جبری گمشدگیاں: بلوچ موقف و مطالبات اور پاکستانی ریاستی بیانیہ | رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

0
377

بلوچستان میں پاکستان کے خلاف جاری بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان کی رد بغاوت پالیسی میں جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کو پاکستانی فوج اور دوسرے سکیورٹی فورسز کلیدی حربے کے طور پر گزشتہ دو دہائیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں تاہم اس تحریر میں ہم اپنا بحث جبری گمشدگییوں پر لاپتہ بلوچ فرزندوں کے خاندانوں، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسے تنظیموں کے موقف و مطالبات اور پاکستانی ریاستی بیانیئے تک محدود رکھتے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل کی کاروائیاں اس تحریر میں زیر بحث نہیں ہیں۔

جبری گمشدگیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے بلوچ قومی امنگ کو بزور طاقت دبانے اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو شکست دینے کیلئے پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے رد بغاوت کی جو پالیسی تشکیل دے چکے ہیں اس میں جبری گمشدگی ایک کلیدی حربہ و ہتھکنڈہ ہے۔ فوج، انٹیلیجنس ادارے، ریاستی سرپرستی میں قائم نجی مسلح جتھے، پولیس اور دوسرے سکیورٹی ادارے بلوچ سیاسی رہنمائوں، سیاسی کارکنوں، طلباء، اساتذہ اور دانشوروں سے لے کر ایک مزدور، کسان، کاشتکار، ماہیگیر اور چرواہے تک ہر اس بلوچ کو جبری اٹھا کر ریاستی عقوبت خانوں میں غیر معین مدت تک لاپتہ رکھتے ہیں جس پر انھیں تحریک آزادی سے کسی بھی طور وابستہ ہونے کا شک ہو۔ تحریک آزادی سے عملی وابستگی کا شک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ تحریک آزادی کی جانب فکری میلان اور ہمدردی رکھنے کا شک بھی کسی بلوچ کو جبری اٹھانے اور لاپتہ کرنے کیلئے کافی سمجھا جاتا ہے۔

جبری گمشدگی کی کاروائیوں پر بلوچ موقف و مطالبات:

فوج، خفیہ اداروں اور دوسرے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں، ان کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسے تنظیموں، سول سوسائٹی، بلوچ قوم دوست سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا موقف ہے کہ جبری گمشدگی ایک غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے۔

انسانی حقوق سے متعلق عالمی قوانین کے مطابق جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے حتیٰ کہ پاکستان کے اپنی دستور اور قوانین میں بھی جبری گمشدگی کی کاروائیوں کو کوئی قانونی جواز اور تحفظ حاصل نہیں ہے۔ جبری گمشدگی صاف و شفاف عدالتی کاروائی اور ملزم کو حاصل قانونی دفاع کے بنیادی حق کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ جبری گمشدگی ایک اجتماعی سزا ہے جس میں لاپتہ شخص کے ساتھ ساتھ اس کا پورا خاندان ایک ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہا ہوتا ہے۔

لاپتہ شخص کی بیوی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کی بیوی ہے یا بیوہ ہے۔ اس کے بچوں کو علم نہیں ہوتا کہ ان کا باپ زندہ ہے یا وہ اپنے آپ کو یتیم تسلیم کریں۔ لاپتہ شخص کے والدین اور بہین بھائی ایک نہ ختم ہونے والے انتظار کی کرب سے گذر رہے ہوتے ہیں۔

جبری لاپتہ کئے گئے بلوچوں کے خاندان اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیمیں ریاست پاکستان سے ان کیلئے رحم کی کوئی بھیک نہیں مانگتے بلکہ گرفتار افراد پر خفیہ عقوبت خانوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کی مخالفت کرکے قانون کے دائرے میں تفتیش کرنے اور صاف و شفاف عدالتی کاروائی کے ذریعے انھیں قانونی دفاع کا پورا حق دینے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی سرگرمی یا جرم میں ملوث ہے تو اسے کُھلی عدالت میں پیش کرکے اس پر مقدمہ چلایا جائے اور جبری گمشدگیوں کے ذمہدار ریاستی اہلکاروں اور عہدیداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس بلوچ مطالبہ کو رد کرنے کیلئے ریاست پاکستان کے پاس کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔

جبری گمشدگیوں پر پاکستانی ریاستی بیانیہ:

مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج، ایف سی، خفیہ اداروں اور اینٹی ٹیررزم فورس و کائونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ جیسے پولیس کے اداروں کی کاروائیوں میں ہزاروں بلوچوں کو گرفتار کرنے کے بعد ریاستی خفیہ ازیت گاہوں میں غیر معین عرصہ تک لاپتہ رکھنے کی پالیسی پر پاکستانی ریاستی بیانیہ انکار، بالواسطہ اقرار، جھوٹ اور عذر لنگ جیسے متضاد اجزاء پر مشتمل ہے۔ ریاستی بیانیہ کے اجزاء کو ایک ایک کرکے ذیل میں ہم ان کے قانونی اور اخلاقی جواز کا جائزہ لیتے ہیں:

1: انکار کی پالیسی:

جبری گمشدگیوں پر ریاستی بیانیہ کا پہلا جُزو جبری گمشدگی کی کاروائیوں میں ریاستی فورسز کے ملوث ہونے سے انکار ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمانوں سے لے کر وزرائے اعظم تک سب عہدیدار ریاست پر جبری گمشدگی کو بطور پالیسی حربہ استعمال کرنے کے الزامات کو جھٹلا کر اس میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے سے انکار کرتے آرہے ہیں ۔ مگر انکار کی یہ پالیسی نہ صرف حقیقت میں بلکہ بادی النظر میں بھی سراسر جھوٹا اور کھوکھلا ہے کیونکہ جبری لاپتہ کئے گئے بلوچوں کی تعداد چند درجن نہیں ہے بلکہ ہزاروں میں ہے اور فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد لاپتہ افراد کو ان کے گھروں پر چھاپوں، پبلک ٹرانسپورٹ، دکانوں، دفاتر، ہاسٹلوں یا ہسپتال جیسے عوامی مقامات سے لوگوں کی موجودگی میں اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کی ریاستی پالیسی اب بھی جاری ہے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں سے چند بلوچ ریاستی اداروں کے ذریعے اٹھا کر لاپتہ کئے جاتے ہیں۔ تیسرا نقطہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر پارلیمان میں کسی قانونی بل کی منظوری، حکومت سازی، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کیلئے ووٹوں کی سودا بازی کیلئے مقبوضہ بلوچستان سے بی این پی مینگل جیسے پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ سودا بازی کرکے جبری لاپتہ بلوچوں میں سے چند ایک کو ریاست بازیاب کرتی رہی ہے جیسے کہ عمران خان کی حکومت بنانے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کیلئے سردار اختر جان مینگل کے ساتھ سودا بازی کے نتیجے میں بقول سردار صاحب سینکڑوں جبری لاپتہ بلوچوں کو ازیت خانوں سے بازیاب کرکے رہا کیا گیا۔

اسی طرح اگست 2021 میں پاکستانی پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے ایک میٹنگ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج پر رکن پارلیمان محسن داوڑ کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “ہم نے ہزاروں لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا ہے آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم مسلمان ہوکر بے گناہوں کو پکڑیں گے”۔ جنرل باجوہ کے اس دعوے سے واضح ہوتا ہے کہ جن افراد کو فوج اور سکیورٹی ادارے گنہگار سمجھتے ہیں ان کو ریاستی خفیہ عقوبت خانوں میں لاپتہ رکھا جاتا ہے۔

جبری گمشدگیوں کی تحقیقات اور لاپتہ افراد کی رہائی سے متعلق ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمیشن کی ریکارڈ کے مطابق جبری لاپتہ بلوچوں سمیت 6000 سے زائد لاپتہ افراد کو بازیاب کیا گیا ہے اور اس سے زیادہ کیسز فوج اور خفیہ اداروں کے کہنے پر خارج کئے گئے ہیں اور ہزاروں کیسز اب بھی زیر التوا ہیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جبری گمشدگی کو بطور آلہ جبر استعمال کیا جانا صرف بلوچوں تک اب محدود نہیں ہے بلکہ ہزاروں پشتون، سندھی، سرائیکی بھی لاپتہ ہیں۔

کشمیر اور گلگت و بلتستان سے بھی لوگ بڑی تعداد میں فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ چند درجن پنجابی بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنے اور محدود پیمانے پر اب بھی فوج کے ناقد پنجابی لاپتہ کئے جارہے ہیں۔ پنجاب سے جبری گمشدگی کے جو کیسز میڈیا میں آئے ان میں معروف صحافی اسد طور، مطیع اللہ جان اور عمران ریاض خان شامل ہیں جو جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوگئے۔

