فوجی آپریشن جاری ہے اور پہاڑی علاقوں میں فوج کی بڑی تعداد پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔
تنک سے چالیس آرمی کی گاڑیوں کا قافلہ اور اونٹ،گدھے بھی فوجی قافلے میں شامل ہیں اور سولیر کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔
جبکہ ضلع پنجگور سے فوج کی بڑی تعداد سولیر،ٹوبہ گچک کی جانب داخل ہو گئی ہے۔ مذکورہ تمام علاقے فوجی محاصرے میں ہیں۔
۔۔۔ضلع پنجگور میں گومازین کور سے ایک دس دن پرانی لاش برامد ہوئی ہے۔
مقتول کی شناخت ’ثناء اللہ ولد بہار جان‘ کے نام سے ہوئی ہے جو 21 جنوری 2021 سے پراسرار طور پر لاپتہ تھا اس کی لاش گومازین کے قریبی کور سے ملی ہے۔مقتول کو ممکنہ طور پر گلے میں رسی ڈال کر قتل کیا گیا ہے جو ان کی لاش کی گردن پر بھی بندھی ہوئی تھی۔ تاحال اس قتل کی وجوہات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
۔۔۔وادی مشکے میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے۔پاکستانی فوج نے سولیر میں متعدد گھر جلا ڈالے ہیں۔
مشکے کے علاقے سولیر میں قابض پاکستانی فوج نے فراز ولد شہید غلام قادر ساجدی کے گھر جلا ڈالے ہیں۔واضح رہے کہ شہید غلام قادر اور ملا محمد عیسی کے نوجوان بیٹے کو تین سال قبل ایک فوجی آپریشن دوران انکے گھروں میں فوج نے بھون ڈالا تھا۔
تحصیل مشکے کے زرعی علاقہ سولیر میں فوجی آپریشن درجنوں گھروں کو بھی لوٹ مار کے بعد جلایا گیا۔
4 فروری
۔۔۔کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری سے تیس جولائی2020 کو پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا عبدالمجید ولد شہداد سکنہ ساکران ھب چوکی لسبیلہ سے بازیاب ہو گیا ہے۔
۔۔۔ڈیرہ بگٹی سے دو سال قبل فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے فیض محمد ولد پیر محمد بگٹی، اور گزو ولد واسو بگٹی بازیاب ہو گئے ہیں۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے بلوچ آباد مند سے6 مئی2019 کو فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والا سلیم سلمان ولد خداد بازیاب ہو گیا ہے۔
۔۔۔وادی مشکے پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ایک گاؤں میں لوٹ مار کے بعد گاؤں کے ستر گھر مکمل نذر آتش۔
سولیر میں لوڑ میں ایک گاؤں کے ستر گھروں میں لوٹ مار کے بعد انکو نذر آتش کر دیا گیا ہے،مقامی ذرائع کے مطابق گاؤں کے تمام خواتین،بچے بزرگ، کھلے آسمان تلے سخت سردی میں پڑے ہیں اور مذکورہ گاؤں فوجی محاصرے میں ہونے کے ساتھ ٹوبہ،سولیر مکمل فوجی محاصرے میں ہیں۔
5 فروری
۔۔۔پروم کے علاقے جائین میں جبری جلاوطن سیاسی کارکنان کے گھروں پرچھاپہ،بزرگ والد کو فوجی اہلکار لے گئے، ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔
ضلع پنجگور کے علاقے پروم جائین میں جبری جلاوطن سیاسی کارکنان کے گھروں پر پاکستانی فوجی اہلکاروں نے چھاپہ مار کر ’والد‘کو گرفتار کیا بعد ازاں اہل محلہ کے احتجاج اور گرفتار شدگان میں سے ایک عمر رسیدہ شخص کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں دوبارہ کیمپ پیش ہونے کا کہہ کر چھوڑ دیا گیا۔جمعرات کی شام پاکستانی فوجی اہلکاروں نے جائین پروم میں واقع بلوچ نیشنل موومنٹ کے جبری جلاوطن ممبران ’عالم‘اور ’عمران‘کے گھروں پر چھاپہ مارا اور ان کے والد ’حاجی صالح محمد ولد جمال‘اور ’حاجی عبدالحکیم ولد جمال‘کو گرفتار کرکے قریبی اسکول میں قائم چیک پوسٹ لے گئے۔
7 فروری
۔۔۔بلوچستان کے علاقے بولان اور ہرنائی میں پاکستانی فورسز کی جانب سے فوجی آپریشن کا سلسلہ جارہی ہے۔ کئی علاقوں میں پیش قدمی جبکہ بڑی تعداد میں فورسز نے مارٹر گولے فائر کیئے ہیں۔شاہرگ، جمبرو، جھالاوان اور میڑداری سمیت گردونواح میں آپریشن کیا گیا۔
