بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں گذشتہ شب نامعلوم افراد کی جانب سے نذر آتش کیا جانے والا 15 سالوں سے جاری بلوچ لاپتہ افراد کا کیمپ دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے پندرہ برس سے قائم اپنے احتجاجی کیمپ سے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ شب انسانیت کے دشمنوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو آگ لگا دی تھی، جنکا کا خیال ہوگا کہ وہ اس طرح کے حرکتوں سے ہمیں احتجاج کرنے سے ڈرا سکتے ہیں جوکہ انکی بھول ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا کیمپ دوبارہ بحال کردیا ہے اور تمام لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی تک دھرنا جاری رہے گا۔
وی بی ایم پی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کے مطابق بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو 5629 دن ہو گئے ہیں۔
مستونگ سے بلوچ کونسل کے سابقہ صدر خلیل بلوچ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیمپ میں آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
احتجاجی کیمپ میں وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور کو آرڈینیٹر بانک حوران بلوچ موجود رہے ۔
اس موقع پر وی پی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ دھرتی اور بلوچ قوم کے دکھ درد اور صورت حال کو دیکھ کر شاید کوئی سنگدل انسان اپنے آنسو روک پائے لیکن یہ بلوچ قوم ہے جو دکھ سہنے کے باوجود برداشت کئے جارہا ہے اور اس برداشت کی آڑ میں کچھ لوگوں کے ظلم کو برداشت کرنا بلوچوں کی مجبوری ہے۔ کیونکہ غلام قوم اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ہے تاہم بے بس اور غلام بلوچوں نے جدوجہد کاراستہ اپنا کر دنیا کو یہ پیغام روز اول سے دے دیا کہ ہم غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے نکالنے کے لیے ہر وقت پُر امن جد جہد کرتے رہیں گے اور جب بھی بہتر پوزیشن میں آئیں گے تو پھر دنیا کو دکھا کر ائیں گے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انقلابی لہو اور جدو جہد نے نہ صرف بلوچ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا بلکہ بلوچوں کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کر ایک روشن تاریخ رقم کی ہے ۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں بھی تحریکیں چلیں ان کی کامیابی عوام کی شرکت سے ہی ممکن ہوئی۔ بلوچ جد جہد کو منزل تک لے جانے اور قومی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بھی عوامی حمایت اور تائید ضروری ہے۔ اور بلوچ عوام کو آگاہی دینا بلوچ سیاسی قوتوں کا فرض ہے لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے کہ سیاسی قوتیں قومی مفادات سے زیادہ ذاتی خواہشات کو ترجیح دیتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ فرزندوں کی بیش بہا قر بانیوں کی وجہ سے بلوچ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوا ہے۔ دنیا اب جان چکی ہے کہ پاکستان اور بلوچ کا رشتہ کیا ہے جس سے اب قبضہ گیر نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔وہ اسے پاکستان کا اندونی مسئلہ قرار دیتا ہے اور شروع دن سے یہی پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ کہ چند ناراض بلوچ ہیں ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ایک جانب بلوچ کا قتل عام ،اور ان کی لااشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں اور دوسری جانب مذاکرات اور ہتھیار پھینکنے اور غلامی قبول کرنے کا درس دے رہے ہیں۔