پختون خواہ میں 3000 کے قریب پشتون اب بھی بغیر کسی قانونی حقوق کے حراستی مراکز میں لاپتہ ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں سویلینز کو جبری لاپتہ کرنے کو کیسے چُھپایا جا سکتاہے جبکہ لاپتہ افراد بڑی تعداد میں خفیہ ازیت خانوں سے رہا بھی ہوتے رہے ہیں اور ہر روز کہیں نہ کہیں سے کچھ نئے لوگ لاپتہ بھی کئے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی باضمیر فرد یا افراد جبری گمشدگیوں میں ریاست کے ملوث ہونے سے انکار کی اس ریاستی بیانیہ کا اعتبار اور اس کی طرفداری و دفاع نہیں کرسکتے۔

2- بالواسطہ اقرار:

جبری گمشدگیوں میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے پر ریاستی بیانیہ کا دوسرا جُزو بالواسطہ اقرار کا ہے۔ جب بھی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان، حکومتی ترجمانوں اور وزراء سے جبری گمشدگیوں میں ریاست کے ملوث ہونے سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو بعض اوقات وہ ایک ہی سانس میں ریاست کے ملوث ہونے سے انکار کے ساتھ ہی اس جرم کا بالواسطہ اقرار بھی کرلیتے ہیں۔

دسمبر 2023 میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کیچ سے کوئٹہ اور پھر کوئٹہ سے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنوں کے جواب میں ریاستی بیانیہ کو پھیلانے کیلئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مختلف تعلیمی اداروں کے دورے، طلباء و طالبات سے مکالمہ، لیکچرز اور میڈیا کے ساتھ انٹرویوز اور پریس کانفرنسز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ وزیراعظم کاکڑ کی مذکورہ مہم کے دوران کئی مواقع پر طلباء اور صحافیوں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لانگ مارچ، دھرنوں اور مارچ کے شرکاء پر پولیس تشدد کے تناظر میں سوال اٹھایا کہ ریاستی سکیورٹی ادارے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کرتے؟

اسٹوڈنٹس اور صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم ایک جانب جبری گمشدگیوں میں ریاست کے ملوث ہونے کو جُھٹلاتا رہا پھر اسی سانس میں وہ جبری گمشدگی کی ریاستی پالیسی کے دفاع میں جھوٹے جواز گڑھتا اور نا معقول تاویلیں بھی پیش کرتا رہا۔ بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی ریاستی پالیسی کے دفاع میں وزیراعظم جو جواز شد و مد کے ساتھ پیش کرتا رہا وہ یہ ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ بلوچ سرمچار {جنھیں ریاست دہشتگرد کہتا ہے} ریاستی فورسز، تنصیبات اور پنجابیوں پر حملے کر رہے ہیں۔

ریاستی بیانیہ میں جبری گمشدگیوں کے جواز میں پیش کی گئی یہ تاویل بالواسطہ اقرار جرم تو ہے مگر اس جرم کیلئے کوئی قانونی اور اخلاقی جواز فراہم نہیں کرتا۔ عالمی قوانین اور تاریخ سے یہ تو ثابت کیا جاسکتا ہے کہ کسی قوم کے وطن پر جبری قبضہ اور استعماریت کی پالیسی جرم ہے۔ لیکن قومی آزادی کا مطالبہ اور جدوجہد جرم نہیں۔ اسلئے عالمی قوانین کی رُو سے بلوچستان کی آزادی کی تحریک اور اس سے وابستگی جرم نہیں البتہ بلوچستان پر پاکستان کا جبری قبضہ اور اس قبضہ کو برقرار رکھنے اور طول دینے کیلئے طاقت کا استعمال جرم ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ قومی آزادی کی تحاریک کو دہشتگردی اور حریت پسندوں کو دہشتگرد کہنا وہ تھوک ہے جسے تاریخ کے ایک موڑ پر آکر تھوکنے والا چاٹ لیتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے بنگالی حریت پسندوں کو دہشتگر کہنے والے پاکستانی بنگلہ دیش کی آزادی کی ایک سال کے اندر بنگلہ دیش کو آزاد ملک تسلیم کرکے اپنا تھوک چاٹ چکے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستانی ریاست جب بلوچستان کی آزادی کی تحریک اور جنگ آزادی کا اقرار کرتا ہے تو اس حقیقت کا بھی اقرار کرے کہ فوجی، مواصلاتی اور اقتصادی ذرائع پر سرمچاروں کے حملے اس جنگ آزادی کا حصہ ہیں۔ ان حملوں میں اگر کوئی بلوچ حملہ آور پکڑے جائیں تو ان کے بھی قانونی حقوق ہیں ان کو جنگی قیدیوں کی حیثیت دے کر جنگی قوانین کے تحت ان کے ساتھ برتائو کرے۔ جبری گمشدگی کوئی قانونی سزا نہیں بلکہ خود ایک جرم ہے۔ اور جن بلوچوں کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے ان کے بھی قانونی حقوق ہیں۔

