بلوچستان عوامی پارٹی کے ثنا اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی کا واقعہ بہت تشویش ناک ہے اور خواتین کی جانب سے تشدد کا راستہ اپنانا جمہوری جدوجہد کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست نے بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے اور اس کے سیاسی و جمہوری حل کی کوشش نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اپنی بقاء، حق، ثقافت، معیشت اور جمہوری حق کی بات کرتے ہیں اور اگر انہیں نظر انداز کیا جائے تو وہ تشدد کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق ریاست کے اداروں کو مشترکہ طور پر سوچنا ہوگا کہ لوگ اس حد تک کیوں چلے گئے کہ اپنی جانیں گنوانے پر مجبور ہیں۔
ثنا بلوچ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے بلوچستان کی ایک نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مسائل کو سیاسی و آئینی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے پاس مسائل کو سلجھانے کا حل اور اس کے لیے درکار وسائل ہوتے ہیں اور بلوچستان کے مسائل ایسے نہیں کہ ان کا حل نہیں نکل سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچ عوام حق حاکمیت، وسائل پر اختیار اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی نہیں چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ اس وجہ سے بھی سنجیدہ طور پر ریاستی اداروں نے نہیں اٹھایا ہے کیونکہ اس حوالے سے سیاسی اور معاشی دباؤ نہیں ڈال سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں کیونکہ ماضی میں اگر ایک ادارہ کوئی اقدام لیتا تھا تو دوسرا اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا۔