بلوچ قوم کو ریاستی قوتوں کے ہاتھوں نسل کشی کی سنگین جنگی جرائم کا سامنا ہے، ماما قدیر

0
5

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میںبلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5610 دن ہو گئے ۔

پروم پنجگور سے سیاسی ی سماجی کارکنان رسول بخش، نبی بخش، دین محمد بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جبری لاپتہ بلوچوں کا تعلق جمہوری سیاسی صحافتی انسانی حقوق تعلیم یافتہ سماجی حلقوں سے ہے۔ یہ سب بلوچ قومی حقوق کے لیے پُر امن اور جمہوری انداز میں آواز بلند کر رہے تھے لیکن ریاستی جبر کے ذریعے اُنہیں بھی تخریب کار اور غدار قرار دیتے ہوئے راستے سے ہٹایا جارہا ہے یعنی بلوچستان میں پاکستانی بالادست قوتوں کی متعارف کردہ جمہوریت بلوچ قومی حقوق کے تحفظ اور حصول سے دستبردار ہر کر نو آبادنی حیثیت کو قبول کرنے کے مداری نما جلسے جلوسوں اور سیاسی کھیل تماشوں تک ہی محدود ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ تین ہزار کلومیٹر لانگ مارچ پندرہ سالوں سے طویل بھوک ہڑتالی کیمپ ، بلوچ قومی سوال ایک سلگتے ہوئے مسئلے کے طور پر دنیا کے سامنے مزید اجاگر ہو ا ہے اور اس سے یہ اندوہناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ کہ بلوچ قوم کو ریاستی قوتوں کے ہاتھوں نسل کشی جیسے سنگین جنگی جرائم کا سامنا جن سے بلوچستان انسانی المیوں کی آماجگا بن گیا ہے جہاں جبری لاپتہ بلوچوں کی اغوا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور اجتماعی قبروں کی برآمدگی اور اجتماعی قبروں کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ جس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف کو اُٹھا کر جبری لاپتہ اور اُن کی کھلی اور خفیہ ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے یعنی بلوچ اپنے بنیادی قومی حقوق سے علاوہ تمام جمہوری حقوق سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں۔ خاص کر طور پر جبری لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے حوالے سے تمام ریاستی اداروں اور سیاسی صحافتی اور سماجی حلقوں سے ملنے والی گہری مایوسی کے باعث یہ امر مزید واضح ہو گیا ہے کہ بلوچ قوم اپنے حقوق اور زندگی کے حوالے سے محفوظ نہیں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here