کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے ہیں تاکہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے پیدا جمود کو ختم کیا جا سکے۔
خلیجی ملک قطر میں افغان طالبان اور امریکا کے مابین طے پانے والے امن معاہدے کے بعد سے افغانستان میں امن عمل جمود کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ کابل میں صدارتی انتخابات کے نتائج بنے ہیں۔ صدر اشرف غنی اور ان کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ دونوں نے ہی خود کو صدر قرار دے دیا تھا اور دونوں نے ہی بطور صدر الگ الگ تقریب میں حلف بھی اٹھایا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کی سیاسی اور فیصلہ سازی کی قوت دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اب دونوں صدور کے درمیان اختلافات دور کرنے ہی کابل پہنچے ہیں تاکہ طالبان کے ساتھ بین الا افغان مذاکرات کا آغاز ممکن ہو سکے۔
ان مذاکرات کو انتہائی مشکل اور پیچیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ہی امریکا اپنی تمام تر فورسز افغانستان سے نکالنے کے قابل ہوگا اور انہی مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اس ملک میں امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کی مکمل کوشش ہے کہ کسی طریقے سے افغانستان کے مختلف دھڑوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو سکے لیکن غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا انحصار ان مذاکرات کی کامیابی کی بجائے طالبان کے اس وعدے پر ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور داعش جیسی تنظیموں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور نیٹو نے اپنے کچھ فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا بھی شروع کر دیا ہے۔
طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے بعد سب سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ ہونا تھا۔ افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے تھے جبکہ طالبان نے ایک ہزار افغان سکیورٹی اہلکاروں کو چھوڑنا تھا۔ اس کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے مابین اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرنا تھا لیکن یہ پہلا مرحلہ ہی مسائل اور جمود کا شکار ہو چکا ہے۔
امریکی محکمہ داخلہ نے اپنے شہریوں کو سفر سے خبردار کر رکھا ہے۔ مائیک پومپیو اپنے دو دورے پہلے ہی منسوخ کر چکے ہیں، جن میں جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس بھی شامل تھا۔ لیکن وہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کابل پہنچے ہیں تاکہ انٹرا افغان مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے اور طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کو بچایا جا سکے۔
دوسری جانب امریکی خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے پیر کی صبح ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن فریقین قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
طالبان ابھی تک افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتے آئے تھے۔ امریکا کے ساتھ امن معاہدے کے بعد وہ اس کے لیے تیار ہوئے لیکن افغان حکومت ابھی تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کسی متفقہ موقف اختیار نہیں کر سکی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ اس حوالے سے بھی غیرمعمولی ہے کہ ماضی میں امریکا اور اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اب وہ افغان سیاستدانوں کے مابین ثالثی نہیں کریں گے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے تھے اور حکومت سازی کے لیے بین الاقوامی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی شراکت داری انتہائی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ نجی اختلافات کی وجہ سے متعدد ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔ اب افغانستان کی یہ دونوں شخصیات ہی صدر کے عہدےپر فائز ہیں اور اس تناظر میں اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں اور افغانستان کی حکومتی کارکردگی مزید متاثر ہو سکتی ہے۔