2008 کا اوائل ـ نئے سال کی آمد کو چند ہی دن گزرے تھے ـ بلوچستان مابعد نواب اکبر بگٹی دور میں داخل ہوچکا تھا ـ لیاری میں مختلف گینگز سر اٹھا رہے تھے ـ ایسے میں ایک صبح حاجی رزاق سربازی کی کال آئی ـ میں نیند میں تھا ـ حاجی نے بغیر سلام دعا گلوگیر لہجے میں کہا "عارف بارکزئی بیران بوتگ” (عارف بارکزئی فوت ہوگئے) ـ اس جملے نے جیسے سر پر بم پھوڑ دیا ـ نوجوان، ہشاش بشاش، ناروے میں تازہ تازہ لیکچرار کی نوکری، پی ایچ ڈی کی ڈگری ـ فوت ہوگیا؟ ـ کیسے؟ ـ واضح رہے اطلاع دینے والے حاجی رزاق سربازی خود 2013 کو کراچی سے لاپتہ ہوئے پھر نہایت ہی مسخ لاش کی صورت بازیاب ہوئے ـ
عارف بارکزئی اپنے ہاسٹل کی گیارھویں منزل سے گر کر موت کا شکار ہوئے ـ پولیس نے موقف اختیار کیا یہ یا تو خودکشی ہے یا حادثہ (کچھ یاد آیا) ـ نارویجن پولیس تفتیش میں جُت گئی ـ بقول ایک اور جواں سال مشترکہ دوست، اُس وقت لندن نشین اور آج میوہ شاہ قبرستان کراچی میں محوِ خواب امان عبداللہ کے "نارویجن پولیس کیس کی تفتیش ایسے کررہی ہے جیسے کسی کا بٹوہ گر گیا ہو” ـ امان عبداللہ لندن سے ناروے چلے گئے تاں کہ دوست کو "انصاف” دلا سکیں ـ میرے ایک ای میل کے جواب میں انہوں نے غصے سے یا شاید بے بسی میں لکھا "ٹیررسٹ مسلم، ڈرٹی پاکیز اور سلیو بلوچ جیسی شناخت رکھنے والے عارف کی یہاں کسی کو کوئی پرواہ نہیں” ـ بالآخر ایک دن نارویجن پولیس نے غلام بلوچ کی موت کو حادثاتی قرار دے دیا ـ ہم نے سسکیوں کے ساتھ نم آنکھیں لیے اپنے ایک بہترین "ذہن” کو میوہ شاہ قبرستان میں دفن کردیا ـ
2020 کے وسط میں ماہِ مارچ نے موسمِ بہار کی آمد کا اعلان کیا ـ ایسے میں سویڈن سے اطلاع آئی نوجوان بلوچ دانش ور ساجد حسین لاپتہ ہوچکے ہیں ـ سویڈن سے لاپتہ؟ ـ کیا بلوچستان اتنا پھیل گیا ہے؟ ـ بہرحال یہ ہوچکا تھا ـ بلوچی زبان کے نوجوان ادیب اور ہمارے شیریں سخن دوست تاج بلوچ جو خود سویڈن نشین ہیں نے سویڈش پولیس کی وساطت سے ساجد حسین کی تلاش شروع کردی ـ چند ہفتوں بعد ان کی لاش یخ بستہ ندی سے برآمد ہوگئی ـ سویڈش پولیس تفتیش میں جُت گئی ـ
تاج بلوچ سویڈش پولیس کی تفتیش سے نالاں نظر آئے ـ ایک دن انہوں نے مایوسی بھرے لہجے میں خدشہ ظاہر کیا کہ پولیس کیس دبانا چاہتی ہے ـ خدشے کی وجہ معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا ؛ جب ساجد گمشدہ تھے تب بھی پولیس کا رویہ دوستانہ نہ تھا اب جب لاش ملی ہے تب بھی یہی رویہ برقرار ہے ـ انہوں نے مزید کہا کہ دو دن قبل ہم چند افراد پولیس اسٹیشن گئے اور وہاں ہماری پولیس افسروں سے تلخ کلامی بھی ہوئی ـ بقول تاج بلوچ پولیس ہم سے کچھ شیئر ہی نہیں کررہی ہے، ہر