تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نیا فوجی آپریشن صرف اور صرف بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے خلاف ہورہاہے۔
پاکستان کے صحافی ضیا الرحمان نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا میں اپنے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والا نیا فوجی آپریشن صرف اور صرف آزادی پسند تنظیموں کے خلاف ہونے جارہا ہے۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ منگل کو نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس کی صدارت پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کر رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اجلاس کے بعد حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں متعدد کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کا ذکر کیا گیا تھا، جنہیں فوجی آپریشن کا ہدف بنایا جائے گا۔ ان تنظیموں میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس سے منسلک مجید بریگیڈ کے علاوہ بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ و سندھی علیحدگی پسند گروہوں کے اتحاد بلوچ راجی اجوہی سنگر (براس) شامل ہیں۔
حالیہ ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں بی ایل اے اور اس کے ذیلی ونگ مجید بریگیڈ، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف براس کو نشانہ بنانے کا اعلان یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت انہیں بلوچستان کی شورش میں اہم عوامل تصور کرتی ہے۔
بلوچستان میں فوجی کارروائیوں سے متعلق فیصلے پر ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کسی سیاسی منصوبے جیسے مذاکرات کا ذکر شامل نہیں تھا۔ البتہ فوجی کارروائی کے لیے انٹیلی جینس معلومات کو منظم کرنے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطہ بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
البتہ ماضی میں نیشنل ایکشن پلان میں حکومت نے ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مفاہمتی عمل شروع کرنے اور شورش کی بنیادی وجوہات، جیسے سیاسی محرومی، معاشی تنہائی، اور تاریخی شکایات کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یکے بعد دیگرے تشدد کے متعدد واقعات ہوئے ہیں جن میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بی ایل اے نے رواں ماہ 9 نومبر کو کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسے اپنی بڑی انٹیلی جینس کامیابی قرار دیا تھا۔ اس حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 31سے زائد افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل 6 اکتوبر کو کراچی میں بی ایل اے کے حملے میں 2 چینی باشندوں سمیت 3 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے تھے۔
بی ایل اے نے دونوں حملوں میں خودکش حملہ آوروں کو استعمال کیا تھا، جس سے اس تنظیم کی حکمتِ عملی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم تحقیقی ادارے دی خراسان ڈائری سے وابستہ محقق امتیاز بلوچ کے مطابق بلوچستان میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کو کوئی نام نہیں دیا جاتا جیسا خیبرپختونخوا یا قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب یا راہِ راست کے نام سے ماضی میں کیے جانے والے آپریشنز تھے۔ ان کے بقول بلوچستان میں چھوٹے اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ حملوں کی شدت اور نوعیت کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں جان بوجھ کر فوج کو بلوچستان میں ایک بڑے آپریشن کے لیے اکسانا چاہتی ہیں تاکہ جنگ کی سی صورتِ حال پیدا کی جائے اور وہ اپنے لائحہ عمل تیار کریں۔
حکومت نے بلوچستان کی شورش میں مبینہ ملوث ہونے کی بنا پر بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت ایک درجن سے زائد تنظیموں کو پہلے ہی کالعدم قرار دے رکھا ہے۔
امتیاز بلوچ کے مطابق بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ٹی ٹی پی اور دیگر مذہبی شدت پسند جماعتیں بھی فعال ہیں جو سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہیں۔ تاہم ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں ٹی ٹی پی کا ذکر نہ ہونا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ نئی کارروائیاں بنیادی طور پر بلوچ تنظیموں کے خلاف مرکوز ہوں گی۔
پاکستان میں سیکیورٹی معاملات اور پاکستان چین تعلقات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان دراصل چین کی حکومت کو پیغام پہنچانا تھا کہ پاکستان میں چینی مفادات پر حملہ کرنے والے بلوچ آزادی پسند گروہوں کے خلاف کارروائی شروع ہو رہی ہے۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کے مطابق ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان کی شورش کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیا گیا تھا۔ ان کے بقول بلوچستان میں نئی کارروائیوں کا فیصلہ چین کے دباؤ کا نتیجہ لگتا ہے۔
حال ہی میں چین کا دورہ کرنے والے اسلام آباد کے ایک صحافی نے بھی بتایا ہے کہ چینی حکام نے اپنی ملاقاتوں میں پاکستان اور جنوبی افریقہ میں موجود چینی مفادات اور شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا، “اس وقت پاکستانی حکام کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ چینی حکام کو یہ یقین دہانی کرائیں کہ وہ اپنے سیکیورٹی پلان کو مضبوط بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔”
عامر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت نے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اتنے بڑے صوبے میں کارروائیوں کے لیے مطلوبہ وسائل اور افرادی قوت کیسے فراہم کی جائے گی۔
ان کے مطابق بڑے پیمانے پر آپریشن کے بجائے انٹیلی جینس کی بنیاد پر سرچ آپریشنز اور چھوٹے پیمانے کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو ممکنہ طور پر نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
امتیاز بلوچ کے خیال میں بلوچستان میں نئے فوجی آپریشن سے نہ صرف سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو گا بلکہ قوم پرست جماعتیں بھی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے شدید ردِعمل ظاہر کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تنظیمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی طرف بھی بڑھ سکتی ہیں۔