مذکورہ علاقوں اور گردنواح میں پاکستانی فورسز کی جانب سے متعدد مارٹر گولے فائر کیئے۔ خیال رہے مذکورہ علاقوں میں بلوچ اور پشتون اقوام آباد ہیں جو بنیادی طور پر مالداری کے پیشے سے وابسطہ ہیں۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ کے 12 کمروں پر مشتمل ہائی اسکول پر پاکستانی فوج نے قبضہ کرکے اپنے کیمپ میں تبدیل کردیا ہے علاقے میں گرلز ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں اسی ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔اسکول پر فوجی قبضے کے بعد بہت سی طالبات نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے نذر آباد سے گرفتار کیے گئے نوجوان کو پانچ دن عقوبت خانے میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔
جاوید ولد خالد رحیم کو پاکستانی فوج نے نذرآباد میں گھر سے چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا تھا۔ دوران گرفتاری احتجاج پر بچوں اور خواتین کو تشدد کانشانہ بنایا گیا۔.
۔۔۔سبی کے علاقے لہڑی میں بارودی سرنگ کی زد میں آ کر ایک خاتون کنول بی بی جابحق متعدد زخمی۔
8 فروری
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کوہلو،خاران اور ہرنائی میں پاکستانی فورسز کی جانب سے فوجی آپریشن کی جارہی ہے۔ جہاں دو افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاہے،فورسز نے کوہلو اور سبی کے درمیانی علاقے بیجی کور میں آج علی الصبح پیش قدمی کی، گن شپ ہیلی کاپٹروں نے مذکورہ پہاڑی علاقے میں شیلنگ کی جس کے بعد پیدل فورسز مذکورہ مقام پر پہنچ گئے۔
۔۔۔خاران شہر کے مختلف علاقوں سمیت کْلان میں فوجی آپریشن کی جارہی ہے۔ کْلان میں گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ آمد و رفت کے راستوں پر ناکہ بندی کرکے چیکنگ بھی کی گئی۔
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے عیسیٰ کہن میں فائرنگ سے ایک شخص صبیر احمد ولد نور اللہ ہلاک ہوگیا،محرکات معلوم نہ ہو سکے۔
۔۔۔ضلع آواران میں پاکستانی فوج کامختلف علاقوں میں آپریشن،تمام داخلی و خارجی راستے مکمل سیل کر دئیے گئے ہیں۔
پاکستانی زمینی فوج نے دراسکی،والی،تیرتیج،گواش کو مکمل محاصرے میں لیا ہوا ہے اور آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ زمینی فوج کی سو گاڑیوں کے قافلے پہاڑی علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں،جبکہ پیدل فوج کی بڑی تعداد اس آپریشن میں شامل ہے،مذکورہ علاقوں کا مکمل محاصرہ کرنے کے ساتھ شدید نوعیت کی آپریشن جاری ہے۔
۔۔۔ضلع کیچ میں گزشتہ تین دنوں سے تحصیل بلیدہ کے علاقے گروک و گردنواع میں پاکستانی زمینی فوج کے آپریشن کا سلسلہ جاری رہا، لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ تمام افراد کے موبائل فونز کی تلاشی کے انکو ضبط کیا جا رہا ہے۔پاکستانی فوج نے ایک تیرہ سال کے بچے کو اس وقت سخت تشدد کا نشانہ بنایا جب موبائل فون سے بلوچی گانے اور انقلابی گانے سامنے آئے اس کے ساتھ درجنوں خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
۔۔۔بلیدہ کے کئی علاقوں سمیت،زامران جالگی بند میں بھی فوجی آپریشن کیا گیا۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے ناگ کولواہ میں پاکستانی فوج نے ایک اور اسکول پر قبضہ کرکے وہاں اپنی چوکی قائم کی ہے۔
۔۔۔کولواہ اور کیلکور کے درمیانی پہاڑوں پر جنگی ہیلی کاپٹر گشت کررہے ہیں اور پیدل فوج بھی پہاڑی علاقوں کی طرف پیش قدمی۔
۔۔۔گذشتہ دنوں گورکوپ ہائی اسکول پر بھی پاکستانی فوج نے قبضہ کرکے وہاں اپنی چوکی قائم کی تھی، گورکوپ ہائی اسکول میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی زیر تعلیم ہیں، فوجی قبضے کے بعد اسکول میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے اور طالبات نے اسکول جانا ترک کیا ہے۔
