بی ایس او آزاد کا بائیسواں کونسل سیشن دوسرے روز بھی جاری رہا

0
278

بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بی ایس او آزاد کا بائیسواں قومی کونسل سیشن بنام معلم آجوئی شہید صبا دشتیاری و بیاد درسگاہِ آزادی بابا خیر بخش مری جاری ہے۔
بائیسویں قومی کونسل سیشن میں مرکزی چیئرمین کا خطاب, آئین سازی, سیکرٹری رپورٹ, تنقیدی نشست, تنظیمی امور, عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہیں گے۔
آج بائیسویں قومی کونسل سیشن کے دوسرے روز تنقیدی نشست, تنظیمی امور اور عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال کے ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث ہوئی۔

ترجمان نے کہا کہ بائیسواں قومی کونسل سیشن کے پہلے روز کی کاروائی میں تنقیدی نشست کا ایجنڈہ مکمل نہ ہونے کی سبب دوسرے روز کا آغاز دوبارہ سے تنقیدی نشست کے ایجنڈے سے کیا گیا. تنظیمی سرگرمیوں میں بہتری کی گنجائش پیدا کرنے اور گزشتہ غلطیوں کی نشاندہی کےلیے کونسلران نے مذکورہ ایجنڈے کو زیر بحث لا کر تعمیری تنقید کی ہے۔

تنقید نشست کے بعد بائیسویں قومی کونسل سیشن کے دوسرے روز تنظیمی امور کے ایجنڈے کو زیر بحث لایا گیا جو دو حصوں پر منقسم تھا. ایجنڈے کے اولین حصے میں کونسل سیشن کے کونسلران نے تنظیمی پالیسیوں اور پروگرام کے حوالے سے اپنے مکالے دیوان کے سامنے پیش کیے۔ جبکہ دوسرے حصے میں دیوان کے سامنے پیش کیے گئے مکالوں پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے۔

عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال کے ایجنڈے پر بحث کرتے ہوئے کونسلران کا کہنا تھا کہ سیاست کے بنیادی دو پہلووں میں سے اولین پہلو قومی یا ریاستی مفادات ہیں جن پر عالمی سیاست کا بنیادی ڈھانچہ قائم ہے جبکہ دوسرا طاقت ہے جو سیاست کو کسی بھی قسم کا سمت مہیا کر سکتا ہے۔ عالمی بنیادوں پر قائم ہونے والے تعلقات ہمیشہ ہی باہمی مفادات کے بنیاد پر رہے ہیں. سیاست کے اس میدان میں نہ تو مستقل حریف ہیں اور نہ ہی حلیف جبکہ معروض اور مفادات کے بنیاد پر یہ رشتے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

آج دنیا بھر میں ایک طرف امن و امان کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب اسی امن کو تباہ و برباد کرنے کے دوڑ میں سب طاقتیں ایک ریس میں لگی ہوئی ہیں جس کی واضح مثال ابھرتی یوئی استحصالی قوت چین ہے۔ چین بین القوامی سیاسی ڈھانچے میں ریاستوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے اور کمزور ریاستوں کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے نیو کالونائزیشن پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین اپنے نیو کالونائزیشن کے پالیسی میں سوفٹ پاور جیسے حربوں کا استعمال کررہا ہے۔ اسی سوفٹ پاور پالیسی کے تحت اپنی قبضہ گیریت کو وسیع پیمانے تک پھیلانے کےلیے ون بلٹ ون روڈ منصوبے کو ساوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ کے چودہ ملکوں کو جوڑتے ہوئے وہاں راہداری کا قیام عمل میں لا رہا ہے۔ چین کا یہ منصوبہ محض سرمایہ کاری کیلئے نہیں ہے بلکہ اس منصوبے کے تحت اپنے مزموم عزائم کے ساتھ وہ اس پورے خطے میں طاقت کا مرکز ہونے کی تگ و دو میں ہے۔
جبکہ حالیہ عالمی وبا کے دوران چین، امریکا، روس سمیت دیگر طاقت ور ممالک کی جانب سے ایک منصوبے کے تحت کام کرنے کے بجائے اس دوران بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور امریکا کی طرف سے ایران پر مزید پابندیاں اس بات کی عکاسی ہیں۔ عالمی طاقتوں کیلئے دنیا کا امن اور خوشحالی کسی بھی طرح پہلی ترجیحات میں شامل نہیں بلکہ پہلی اور آخری ترجیحی اپنے طاقت کو بڑھانا ہے۔ جبکہ ساؤتھ ایشیا کی سیاست میں افغانستان ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کا اہم توجہ کا مرکز ہے۔افغانستان کی سیاست میں ہمسایہ ممالک بلخصوص پاکستان کی ہمیشہ سے منفی کردار رہا ہے گزشتہ دو ادوار سے جاری افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو مرکزی کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو افغان سرزمین پر ہونے والی اس بدترین نسل کشی میں براہ راست ملوث رہا ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو اس کی مجرمانہ کردار پر جواب طلبی کرتے اور انہیں عالمی عدالت کے کٹہرے میں لاتے، آج اس کے ساتھ ملکر افغانستان میں امن کی راہیں بنا رہے ہیں۔

