معروف بلوچ قومی شاعر واجہ مبارک قاضی کی یاد میں ان کی آبائی شہر پسنی اور پاکستان کے شہر بہاولپور میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
مبارک قاضی کی یاد میں ازم آزمان کے زیر اہتمام مبارک قاضی کے زندگی ،شاعری اور ازم سے متعلق ایک پر وقار تقریب کاانعقادکیاگیا۔
ازم آزمان زیر اہتمام تقریب تین حصوں پر مشتمل تھا ۔
پہلے حصے میں مبارک قاضی کے زندگی اور ازم شاعری پر منیر مومن، ڈاکٹر سلیم کرد ندیم اکرم ،،زبیر مختار، چندن ساچ،مرادبخش مہر گلاب غالب، ساجد نور، الف میم داد کہد علی ،عزیز پیر بخش و دیگر نے روشنی ڈالی اور مبارک قاضی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا۔
مقررین نے کہا کہ مبارک قاضی کی ادبی خدمات کو کسی بھی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ مبارک قاضی اپنے فن میں یکتا تھے، ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔
ازم آزمان پسنی کے صدر میر کمبر کلمتی نے مبارک قاضی کو خراج عقیدت اور اسکے ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ مبارک قاضی کی ادبی خدمات سمیت ان کی شاعری مداحوں کے دلوں میں ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
انہوں نے مبارک قاضی کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ہم ایک بلند پایہ شاعر اور ادیب سے محروم ہوگئے۔ بلوچی ادب میں مبارک قاضی کے خلا کو پر نہیں کیا جاسکتا ۔
تقریب کے دوسرے حصے میں مشاعرہ اور تیسرے حصے میں ساز زیمل کا اہتمام کیاگیا۔
عوامی حلقوں نے پسنی کے ادبی تنظیم ازم آزمان کے صدر میرکمبر کلمتی کی سربراہی میں ازم آزمان ٹیم کی ہمراہ بلوچی زبان کے نامور بلوچ شاعر و ادیب مبارک قاضی کی یاد میں پسنی میں پروقار تقریب انعقاد کو سہراہا۔
پسنی کے ادبی تنظیم ازم آزمان پسنی کے سرگرم ایک تنظیم ہے جو ہروقت ادبی تقریبات میں کرادر ادا کرتی آرہی ہے جو قابل ستائش ہے ۔
دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بھاولپور کا سالانہ بلوچی دیوان بنام شاعرِِ آشوب واجہ مبارک قاضی کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ، دیوان کے مہمان خاص بلوچ تاریخ دان و مورخ ڈاکٹر فاروق بلوچ اور بلوچی زبان کے پروفیسر ڈاکٹر حامد علی بلوچ تھے۔
ڈاکٹر فاروق بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ انگریز ایک قبضہ گیر کی حیثیت سے بلوچستان میں آیا اور بلوچ تاریخ کو مسخ کرکے بلوچوں کو کافی حد تک نقصان پہچایا چونکہ قبضہ گیر سے گِلا نہیں کیونکہ اُن کام ہی بلوچوں کو ہرطرف سے محکوم رکھا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کے ہمارے لوکل مورخیں اور لکھاریوں نے انگریز کا دیا یوا بیانیہ بڑھے پیمانہ پر وسعت دی۔
ڈکٹر حامد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا بلوچی زبان ایک بہت بڑی زبان ہے جو خطے میں بولی جاتی تھی لیکن اسے ختم کرنے کی بہت کوشش کی گی ہے اور اب وقت آیا ہے اُن علاقوں زبان پر کام کی جائے جہان اسے ختم کرنے کوشش کی گی ہے خوصوصاً پنجاب اور سندھ میں جہان بلوچوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
ڈاکٹر اے آر داد بلوچ نے مبارک قاضی کی زندگی شاعرہ اور کتابوں کے بارے میں اظہار خیال کیا
پینل ڈسکشن عنوان نوآبادیات تھا اور مہمان میردوست بلوچ اور محمود بلوچ تھے جنہوں نے نوآبادیاتی نظام پر روشنی ڈالی۔ اسکے بعد تقریب میں مشاعرہ، ٹیبلو پلے، ڈرامہ اور گانا گائے گئے۔
پروگرام کا آخری حصہ موسیکی تھا جہان استاد سلیم بلوچ اور سعید بلوچ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