9 فروری
۔۔۔جھاؤ پاکستانی فوج نے قریب جلونٹی کی آبادی پر دھاوا بول کر لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھروں میں موجود تمام اشیاء کا صفایا کر دیا ہے۔
۔۔۔ ضلع کوہلو میں پاکستانی فورسز کی جانب سے گذشتہ روز سے آپریشن جاری ہے، دوران آپریشن دو افراد جانبحق اور خواتین و بچے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ کوہلو کے علاقوں ہیجی کور، ڈونگان، باریلی اور گردونواح کے علاقوں میں پاکستانی فورسز نے آپریشن کیا ہے۔ گھروں پر شیلنگ کے نتیجے میں دو افراد موران مری اور میران مری شہید ہوئے ہیں جبکہ مذکورہ گھر کے خواتین اور بچوں کو فورسز اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔اسی طرح مذکورہ علاقے میں جھونپڑیوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا ہے۔جن لوگوں کے خاندان کے بچوں اور خواتین کو گرفتار کرکے ہرنائی کے فوجی کیمپ میں منتقل کیا گیا ہے ان میں ایک مقامی چرواہا ’مبارک مری‘کا خاندان بھی شامل ہے۔
۔۔۔ساحلی شہر گوادر میں پسنی جانے والے تین افراد کو نامعلوم افراد نے اغوا کرنے بعد دو کو مار دیا،مرنے والوں کی شناخت ماجد ولد اکبر سکنہ پسنی وارڈ نمبر ۲، جمیل احمد ولد صاحب داد سے ہوئے۔
۔۔۔آٹھ ماہ ریاستی تشدد کا شکار نوجوان بازیاب ہونے کے بعد ایک بار گرفتار کر لیا گیا ہے
ضلع خضدار سے 13 جون 2020 سے لاپتہ ہونے والے طالب علم اعظم ولد داؤد جو کہ 12 جنوری 2021 کو رہا ہوکر گھر پہنچ گیا تھا،اسے گذشتہ ہفتے کو اسسٹنٹ کمیشنر خضدار نے مزید تفتیش کے نام پر دوبارہ خضدار میں بلا کر اسے سینٹرجیل خضدار منتقل کر دیا۔دوران قید وہ ذہنی اور جسمانی طور پر کافی کمزور ہوچکا تھا اس پر پاکستان کے خلاف وال چاکنگ کے الزامات لگائے گئے تھے۔
اعظم ولد داود سیکینڈئر کا طالب علم ہے جو کرونا کے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے اپنے علاقہ میں آیا تھا۔اسے فوجی جارحیت کے دوران گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا گیا تھا۔
۔۔۔نوراللہ ولد جان محمد جتک‘ کو 8 سال قبل جب کہ ’اختر شاہ ولد نادر شاہ‘ کو 5 سال قبل پاکستانی خفیہ اداروں نے ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا تھا دونوں کا تعلق مستونگ سے ہے،جو بازیاب ہو گئے ہیں۔
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ سے فورسز نے ریاض ولد لال محمد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔
10 فروری
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے علاقے سبی ببر،جریبی، بکروگولوشہر اور دیگر علاقوں سے 35 سے زائد افراد جبری گمشدہ
سبی،ببر، جریبی، بکرو گولو شہر اور دیگر علاقوں سے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 35 سے زائد افراد کو گرفتاری کے بعدلاپتہ کردیا ہے۔یہ علاقے پاکستانی فوج کے سخت محاصرے میں ہیں۔
۔۔۔کوریاک میں پاکستانی فوجی جارحیت کے دوران ’گل محمد ولد میر احمد چلگری مری‘کو سنگے کوٹ کلا اسپن تنگی ہرنائی سے ایف سی اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا ہے۔
11 فروری
۔۔۔وادی مشکے مالدار میر حکیم کا بیٹا دو نواسوں سمیت پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر آرمی کیمپ منتقل کر دئیے، مال مویشی پاکستانی فوج نے اغوا کر لیے۔
