ویکسین سے متعلق مہم چلانے والے اداروں کے اتحاد نے خبردار کیا ہے کہ امیر ممالک ویکسین ذخیرہ کر رہے ہیں اور غریب ممالک کی عوام کافی عرصے تک اس سے مستفید نہیں ہو پائیں گے۔
پیپلز ویکسین الائنس کا کہنا ہے کہ تقریباً 70 ترقی پذیر ممالک اپنی آبادی میں ہر 10 میں سے ایک شخص کو ویکسین لگا پائیں گے۔
یہ سب اس کے باوجود ہے کہ آکسفورڈ-ایسٹرازینیکا نے اپنی ویکسن کا 64 فیصد ترقی پذیر ممالک کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ویکسین کی پوری دنیا میں منصفانہ تقسیم سے متعلق اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
یہ ویکسین معاہدہ جسے ’کوویسک‘ کا نام دیا گیا ہے اس کی مدد سے ویکسین کی 70 کروڑ خوراکیں 92 ترقی پذیر ممالک میں بانٹی جائیں گی۔
پیپلز ویکسین الائنس دراصل متعدد اداروں کا ایک نیٹ ورک ہے جس میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل، آکسفیم، اور گلوبل جسٹس ناو¿ شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ’یہ منصوبہ بھی آزمایا گیا تو بھی ویکسین کی خوراکوں کی معقول مقدار میسر نہیں ہو گی اور دوا ساز کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی شیئر کریں تاکہ مزید خوراکیں دستیاب ہو سکیں۔
ان کے تجزیے سے یہ معلوم ہوا کہ اگر تمام ویکسینز منظور کر لی جاتی ہیں تو امیر ممالک نے ویکسینز کی اتنی خوراکیں خرید لی ہیں کہ وہ اسے اپنی آبادی کو تین مرتبہ لگا سکتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مثال کے طور پر کینیڈا نے اتنی ویکسین آرڈر کر دی ہے کہ ہر کینیڈی شہری اسے پانچ مرتبہ استعمال کر سکتا ہے۔
اگرچہ امیر ممالک دنیا کی کل آبادی کا صرف 14 فیصد ہیں انھوں نے اب تک 53 فیصد امید افزا ویکسینز خرید لی ہیں۔‘
آکسفیم کی ہیلتھ پالیسی مینیجر اینا میریئٹ کا کہنا تھا کہ ’کسی پر ویکسین تک رسائی کے دروازے ان کے ملک یا ان کی جیب میں موجود رقم کی بنیاد پر بند نہیں کیے جا سکتے۔‘
’تاہم اگر کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آتی تو دنیا بھر میں اربوں افراد کووڈ 19 ویکسین سے سالوں تک محروم رہیں گے۔
پیپلز ویکسین الائنس نے تمام دواساز کارپوریشنز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کووڈ 19 ویکسین سے متعلق ٹیکنالوجی اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی کو شیئر کریں تاکہ اربوں کی تعداد میں مزید خوراکوں کی تیاری میں مدد مل سکے اور دنیا بھر کے افراد تک اس کی رسائی ممکن ہو سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا عالمی ادارہ صحت کے کووڈ 19 ٹیکنالوجی رسائی پول کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
ایسٹرازینیکا وہ کمپنی ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے بنائی گئی ویکسین وسیع پیمانے پر تیار کرے گی اور اس نے منافع لیے بغیر ویکسین کو ترقی پذیر ممالک تک پہنچانے کا اعادہ کیا ہے۔
یہ دوسری ویکسینز کے مقابلے میں سستی ہے اور اسے فرج کے درجہ حرارت پر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جس کے باعث اسے دنیا بھر میں تقسیم کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ایک ہی کمپنی کے ذریعے پوری دنیا کے لیے ویکسینز تیار نہیں کی جا سکتیں۔
فائزر-بائیو این ٹیک ویکسین کو برطانیہ میں پہلے ہی منظوری مل چکی ہے اور یہاں جن افراد کو وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے ان کے لیے اس کے استعمال کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔ اس ویکسین کو یورپ اور امریکہ میں بھی جلد منظوری مل جائے گی جس کے بعد ہی اسے غریب ممالک کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
دو دیگر ویکسینز جو موڈرنا وار آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کی جانب سے بنائی جا رہی ہیں کو مختلف ممالک سے منظوری کا انتظار ہے۔
روسی ویکسین سپوتنک کے حوالے سے بھی آزمائشی مراحل میں حوصلہ افزا نتائج کا اعلان کیا گیا ہے اور چار دیگر ویکسینز بھی آخری مراحل کے کلینکل ٹرائلز سے گزر رہی ہیں۔