رہی بات پنجابیوں پر حملوں کی تو بظاہر بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پنجابی شائونزم کو ہتھیار بنانے اور پنجابی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی پنجابی فوج اور اس کے دلال بلوچ قوم پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں اور پنجابی سیاستدان، میڈیا، مُلا، عدلیہ، پارلیمنٹ، حکومت اور رائے عامہ ان مظالم کی جس طرح بالواسطہ اور بلا واسطہ حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس تناسب سے بلوچستان میں پنجابیوں پر حملے، ان سے نفرت اور عداوت کا اظہار نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ ایسی صورتحال میں یہ ایک فطری بات ہے۔ فوج اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں یا خفیہ اداروں کے ایجنٹس پر حملوں کو نسل پرستی اور دہشتگردی سے جوڑنا ایک بے بنیاد جھوٹ اور بدنیتی ہے۔ پھر بھی اگر کسی پر ایسا کوئی الزام ہو تو اسے کوئی عدالت ہی شواہد کی روشنی میں مجرم قرار دے سکتا ہے۔ فوج، سکیورٹی اداروں اور حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانونی عمل سے گذارے بغیر کسی شخص کو مجرم ٹھرائیں یا اس پر تشدد کریں اور اسے لاپتہ رکھیں۔

3-جبری گمشدگیوں پر ریاستی بیانیہ کا ایک جُزو یہ جھوٹ بھی ہے کہ لاپتہ بلوچ انڈیا، افغانستان، ایران اور دوسرے ممالک میں چُھپے ہیں یا بلوچ گوریلا کیمپوں میں ہیں۔ اس جھوٹ کو نہ صرف فوج اور سکیورٹی ادارے بار بار دہراتے رہے ہیں بلکہ حکومتی عہدیدار، ارکان پارلیمنٹ، میڈیا حتیٰ کہ بعض مواقع پر عدلیہ کے ججز بھی بغیر ثبوت یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں مگر ریاست اپنے اس جھوٹ کی تائید میں چند شواہد بھی پیش نہ کرسکی ہے جبکہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہزاروں لاپتہ بلوچ ریاستی عقوبت خانوں سے وقتاً فوقتاً رہا ہوکر جبری گمشدگیوں میں ریاست اور سکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے کو ثابت کر چکے ہیں۔ ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی تشدد سے مسخ لاشیں بھی مل چکی ہیں۔

اپنے حالیہ پروپیگنڈہ مہم کے دوران نہ صرف نگران وزیراعظم انوار کاکڑ اس الزام کو شد و مد کے ساتھ دہراتا رہا بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ایک عدالتی کاروائی کے دوران اپنے ریمارکس میں بغیر ثبوت اس بے بنیاد جھوٹ کو دہرایا۔ اس ریاستی جھوٹ کا مقصد جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر ریاستی جرائم پر پردہ ڈالنا اور عالمی اداروں اور رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔

جبری گمشدگیوں کے مسئلے کی سنگینی کو کم ظاہر کرنے اور اس بارے میں اُٹھنے والے آوازوں کو مشکوک بنانے کیلئے لاپتہ افراد کی تعداد کو متنازعہ بنانے کی کوشش بھی ریاستی بیانیہ کا ایک عنصر ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک کے خلاف اپنے مہم کے دوران نگران وزیر اعظم نے بی بی سی اردو سروس کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں لاپتہ بلوچوں کی تعداد 50 بتایا حالانکہ جبری گمشدگیوں سے متعلق جسٹس جاوید اقبال کے کمیشن کی رپورٹ میں لاپتہ بلوچوں کی تعداد سینکڑوں میں بتایا گیا ہے اور سردار اختر جان مینگل کے سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں بتائی گئی لاپتہ بلوچوں کی تعداد بھی ریاستی دعووں کو جھٹلاتا ہے۔ جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا ریکارڈ کچھ اور کہتا ہے۔ دراصل ریاستی جبر، پابندیوں، ریاستی کمیشن و کمیٹوں اور عدلیہ پر بلوچوں کی عدم اعتبار اور عدم رسائی کے باعث جبری گمشدگیوں کی درست تعداد کبھی رپورٹ ہی نہیں ہو پائی ہے۔ اگر کوئی آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار عالمی ادارہ بلوچستان میں جبر گمشدگیوں کی تحقیقاتات کرے تو لاپتہ کئے گئے بلوچوں کی تعداد ہزاروں میں ثابت ہوگا۔