واٹیل کور کے دامن میں مالدار میر حکیم کے گھروں پر پاکستانی فوج نے گزشتہ روز دھاوا بول کر میر حکیم انکے بیٹے حبیب اور دو نواسوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنا یا،اور اسکے بعد میر حکیم کے بیٹے حبیب کو تنک آرمی کیمپ پاکستانی فوج اپنے ساتھ لے گئی۔ بروز جمعرات ایک بار پھر پاکستانی فوج نے میرحکیم کے مال مویشیوں پر دھاوا بول کر درجن بھر مویشیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ انکے دو نواسوں کو مویشیوں سمیت تنک آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ 2010 میں ایک فوجی آپریشن میں میر حکیم کے تمام گھروں کو نذر آتش کیا گیا اسکے بعد سے خاص کر 2013 کے بعد سے میر حکیم سخت فوجی احتاب میں رہا اور انکو دس دفعہ پاکستانی فوج نے اغوا کر نے کے ساتھ ہاتھ پاؤں بھی تھوڑے اور ہر بار انکے مویشیوں لوٹا اور ہلاک کیا گیا۔بزرگ میر حکیم گزشتہ روز سولیر آپریشن کے دوران بھی سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع آواران اور ضلع کیچ کے درمیانی علاقوں میں پاکستانی فوج کی بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔
گیشکور، گزی،ھیکان میں پاکستانی فوج نے آبادیوں پر دھاوا بول کر درجنوں گھروں میں لوٹ مار کے بعد انکو نذر آتش کر دیا ہے،
گزشتہ تین روز سے مذکورہ علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے جہاں لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا،۔دوسری جانب ضلع آواران ڈھل بیدی،تیرتیج،پیراندر میں قابض پاکستان کی آرمی کے پشت پناہی میں مسلح افراد جنکو ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے جانا جاتا ہے نے لوگوں منشیات جیسے زہر کو عام کیاہے۔
سماجی برائیوں میں ملوث سرکاری کارندے خواتین کو فون پر حراساں کرنے علاوہ زمینداروں کے سولر پلیٹ بندوق کے زور پر توڑ اور چرا کر لے جاتے ہیں۔مقامی لوگوں نے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہو ئے کہا ہے کہ اگر فورسز نے انکے ڈیتھ اسکواڈ کو ان سماجی برائیوں سے نہ روکھا تو عوام کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
12 فروری
۔۔۔بلوچستان میں حالیہ کچھ عرصے سے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز نے بڑے پیمانے پر زمینی و فضائی آپریشن کا آغاز کیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد علاقوں سے درجنوں افراد گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوچکے ہیں، ہرنائی میں دوران آپریشن پاکستانی فورسز نے دو افراد کو گرفتاری کے بعد قتل بھی کردیا تھا۔
سبی و گرد و نواح میں پاکستانی فورسز کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی ہے جس کے بارے میں اہل علاقہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ بڑے پیمانے کی آپریشن کی تیاری ہے۔علاقائی زرائع کے مطابق زمینی فورسز کی درجنوں عسکری گاڑیوں اور اہلکاروں نے پہاڑی علاقوں کی جانب جانے والے راستوں پہ ناکے لگا کر ہر طرح کی آمد و رفت پہ پابندی عائد کر دی ہے۔
۔۔۔قلات، سبی اور مستونگ کے درمیان وسیع علاقے میں فوجی جارحیت، چار افراد گرفتار
پاکستانی فوج کے پیدل دستے اپنے اہداف کی طرف مخلتف سمتوں ڈھاڈر، سنی، جوہان اور اسپلنجی کو مرکز بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ضلع بولان میں مہر گڑھ کے نواح میں واقع ’امپادہ‘کے علاقے سے چار افراد کو فوج نے گرفتارکرکے نامعلوم مقام پر منقل کردیا تاحال گرفتار شدگان کے نام معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔
۔۔۔تربت کے علاقے گوکدان سے گوھرام ولد ابراہیم سکنہ آسیاباد تمپ کی لاش ملی ہے جسے گولی مار کر قتل کیا گیا ہے۔
۔۔۔سرمچار ’آمو مری‘ اور ’دین احمد مری‘ 8 فروری کی صبح کوہلو اور ہرنائی کے درمیانی علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران شہید ہوئے۔تعلق یو بی اے سے تھا۔
13 فروری
۔۔۔بلوچی زبان کے معروف گلوکار عبداللہ ثنا انتقال کرگئے
بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار عبداللہ ثناء بلوچ گذشتہ شب کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔
14 فروری
۔۔۔گیشکور پاکستانی فوج کی بھاری نفری ہیکان کے پہاڑی سلسلوں میں داخل آپریشن کیا گیا، زمینی فوج کی بڑی تعداد گیشکور میں پہنچ چکی ہے،مقامی ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج کے ساتھ موٹر سائیکلوں سمیت کئی اونٹ اور گدھے بھی ہیں۔
۔۔۔حسان اور حزب اللہ قمبرانی کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل، کوئٹہ میں احتجاج
کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
۔۔۔سمیع مینگل کی پہلی برسی، نوشکی میں احتجاجی جلسہ، قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں گذشتہ سال 14 منشیات فروشوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان سمیع مینگل کی پہلی برسی کے موقع پر نوشکی شہر میں آل پارٹیز نوشکی کے زیر اہتمام میر گل خان نصیر چوک پر احتجاجی جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔
15 فروری
۔۔۔کوئٹہ سے پانچ فروری2015 کو فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والا اسرار سکنہ دشتک زامران کیچ سے بازیاب ہو گیا ہے۔
۔۔۔فورسز نے نصیر آباد کے علاقے چھتر سے گل محمد ولد میر حسین بگٹی، طارق ولد روزی، اور لاکھا ولد ہیرو بگٹی کو لاپتہ کر دیا۔
16 فروری
۔۔۔کولواہ اور کیلکور میں فوجی آپریشن، حاجی آبادزیارت فوجی محاصرے میں کولواہ میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ
پاکستانی فوج جو گزشتہ روز گیشکور،ہیکان پہاڑی سلسلوں میں داخل ہوئی تھی آج فوج نے کیل کور میں آپریشن کو وسعت دیتے ہوئے پہاڑی علاقوں میں داخل ہوئی ہے۔کولواہ کے مختلف پہاڑی سلسلوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی۔
17 فروری
۔۔۔ضلع کیچ میں شورما بند کے پہاڑی سلسلوں پر پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں اور شیلنگ
گن شپ ہیلی کاپٹروں نے قلاتک اور گیبن کے درمیانی پہاڑی سلسلے شورما میں شیلنگ کی ہے،مقامی ذرائع کے مطابق شورما کور(ندی) پر ایک ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مقامی لوگ اس ڈیم کے بنانے کی مخالفت بھی کر چکے ہیں۔
۔۔۔کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد سے یکجہتی کے لیے مظاہرہ کیا گیا
کراچی میں پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف اور اسلام آباد میں احتجاج پر بیٹھے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے طور پر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
۔۔۔بلوچ یکجہتی کمیٹی شال کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں احتجاجی ریلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پیاروں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور کراچی کے بعد اب احتجاجی کیمپ کو اسلام آباد منعقد کیا ہے جہاں انتظامیہ کی جانب سے ایک متعصبانہ رویہ اپنایا گیا اسی ضمن میں لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی منعقد کی جائے گی۔
۔۔۔ضلع کیچ میں گزشتہ روز سے جاری آپریشن دوسرے روز بھی جاری ہے،جبکہ ضلع پنجگور کے مین آرمی کیمپ میں مزیدچار گن شپ ہیلی کاپٹروں کی آمد،پہاڑی علاقوں میں دن بھر نیچی پروازوں کا سلسلہ جاری۔گن شپ ہیلی کاپٹروں نے قلاتک اور گیبن کے درمیانی پہاڑی سلسلے شورما میں کل سے جاری آپریشن کو وسعت دے کر گرد نواع کے علاقوں میں پھیلا دیا ہے اور زمینی فوج مذکورہ پہاڑی سلسلوں میں داخل ہو چکی ہے۔
جبکہ پہاڑی سلسلوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کمانڈوز بھی اُتارئے گئے اور آج بروز بدھ بھی ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی۔
