بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

0
38

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5519 دن ہو گئے۔

بی این پی کے کارکن میر جمعہ خان نیچاری، بی ایس او کے انفارمیشن سیکرٹی مشکور بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر، بانک حوران بلوچ ، ماما غفار قمبرانی اور متحدہ عرب امارات سے جبری لاپتہ راشد حسین کے والدہ بھی کمیپ میں بیٹھے رہے ۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دشمن سے زیادہ خطرناک وہ آستین کے سانپ ہیں جو بلوچ کی شکل میں بلوچ کے گھر کے قریب رہتے اور بلوچ مزاحمت کو ناکام بنانے کے لیے دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ جن میں سے بعض اپنے کو بلوچ قوم کا ہمدرد یہی خواہ ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اصل میں وہ بلوچ قوم کو دائمی غلام بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور بلوچوں کی مخبری کا غلیظ کام کر کے قبضہ گیر کی مدد کرتے ہیں۔ دشمن تو واضع ہے کہ اس کو پہچانے میں کوئی بھی ہمدرد وطن بلوچ غلطی نہیں کر سکتا کیوں آگے کیونکہ اس کے اور ہمارے درمیان غلام اور آقا کا رشتہ ہے اب تک ہم میں پختگی اپنے عظام اور تشدد کی بدترین مشالوں کے بعد بھی نہیں آئی اگر ہم پختہ ہوتے تو ہم میں اچھے اور برے دوست دشمن کی تمیز ہوتی ہم اپنی تعریف کرنے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی بلوچی پہنے یا کالاکوٹ تو ہم اُسے بلوچ قوم اور اپنا ہمدرد سموسہ بیٹھتے ہیں ۔ اور اُسے آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا دشمن چاہیے جتنے بھی بلوچ شیر کرے تاریخ ثابت کریگی کہ دشمن کی اس طرح بے دردی سفاکیت تحریک کے لیئے نیک شگون ہے ہر ایک فکری سنگت کی شہادت سے ہزاروں بلوچ جذبہ قربانی کے نتھیار سے لیس ہو کر وطن، قوم کی خاطرم زکو تیار ہو رہے ہیں۔ جنون کی حد تک انتقام کا جزیہ ہر دل میں بیدار ہو رہ ہے ۔ کاروان چلتا رہے گا شہدا کی یادیں ہمیشہ حوصلہ بڑھاتی رینگی ضرورت اس امر کی ہے کہ اتنے بہادر جانباز نیک نیت بے غرض قیمتی نظریاتی ساتھیوں کے ارمانوں کی تکمیل کے لیے ہمیں ذاتی خواہشات غرض انا پرستی کا پہلی گروہی سوچ سے پاک ہوا جنتہ بار ا دوں کے ساتھ ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے دشمن کی ہر سفاکی کا جواب دینے کے لیئے یک ہو کر اپنی قومی قوت کو مضوط سے مضبوط تر بنانا ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here