4- جبری گمشدگیوں پر ریاستی بیانیہ کا ایک جُزو یہ عذرِ لنگ ہے کہ موثر قوانین کی عدم موجودگی اور عدلیہ کی نااہلی کے باعث مجرم باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لانگ مارچ اور دھرنوں کے خلاف اپنے پروپیگنڈہ مہم میں ایک صحافی کی سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم انوار کاکڑ نے جھنجھلاہٹ میں یہ تک کہا کہ لاپتہ افراد کو کیسے عدالتوں میں لائیں عدالتیں انھیں چھوڑتے ہیں۔

پارلیمنٹ موثر قانون سازی کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ پورا نظام بوسیدہ ہے۔ کاکڑ نے نہ صرف صحافیوں سے بلکہ پورے پاکستان سے گلہ کیا کہ کوئی ان کی بات سمجھتا ہی نہیں۔ ریاستی بیانیہ میں گڑھی گئی یہ عذر لنگ فوج کی اس پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے جس میں تمام تر غلطیوں، ناکامیوں، کرپشن وغیرہ جیسے اپنے سیاہ کارناموں کا توا وہ سویلینز کے منہ پر ملتا ہے اور بقول مرحوم سردار عطاء اللہ خان مینگل کوتاہ فہم سیاستدان بھی اقتدار کے لالچ میں بڑی خوشی سے اپنا چہرہ پیش کرتے ہیں حالانکہ پاکستان میں پارلیمنٹ، حکومتوں، عدلیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا فوج کے کنٹرول میں ہونا اور تمام ریاستی امور میں فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ ان کا تعاون کرنا کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے۔

فوج اپنے تمام غیر قانونی اقدامات بشمول مارشلائوں کو جائز ٹھہرانے کیلئے پارلیمنٹ سے قانونی سازی کرواتا اور عدلیہ سے من پسند فیصلے لیتا رہا ہے۔ نہ تو مقننہ نے فوج کی فرمائش پر کالے قوانین بنانے سے انکار کی کبھی جرات دکھا سکی ہے اور نہ عدلیہ نے فوجی فرمائش پر فیصلے دینے میں کبھی پس و پیش کی ہے۔ یہی حال کھٹ پتلی حکومتوں، ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں کی ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی نااہلی، ناکامی اور بوسدگی لوگوں کو جبراً اٹھا کر لاپتہ رکھنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز فراہم نہیں کرتا۔ اسلئے ریاستی بیانیہ میں یہ عذرِ لنگ جبری گمشدگی کو بطور پالیسی حربہ استعمال کرنے کا بالواسطہ اعتراف تو ہے مگر کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں۔ جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر ریاست مکمل لاجواب ہے۔ لاگوں کو جبری اٹھا کر لاپتہ رکھنے کا ریاست کے پاس کوئی قانونی اور اخلاقی جواز اور معقول جواب نہیں ہے۔

فوج سمیت ریاست پاکستان کے تمام ستونوں اور پنجابی قوم کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیئے کہ بلوچستان میں فوج، دیگر سکیورٹی فورسز اور ریاستی تنصیاب پر حملے اور وہاں جاری جنگی صورتحال امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ جس کا حل پاکستان کے آئینی اور قانونی ڈھانچہ کے اندر ڈھونڈا جاسکے بلکہ بلوچستان میں پاکستانی جبری قبضہ سے قومی آزادی کی تحریک چل رہی ہے جس کا حل صرف اور صرف تحاریک آزادی سے متعلق عالمی قوانین و ضوابط پر عمل کرنے اور بلوچ قوم کی آزادی کو تسلیم کرنے میں ہی ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ جبری گمشدگی عالمی قوانین کے تحت انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے، جس میں ملوث ریاست اور ریاستی اہلکاروں کو کسی نہ کسی وقت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here