بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے سانحہ مستونگ پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا مستونگ میں عیدمیلاد النبی کے جلوس میں دھماکا بلوچ قوم پر براہ راست حملہ ہے اس طرح کی کارروائیاں کسی بھی نام پر قابل قبول نہیں۔ آج پوری بلوچ قوم کو سوگوار کیا گیا ہے۔ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں اور اس سانحے میں ہم متاثرہ خاندانوں کے غم میں شریک ہیں۔
ترجمان نے کہا بلوچ اور پشتون اقوام پاکستان کی ریاستی پالیسیوں کا شکار ہیں۔ پاکستان اپنے وجود سے لے آج تک اپنے مفادات کے لیے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے جس کا آج خطہ خمیازہ بلوچستان سمیت پورا خطہ بھگت رہا ہے۔آج بھی پاکستان بلوچستان میں مذہبی فرقہ واریت کے لیے راہ ہموار کرکے بلوچ قوم کو ان حالات سے دوچار کرنا چاہتا ہے جن کا پشتون قوم کو سامنا ہے تاکہ بلوچ قوم کی تحریک آزادی کو پس منظر میں دھکیلا جاسکے۔
انھوں نے کہا بلوچ قوم کو آج ماضی کی نسبت مختلف محاذ پر زیادہ سنگین خطرات درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے بلوچ قوم کو انسانی بنیادوں پر عالمی برداری کی مدد اور کھلی حمایت کی ضرورت ہے۔ ریاست پاکستان عالمی برادری کے لیے ایک سفید ہاتھی بن چکی ہے جس کا پالنا خطہ اور دنیا کے مفاد میں نہیں۔نہ ہی ایک نا اہل قابض غیرملکی حکومت کو وہ عوامی حمایت حاصل ہے جو ان حالات کو نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا ایک آزاد بلوچستان کے بغیر خطے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کا روکنا ممکن نہیں۔سانحہ مستونگ ناصرف بلوچستان کو درپیش ایک بڑے خطرے کی طرف توجہ دلاتا ہے بلکہ پورے خطے کے لیے یہ ایک بری خبر ہے۔
انھوں نے کہا بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے مختلف قوتوں کے لیے پرکشش ہے اور ریاست پاکستان بلوچ قومی تحریک سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد اسے نئی سازشوں میں الجھانے کے درپے ہے۔جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پوری دنیا نے اپنی جنگ سمجھ کر مدد کیا اس طرح بلوچستان میں قومی تحریک آزادی کو طاقت بخش کر اس خطے اور دنیا کی نجات کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
ترجمان نے کہا آج پاکستان کے زیر تسلط محکوم اقوام اپنی بدترین حالات سے دوچار ہیں۔ایک طرف ریاست کے پروردہ غیرریاستی عناصر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ریاستی فورسز بھی محکوم اقوام کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے میں نہیں ہچکچاتیں۔گذشتہ روز ماڑی جلبانی ، سکرنڈ ، سندھ میں گاؤں پر پاکستانی فورسز نے حملہ کیا خواتین سمیت نہتے لوگوں کو قتل کیا گیا۔محکوم اقوام کی نسل کشی پاکستانی ریاست کی مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