بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی) مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کے سینیٹر قاسم رونجھو سینیٹ کے اجلاس میں اپنی آب بیتی سنانا چاہ رہے تھے، حکومت نے شرم کے باعث کورم توڑا۔
پارلیمنٹ پاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں، شاید ہی کسی آمر کے دور میں ایسا ہوا ہو، رات کے اندھیرے میں آئین کا مسودہ پیش کیا جاتا رہا۔
اختر مینگل نے کہا کہ حکومتی وزیر خود مجوزہ آئینی ترمیم پر متفق نہیں تھے۔
سربراہ بی این پی نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئی، کل سارا ڈرامہ حتمی انجام کو پہنچا ہے، اس سارے سرکس کو آصف زرداری کے سرکس کا نام دیں یا انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سرکس کا نام دیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ کہ ان کی پارٹی کے سینیٹر قاسم رونجھو سینیٹ کے اجلاس میں اپنی آب بیتی سنانا چاہ رہے تھے، حکومت نے شرم کے باعث کورم توڑا۔
انہوں نے کہا کہ جس ہاؤس میں جس کو ایوان بالا یا ایوان زیریں کہا جاتا ہے، جہاں پر انسانوں کی عزتیں محفوظ نہ ہوں، تو اس میں بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ اسعفیٰ دینے کی وجہ سے بلوچستان سے سیٹ ضائع نہیں ہوجائے گی جس پر اختر مینگل نے کہا کہ بی این پی بلوچستان کی عزت و ناموس کے لیے ہے، جہاں پر اس کے ممبران کی عزت نہ ہو، وہاں پر بیٹھ کر کیا کریں گے۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے قاسم رونجھو کا استعفیٰ منظور کرلیا جس پر سربراہ بی این پی نے جواب دیا کہ جی ہاں۔
واضح رہے اس سے کچھ دیر قبل پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث بغیر کسی کارروائی کے جمعے کی صبح 10 بج کر 30 منٹ تک ملتوی کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ آج ہی (بی این پی مینگل کے منحرف سینیٹر قاسم رونجھو نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا، انہوں نے 26ویں ترمیم پر ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ دینے پر استعفیٰ سیکریٹری سینیٹ کو جمع کرادیا، وہ سینیٹ میں بی این پی مینگل کے پارلیمانی لیڈر بھی ہیں۔
اتوار کو 26ویں آئینی ترمیم پر سینیٹ میں ہونے والی ووٹنگ پر بی این پی مینگل کی سینیٹر نسیمہ احسان اور قاسم رونجھو نے آئینی ترمیم کے حق فلور کراسنگ کی تھی اور پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ دیا تھا، اس کے بعد پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل نے دونوں منحرف سینیٹرز سے استعفی طلب کیا تھا۔