سندھ ہائیکورٹ کا جبری لاپتہ 8 بلوچ طلبہ کو4 نومبر کو پیش کرنیکا حکم

0
20

پاکستان کے سندھ ہائی کورٹ نے سینئر پولیس افسر کو حکم دیا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 8 جبری لاپتا طلبہ کو 4 نومبر تک ’پیش‘ کیا جائے، اور خبردار کیا ہے کہ ناکامی کی صورت میں ’مناسب حکم‘ جاری کیا جائے گا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس، ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی 4 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔

درخواست گزار وزیر احمد نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 16 اکتوبر کو پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے ان کے بھائی قمبر علی اور دیگر 7 طلبہ شعیب علی، حنیف، اشفاق، شہزاد، بیبرگ امیر، زبیر اور سعید اللہ کو گلستان جوہر میں ان کی مشترکہ رہائش گاہ سے اٹھایا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کا لاپتا بھائی بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکے کے ایک کالج میں انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہیں لیکن وہ نیپا کے قریب ایک ٹیوشن اکیڈمی میں پڑھ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ قمبر علی کی سیاست سے کوئی وابستگی نہیں تھی، وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی میں ملوث نہیں، لیکن پولیس نے اسے اور اس کے 7 دوستوں کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرلیا۔

ابتدائی سماعت کے بعد بینچ نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہان کے ساتھ ساتھ فاضل ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا جائے، ایس ایس پی کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئندہ سماعت پر زیر حراست افراد کو پیش کیا جائے، ناکامی کی صورت میں مناسب کارروائی کی جائے گی۔

واضع رہے کہ گزشتہ روز جامعہ کراچی کے طلبہ کی بڑی تعداد نے لاپتا بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کیمپس میں ایک ریلی نکالی۔

احتجاجی ریلی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری سے شروع ہوئی اور یو بی ایل بینک چوک پر اختتام پذیر ہوئی۔

ریلی میں طلبہ و طالبات، فیکلٹی ممبران کے ساتھ ساتھ کچھ غیر تدریسی ملازمین نے بھی شرکت کی۔

کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ممبر ڈاکٹر ریاض احمد، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا خان اور پروگریسو اسٹوڈنٹس الائنس کے آنند بخش نے جبری گمشدگیوں کے واقعات کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ لاپتا طلبہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

اس کے علاوہ بی وائی سی نے بھی مذکورہ جبری گمشدگیوں کیخلاف کراچی میں ایک پر امن احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا تھا جسے فورسز نے بزور طاقت روکا۔ مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بناکر بی وائی سی کے ڈپٹی آرگنائزر لالہ وہاب سمیت دیگر ساتھیوں کو حراست میں لیکر پہلے تھانے منتقل کیااور بعدازاں انہیںلاک اپ سے جبری لاپتہ کیا گیا جس پر عدالت میں درخواست دائر کرنے پر انہیں رہا کیا گیا اور ان پر لگائے گئے الزامات ختم کئے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here