چیز چھپائی جارہی ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے پولیس نے اس کیس کی تفتیش کب اور کہاں سے شروع کی ہے ـ تاج بلوچ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا اگر ان کو ندی میں دکھا دیا گیا ہے تو سرد موسم کی وجہ سے ٹھنڈے پانی میں 50 سیکنڈ بعد نہ صرف زندہ رہنا ممکن نہیں ہے بلکہ فنگر پرنٹس بھی ضائع ہوسکتے ہیں ـ
ایک دن پولیس نے واقعے کو اتفاق قرار دے کر کیس داخل دفتر کردیا ـ ساجد حسین کیچ مکران میں اپنے آبائی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوگئے ـ ایک اور بہترین "ذہن” اچانک "اتفاقی موت” کا شکار ہوگیا ـ
2020 کا اواخر ـ سردی جوبن پر ہے ، کورونا زدہ سال اختتام پزیر ہونے کو ہے ـ گوادر کے گرد باڑ لگائی جارہی ہے ـ بلوچ اس افتاد سے پریشان ہیں ـ کینیڈا سے اطلاع آئی ممتاز بلوچ رہنما کریمہ بلوچ گمشدگی کے بعد لاش کی صورت بازیاب ہوئی ہیں ـ ان کی لاش ٹورنٹو سینٹرل آئی لینڈ کے قریب پانی سے ملی ـ بہادر، باحوصلہ اور آتش زیرِ پا کریمہ بلوچ ـ بانڑی اور گُل بی بی کی وارث کریمہ بلوچ جسمانی طور پر نہ رہی ـ
ٹورنٹو پولیس نے چند گھنٹوں بعد اعلان کیا کریمہ بلوچ کی موت میں کسی مجرمانہ سرگرمی کے شواہد نہیں ملے ـ نہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی، نہ فرانزک رپورٹ فائل ہوا، نہ کریمہ بلوچ کی ذاتی زندگی کی تاریخ کھنگالی گئی اور نہ ہی ان کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائی گئی ـ چند گھنٹوں میں بنا کسی تحقیق کے پولیس نے اتنا بڑا اعلان کردیا ـ لواحقین، بلوچ قوم اور انسانی حقوق کے ادارے چلاتے رہے پولیس دامن جھٹک کر بیٹھ گئی ـ
اتنی جلدی تو بدنام زمانہ بھارتی ڈرامہ سیریز "سی آئی ڈی” کے تفتیشی کردار بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے جتنی جلدی ٹورنٹو پولیس کے "عقاب صفت” اہلکار پہنچ گئے ـ ٹورنٹو پولیس کی تفتیشی صلاحیت اور ان کے طریقہِ کار پر کوئی ماہر ہی درست تجزیہ کرسکتا ہے لیکن مجھ جیسے جاہل کے حلق سے بہرحال یہ بات نہیں اتر رہی ہے ـ
گمان غالب یہی ہے؛ عارف بارکزئی اور ساجد حسین کی طرح کریمہ بلوچ بھی آخری رپورٹ میں اتفاقی حادثے کی شکار تسلیم کروائی جائے گی ـ ہمارا ایک اور عظیم "ذہن” منوں مٹی تلے دفن ہوجائے گ ـ
یورپ اور امریکی پولیس سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر امید باندھنے کی بجائے ان سے بات کرنی ہوگی ـ انہیں بتانا ہوگا کہ یہ ایک غریب اور پسماندہ قوم کے انمول اثاثے ہیں، ان کی برسوں کی اجتماعی محنت کے نتائج، آپ کو ہماری بات سننی ہی ہوگی گر ہم آپ کی نگاہ میں اس دنیا میں وجود رکھتے ہیں ……….. تو ـ