18 فروری
۔۔۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ احتجاج کرنے والے پانچ افراد کو پولیس نے گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ ایک روز بعد انکو چھوڑ دیا گیا۔
۔۔۔بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب یونیورسٹی نے اپنے آفیشل فیسبک پر نیوز جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج بلوچ طلبائکے میٹنگ کے دوران جمیعت کے کارکنان کی جانب سے طلباء پر دھاوا بول کر ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
19 فروری
۔۔۔ فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے دن بھر ہیرونک،شاپک،زر بار کے پہاڑی سلسلوں اور کلبر میں شدید شیلنگ کی ہے۔جبکہ کلاتک،شورماہ بند اور ہوت آباد،انجیرہ کہن میں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پروزایں کرنے کے ساتھ شیلنگ کی ہے،۔
20 فروری
۔۔۔ضلع آواران،ضلع کیچ،ضلع پنجگور کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی فوج نے ایک بڑے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔
فوج کی ایک بڑی تعدادان اضلاع کی سرحدی علاقوں میں مختلف اطراف سے پہاڑی سلسلوں میں داخل ہوگئی۔
زمینی فوج کی بڑی تعداد آواران آرمی کیمپ سے نقل کر دراسکی کی جانب روانہ ہوئی ہے جبکہ ٹوبہ سولیر میں فوج کی بڑی تعداد پہنچ چکی ہے۔ پنجگور گچک کے بعض ندی نالوں پینکلانچ،لاٹیاری،سیلاری،گنی،تلاری،سمیت بعض پہاڑی علاقوں کے علاوہ،مشکے سولیر ٹوبہ،آواران دراسکی ندی میں پاکستان کے آرمی کی بڑی تعداد پہنچ کر تمام پہاڑی علاقوں میں پھیل گئی ہے اور فوجی بربریت میں مصروف ہے۔واضح رہے فوج دودن قبل آواران وہلی ندی سے ہوتا ہوا حاجی پیر زیارت فوج اونٹ اورگدھوں کیزرہعے پہنچ گئی تھی۔مجموعی کہا جاسکتاہے فوج ان علاقوں میں تقریبا اسی نوے کلومیٹر کے اندر پورے پہاڑی علاقے میں پھیلا ہواہے۔ آپ بھی جانتے ہیں حاجی پیر زیارت کیلکور ان علاقوں کا واحد راستہ ہے جو کیکور بالگتر،سی پیک،کو مشکے،آواران،گچک،کے علاقوں کو آپس میں ملاتاہے۔
۔۔۔جبری گمشدگی کے شکار عبدالحئی کرد 2 سال 9 مہینے بعد رہا ہوگئے
21 مئی،21 ، 2018 میں بلوچستان کے علاقے مچھ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدہ ہونے والے مچھ بولان کے رہائشی عبدالحئی کرد طویل عرصہ کی گمشدگی کے بعد آج رہا ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
۔۔۔ضلع چاغی سے تین سال قبل جبری لاپتہ ہونے والے شخص پرنس خالد ساسولی کو گزشتہ روز منظر عام پر لایا گیا ہے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق خالد ساسولی کو کوئٹہ کے ہدہ جیل میں رکھا گیا ہے۔
۔۔۔پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ نو روز سے جاری بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے لاہور میں مظاہرہ کیا گیا۔لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلباء طالبات کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔
۔۔۔فورسز کے ہاتھوں تیس دسمبر2018 کو اغوا ہونے والا خدا بخش ولد بالاچ سکنہ بدرنگ گریشگ بازیاب ہو گیا ہے۔
21 فروری
۔۔۔پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آئی جی ایف سی سے ملاقات کے بعد بلوچستان میں وسیع پیمانے پر شدید نوعیت کے آپریشن کے امکانات کو تقویت مل رہی ہے۔اتوار کے روز وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے ہیڈ کوارٹر فرنٹیئر کور بلوچستان کا دورہ کیا اور آئی جی ایف سی نارتھ میجر جنرل محمد یوسف مجوکہ سے ملاقات کی۔وزیر داخلہ کو بلوچستان میں آپریشنل تیاریوں، سرحدوں کی نگرانی اور امن وامان پر تفصیلی بریفننگ دی گئی۔
