بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں بلوچستان افغان سرحد بابِ دوستی پر طالبان کے کنٹرول کے باوجود دونوں جانب سے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ حکام اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ موقع سے فائدہ اُٹھا کر غیر قانونی طور پر بھی کچھ لوگ پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
چمن میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بھی قومی شناختی کارڈ پر افغانستان کے علاقے ویش منڈی تک جانے کی اجازت ہے۔
بلوچستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کے ذریعے روزانہ سیکڑوں ٹرک مال لے کر گزرتے ہیں۔
چمن میں رہائش پذیر پیشتر افراد زندگی کا گزر بسر سرحدی کاروبار سے کرتے ہیں۔ ان چھوٹے کاروباری افراد کو اکثر یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں سرحد بند نہ ہو جائے۔
یاد رہے کہ افغانستان کے سرحدی علاقے اسپن بولدک پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک ہفتے تک پاک افغان سرحد کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا جسے بعدازاں کھول دیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر چمن جمعہ دار خان مندوخیل نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کے لیے ضروری ہدایات درج ہیں۔
اس ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ وہ افغان شہری جو افغانستان سے باب دوستی کے راستے افغان دستاویز تزکیرہ کے ذریعے پاکستان آتے ہیں، انہیں صرف چمن اور قلعہ عبداللہ کی حدود تک آنے کی اجازت ہے۔
حکم نامے کے مطابق یہ فیصلہ سابقہ افغان سرحدی حکام کے ساتھ ماضی میں طے ہوا تھا کہ تزکیرہ رکھنے والے افغان شہری صرف چمن یا ضلع قلعہ عبداللہ کی حدود تک آسکتے تھے اور اب بھی اسی معاہدے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
افغان شہریوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے کوئٹہ جانے کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا جائے گا۔
دوسری جانب حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چمن سرحد سے یومیہ 15 ہزار افراد کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ”اب وہ دور نہیں جب 40 سال پہلے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے اب سرحد پر مکمل باڑ لگائی گئی ہے اور اب یہ ایک محفوظ سرحد ہے۔”
انہوں نے کہا کہ سرحد پر سیکیورٹی ادارے موجود ہیں لوگوں کو سائنٹیفک مشینیوں سے اسکین کر کے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔
ان کے بقول، ”افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر اثرات مرتب ہوں گے۔ ماضی میں بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین بلوچستان میں داخل ہوئے جس کے بعد یہاں کلاشنکوف اور منشیات عام ہوئی مگر اس بار کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔”
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاک افغان سرحد پر دونوں جانب سے روزانہ 15 ہزار کے قریب لوگ آتے اور جاتے ہیں جن میں رشتہ داروں سے ملنے والوں کے علاوہ مریض اور کاروباری لوگ شامل ہیں۔
وزیرِ داخلہ بلوچستان نے اس عزم کو دہرایا کہ کسی کو بغیر دستاویزات کے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