دنیا کے بدلتے حالات اور اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے عالمی قوتوں کی طرف سے حالیہ ادوار میں سمندر پر بڑی جنگیں ہونے جا رہی ہیں، چین ساوتھ چائنا سی میں مختلف ملکوں کے ساتھ سمندر کیلئے جنگ لڑ رہی ہے، چین کا بلوچستان کی طرف رخ کرنے کی دیگر مقاصد کے ساتھ ایک اہم ایجنڈہ گوادر اور بلوچستان کے سمندر پر قبضہ کی کوشش ہے تاکہ وہ بلوچستان کے سمندر کو استعمال میں لاتے ہوئے سمندری راستے سے مڈل ایسٹ تک اپنے اثر و رسوخ قائم کر سکیں۔

ساوتھ ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کا کم ہونا اور چین کے بڑھتے اثرات اس خطے میں خاص بلوچستان پر سنگین نتائج برآمد کر سکتا ہے۔ پاکستان اپنی قبضہ کو دوام بخشنے اور بلوچستان میں جاری بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے کیلئے کسی بھی عالمی طاقت کا سہارہ لے سکتی ہے۔ پاکستان آج اندرونی طور پر انتہائی کمزور ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کی معیشت تباہ ہے جس سے عین ممکن ہے کہ وہ جلد ہی انتہائی سخت معاشی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ اپنی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے پاکستان نے ہمیشہ بلوچ سرزمین کے وسائل کو استعمال میں لایا ہے اور دنیا کے ملکوں کو بلوچ سرمایہ کو سستے داموں میں بھیج کر اپنی ضروریات پوری کرتی آرہی ہے لیکن حالیہ دور میں بلوچ قومی تحریک کی عالمی دنیا کے سامنے پذیرائی اور چینی مفادات کو خطرہ میں دیکھ کر عالمی طاقتیں بلوچستان میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں جس سے پاکستان کی معیشت مزید بگاڑ کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ پاکستان اس کا ازالہ کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے اور بلوچستان کے وسائل کو مزید سستے داموں بھیج سکتا ہے۔

بائیسویں قومی کونسل سیشن کے تیسرے روز تنظیمی پروگرام اور دو سالہ پالیسیوں کی تشکیل کے لیے سیشن کے تیسرے اور آخری روز آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر سیر حاصل بحث ہوگی۔ آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈہ مکمل ہونے کے بعد موجودہ مرکزی ساخت کو ختم کرکے الیکشن کمیشن کا چناؤ عمل میں لایا جائے گا جس کے بعد نئی مرکزی کابینہ اور کمیٹی کے لیے الیکشن ہونگے۔ اس کے بعد بند کمرہ اجلاس کو ختم کرکے تقریب حلف برداری منعقد کی جائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here