۔۔۔کراچی ملیر سے بلوچ طالب علم فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ
ضلع ملیر کے علاقے کوہی گوٹھ سے ایک طالب علم کو پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے گذشتہ رات تین بجے کے وقت اس کے گھر سے اٹھا کر جبری طور پرلاپتہ کر دیا ہے۔جس کی شناخت ’سراج ولد وشدل‘ سکنہ’پلکی گچک‘ سے ہوئی ہے۔
۔۔۔ بلوچستان کے ضلع کیچ سے تین افراد جبری طور پر لاپتہ کردیئے گئے۔
۔۔۔کیچ سے جبری طور پر گمشدگی کا شکار ہونے والے افراد کی شناخت ناصر ولد واحد بخش بلور، اسد ولد اللہ بخش بلور، حسین ولد نصیر ب سکنہ کولواہ سے ہوئی ہے۔ تینوں افراد کو پاکستانی فوج نے سرچ آپریشن کے دوران کیچ کے علاقے کولواہ سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا ہے۔
22 فروری
۔۔۔بلوچستان کے سرحد پر بارڈر فورس کی فائرنگ سے بلوچوں کے شہادت کی مذمت کرتے ہیں۔ بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں مغربی بلوچستان کی سرحد کے قریب بارڈر فورسز کی فائرنگ اور دس بلوچوں کو شہید اور درجنوں افراد کو زخمی کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچوں کا قتل عام، کھلی جارحیت اور ایک قابل مذمت فعل ہے۔ تیل کے کاروباز سے منسلک گاڑی مالکوں اور ڈرائیوروں پر فائرنگ اور دس افراد کی شہادت ایک کھلی جارحیت ہے۔ اس طرح کے واقعات تواتر کے ساتھ بلوچ قوم کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں، لیکن عالمی برادری خاموشی پر اکتفا کر رہی ہے۔
23 فروری
۔۔۔ایران: 10 نہتے بلوچوں کے قتل کیخلاف عوام سراپا احتجاج،ضلعی انتظامیہ کے دفترپر دھاوا
ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی جانب سے گذشتہ روز 10 نہتے بلوچوں کے قتل عام کیخلاف سراپا احتجاج عوام نے ضلعی انتظامیہ کے دفترپردھاوا بول دیا۔
ہلاک ہونے والوں کی شناخت یحییٰ کنکوزئی، عبدالرحمان شہرسان زئی، عبدی شہرسان زئی، سلمان شہرسان زئی، رحمان بخش دھواری، عبدالوہاب دامنی، انس زادہ، عبدالغفور توتازئی، محمد میر بلوچ زئی اور محمد نصر زئی کے ناموں سے کی گئی ہے۔
24 فروری
۔۔۔مستونگ نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جس کی شناخت عبدالطیف ولد صوبہ خان کرد کی نام سے ہوئی، لاش کو سول اسپتال منتقل کردیا۔تاہم فائرنگ کی وجہ معلوم نہ ہوسکا۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے تربت کے رہائشی تین افراد شاکر ولد ولی محمد، اسد ولد عبداللہ، جمیل ولد حبیب اللہ آج بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق تینوں افراد گذشتہ سال مئی میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوگئے تھیں تاہم آج تینوں افراد تربت سے بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔ اتوار کے روز کراچی سے مسلح افراد کے ہاتھوں گرفتاری بعد لاپتہ ہونے والے پنجگور گچک کا رہائشی سراج بلوچ گذشتہ روز بازیاب ہوگیا۔
25 فروری
۔۔۔کاہان و سبی میں فورسز ہاتھوں 5افراد جبری طور پر لاپتہ
کاہان کے علاقے گیشترانی میں پاکستانی فورسز نے 23 فروری کو دوران آپریشن تین افراد کیرو ولد شاہ میر مری، دینلی ولد شاہ میر مری، باغلی ولد کشو مری کو حراست میں لینے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
جبکہ کاہان ہی کے رہائشی گل بہار اور ان کے بیٹے انگلی کو سبی سے خفیہ اداروں اور فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی۔فورسز اہلکاروں نے لاپتہ کیے جانیوالے کیرو مری کے گھر کو بھی نذر آتش کردیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے درمیانی علاقے بمبور میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری۔ آپریشن میں ہیلی کاپٹروں سمیت جاسوس طیارے حصہ لے رہے ہیں۔فوجی آپریشن بمبور کے علاقے ڈْل اور گردنواح میں کی جارہی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹروں کو مذکورہ علاقے کے مختلف مقامات پر فورسز اہلکاروں کو اتار چکے ہیں جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کو شیلنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔مذکورہ علاقے میں مالداری کے پیشے سے وابسطہ افراد رہائش پذیر ہیں۔
