امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کے دفاع کے لیے مداخلت کرے گا۔ صدر کے اس بیان کو امریکہ کی طویل عرصے سے چلی آنے والی ’سٹریٹجک ابہام‘ والی پالیسی سے فاصلہ اختیار کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ماضی میں کئی صدور نے اختیار کیے رکھی ہے۔
ٹوکیو میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران صدر بائیڈن کا یہ بیان اس سوال پر آیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ تائیوان کے فوجی دفاع کے لیے تیار ہے جب کہ وہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جھجھک کا شکار تھا؟
اس سوال کے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا۔ ”جی بالکل۔ یہ وہ وعدہ ہے جو ہم نے کیا ہے“
تاہم صدر نے اس بارے میں وضاحت نہیں کی کہ تائیوان کے امریکی دفاع میں کیا کچھ شامل ہے۔
صدر بائیڈن کا یہ تازہ ترین بیان امریکہ کی طرف سے اس ’سٹریٹجک ابہام‘ والی پالیسی سے بظاہر دور ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کئی امریکی صدور نے تائیوان پر چین کے ممکنہ حملے پر گفتگو کرتے ہوئے اختیار کیے رکھی ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے صدر بائیڈن کے بیان پر اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ چین اپنی خودمختاری کے معاملات پر کسی طرح کی گنجائش یا رعایت نہیں رکھتا ہے۔
صدر بائیڈن نے گزشتہ اکتوبر میں بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔ دونوں دفعہ وائٹ ہاؤس سے فوری طور پر صدر کے بیان کی وضاحت کی کوشش سامنے آئی۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ جیسا کہ صدر نے کہا ہے ہماری حکمت عملی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ صدر نے ہماری ون چائنا پالیسی اور آبنائے تائیوان کے گرد امن اور استحکام کی پالیسی کو دوہرایا ہے۔
تاہم امریکی عہدیدار تائیوان کے دفاع سے متعلق بیان سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔
چین، جس میں یک جماعتی جابرانہ نظام حکومت ہے، تائیوان کو اپنا ایک کٹا ہوا صوبہ خیال کرتا ہے اور طویل عرصے سے اس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کرتا آیا ہے بھلے اس کے لیے طاقت ہی استعمال کیوں نہ کرنی پڑے۔ حالیہ برسوں میں چین نے اس جزیرے کے نزدیک جنگی طیاروں کی پروازوں میں اضافہ کیا ہے۔
ٹوکیو میں گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ چین خطرات سے کھیل رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کی توقع نہیں رکھتے کہ چین تائیوان کو حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گا خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اس کا زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا کس طرح واضح کرتی ہے کہ ایسے اقدام کا جواب ایک طویل المدت ناپسندیدگی کی شکل میں سامنے آئے گا۔
جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیدا نے، جو اس موقع پر صدر بائیڈن کے ہمراہ کھڑے تھے، اس بارے میں زیادہ کھل کر براہ راست جواب نہیں دیا کہ آیا جاپان تائیوان کے دفاع کے لیے فوجی مداخلت کرے گا۔
مسٹر کیشیدا نے کہا کہ وہ اور صدر بائیڈن آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
جاپان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جنہوں نے یوکرین پر روس کے حملے کی کھل کر مذمت کی ہے۔ بائیڈن اور کیشیدا نے پیر کے روز بھی اپنے بیانات میں روسی حملے کی مذمت کی۔
صدر بائیڈن جاپان کے تین روز دورے پر ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے جنوبی کوریا میں قیام کیا تھا۔
ٹوکیو میں ہی ایک تقریب میں صدر بائیڈن نے ’انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک‘ کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا مقصد ایشیا میں امریکہ کی اقتصادی مصروفیات کو ظاہر کرنا ہے۔