شمالی کوریا نے سرحدی شہر کیسونگ میں جنوبی کوریا کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے قائم ایک دفتر کو دھماکے سے اڑا دیا۔
شمالی کوریا کے کے سی این اے کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ رابطہ کار کا آفس کووڈ 19 کی وجہ سے جنوری سے بند تھا جو ‘خوفناک دھماکے سے تباہ ہوگیا’۔
واضح رہے کہ شمالی کوریا نے رابطے کے لیے قائم مذکورہ دفتر بند کرنے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے جنوبی کوریا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو شیئر کی جس میں ایک بڑا دھماکہ ہوا اور 4 منزلہ عمارت کو گراتے ہوئے دکھایا گیا۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا کی جانب سے غباروں میں بھر کر پمفلٹس پھینکے گئے تھے جس میں شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان کے جوہری عزائم کے بارے میں عوام کو خبردار کیا گیا تھا۔
اس ضمن میں جنوبی کوریا کی قومی سلامتی کونسل نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور کہا کہ اگر شمالی کوریا کشیدگی بڑھاتا رہا تو جنوبی کوریا سخت جواب دے گا۔
نائب قومی سلامتی کے مشیر کم یو جیون نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ دفتر کی تباہی سے ‘ان تمام لوگوں کی توقعات ٹوٹ گئیں جو بین کوریائی تعلقات کی ترقی اور جزیرہ نما پر دیرپا امن کی امید رکھتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم واضح کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں پیش آنے والے تمام نتائج کے لیے شمال یوریا پر پوری طرح سے ذمہ داری عائد ہوگی’۔
جنوبی کوریا کے ایک فوجی ذرائع نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ اس بات کی اطلاعات تھیں کہ شمالی کوریا بلڈنگ کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جنوبی کوریا کے عسکری حکام نے عمارت کو تباہ کیے جانے کے مناظر براہ راست دیکھے ہیں۔
واضح رہے کہ بین کوریائی رابطہ دفتر 2018 میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد دونوں فریقین کے مابین تناو¿ کو کم کرنا تھا۔
مذکورہ عمارت کیسانگ انڈسٹریل کمپلیکس میں کام کرنے والے ملازمین کے دفاتر کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔
شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کے تنازع پر دونوں ممالک کے مابین مشترکہ منصوبہ 2016 میں معطل کا شکار ہوگیا تھا۔
جنوبی کوریا نے مذکورہ عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے 2018 میں کم از کم 86 لاکھ ڈالر خرچ کیے تھے۔
جنوبی کوریا نے دوسری منزل اور شمالی کوریا کے افراد چوتھی منزل پر کام کرتے تھے جبکہ تیسری منزل پر دونوں فریقین کے مابین ملاقاتوں کے لیے کانفرنس روم تھے۔
واضح رہے کہ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کو شمن قرار دیتے ہوئے فوجی اور سیاسی تعلقات سمیت تمام رابطے ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا جس میں دونوں ملکوں کے ہاٹ لائن پر رابطے بھی شامل تھے۔
شمالی اور جنوبی کوریا ابھی بھی حالت جنگ میں ہیں کیونکہ 1953 میں جنگ کے اختتام کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی امن معاہدہ نہیں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ 2018 میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات اس وقت بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے جب دونوں ملکوں کے رہنماو¿ں نے تین مرتبہ ملاقات کی تھی اور ایک فوجی معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر تناو¿ میں کمی پر بھی اتفاق ہوا تھا لیکن اکثر معاملات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
1953 میں کوریا جنگ کے اختتام کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی یہ تیسری ملاقات تھی جس میں سے گزشتہ 2 ملاقاتیں بالترتیب سال 2000 اور 2007 میں شمالی کوریا میں ہوئیں، جبکہ کوریا جنگ کے بعد کِم جونگ ان شمالی کوریا کے پہلے حکمران ہیں جو سرحد عبور کر کے جنوبی کوریا ا?ئے۔
ملاقات کے بعد دونوں سربراہان نے مشترکہ طور پر ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس کے تحت اتفاق کیا گیا کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا، تاہم اس ضمن میں کسی لائحہ عمل یا ممکنہ مدت کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