۔۔ گورگوپ سے 16 ماہ قبل لاپتہ عارف ولد ماسٹر ارشاد، 4 ستمبر 2019 کو پیدرک سے لاپتہ دودا ولد راشد، دو سال قبل تربت سے لاپتہ فہد ولد ابراھیم، علم دولت ولد واحد بخش اور بلیدہ سے ایک سال قبل لاپتہ لیاقت ولد داد محمد شامل ہیں۔
27 فروری
۔۔۔لاپتہ اے این پی بلوچستان کے رہنماکی لاش برآمد
کوئٹہ سے پانچ ماہ قبل اغواء ہونیوالے عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے سیکرٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی لاش آج برآمد ہوئی ہے۔پارٹی زرائع کے مطابق اسد اچکزئی کو 5 ماہ قبل کوئٹہ ائیرپورٹ روڈ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا اور آج انک لاش نو حصار سے برآمد ہوئی ہے۔
۔۔۔وادی مشکے،گچک، سکن راغے پاکستانی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ،آپریشن میں شدت کا خدشہ
وادی مشکے سے منسلک پہاڑی علاقوں اور ضلع آواران اور ضلع پنجگور کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی زمینی فوجی کی بھاری تعداد میں نقل و حرکت کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹرون کی گشت،آپریشن میں تیزی کا اندیشہ۔وادی مشکے پہاڑی سلسلوں سمیت،گچک کہن،پینک کلانچ،گلیِ کنڈ، میں بھی پاکستانی زمینی فوج کی بڑی تعداد میں نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔
28 فروری
۔۔۔خاران اور نوشکی کے پہاڑی علاقے ماموری، کوٹوری، بنڈال، اور شوہاپ میں فوجی آپریشن اور ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں علاقوں کی طرف پیدل پیش قدمی،فوج نے علاقے میں ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے اور راستوں پر فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ جبکہ نوشکی اور خاران کے پہاڑوں پر جنگی ہیلی کاپٹر گشت کررہے ہیں اور پیدل فوج بھی پہاڑی علاقوں کی طرف پیش قدمی کررہا ہے، یاد رہے گزشتہ روز خاران میں فورسز چوکی پر حملے کے بعد نوشکی اور خاران کے پہاڑی سلسلہ میں فورسز کا آپریشن اور مزکورہ علاقوں میں بھاری تعداد میں فورسز کا آمد شروع ہوا۔
۔۔۔کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والا عبدالحق ولد صوبہ خان کرد آج بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے، عبدالحق کرد کو 18 اگست 2016 کو سیف اللہ کالونی سریاب سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا تھا، عبدالحق کرد کے بازیابی کی تصدیق ان کے رشتہ داروں نے کی۔
۔۔۔سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ریلی اور مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔
اتوار کی دوپہر کو ریگل چوک صدر میں وائس فار سندھی مسنگ پرسنز کی اپیل پر سندھی، پشتون اور بلوچ لاپتہ افراد کی لواحقین اور دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر احتجاج کیا اور ریلی نکالی۔
۔۔۔ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ کے علاقے بٹ سے تعلق رکھنے والے عزیز بلوچ بھی بازیاب ہوگئے جو نادرا میں ملازم تھے۔ خاندانی زرائع کے مطابق وہ ایک سال قبل لاپتہ ہوئے تھے۔
۔۔۔ پشین سے تعلق رکھنے والے محمد آصف ولد عبدالغفار ادوزئی بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے، محمد آصف اپریل 2014 کو جبری طور پر لاپتہ کردیے گئے تھے۔