پاکستانی فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے متصل افغان صوبے کنڑ کے ایک فوجی کمانڈر نے اپنے 46 فوجیوں اور پانچ افسروں سمیت پاکستان میں پناہ مانگی ہے۔
تاہم افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان اجمل شنواری نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے فوجی جوانوں نے کسی دوسرے ملک میں پناہ لی ہے اور وہ بھی پاکستان میں۔ افغان اور بالخصوص افغان فوج میں پاکستان کے خلاف جتنی حساسیت ہے وہ سب کو پتا ہے۔‘
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاک افغان سرحد پر بدلتی صورتحال کے باعث افغانستان کے فوجی اپنے مورچوں کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گئے تھے اور پاکستان اس حوالے سے افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق پاکستان میں پناہ لینے والے افغان فوجی افغانستان کے صوبہ کنٹر اور پاکستان کے ضلع چترال کے بارڈر پر تعینات تھے۔ چترال میں موجود سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ کنٹر میں افغان طالبان نے اپنا دباؤ بڑھایا ہے اور گزشتہ کئی دونوں سے سرحد پر واقع بریکوٹ اور کالام کی افغان چوکیوں کی سپلائی لائن کو کاٹا ہوا ہے۔ ان چوکیوں پر موجود افغان اہلکاروں کو کئی روز سے راشن سمیت مختلف اشیا کی فراہمی رکی ہوئی تھی اور ذرائع کے مطابق فوجیوں کو مشکلات کا سامنا تھا۔
ذرائع کے مطابق افغان اہلکار عملاً گھیرے میں تھے ان کو کوئی بھی مدد نہیں مل رہی تھی جس کے بعد انھوں نے پاکستان سے مدد طلب کی۔ چترال کے علاقے گرم چشمہ، جو سرحدی علاقے ارندو کے قریب واقع ہے، کے رہائشیوں کے مطابق سرحدی حدود پر انھیں کوئی غیر معمولی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں تاہم چترال کی سرحد سے منسلک علاقوں میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی بریکوٹ سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں افغان طالبان کے پہنچنے کی اطلاعات مل رہی تھیں۔
روس افغانستان میں کیا چاہتا ہے؟پاکستان نے بھی ارندو سیکٹر میں چند ہی دن قبل فوج کا دستہ تعنیات کیا ہے۔
چترال کے ساتھ افغانستان کے صوبے نورستان کا علاقہ بھی لگتا ہے اور اس صوبے کے حوالے سے خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں پر بھی طالبان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل افغان طالبان نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع باجوڑ اور بلوچستان کے ضلع چمن سے جڑی سرحدی چوکیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کی سرحد سے متصل افغان صوبے ننگرہار کے گورنر نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 39 ایسے جنگجوؤں کی لاشیں بین الاقوامی ادارہ ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے حوالے کی ہیں جن کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔
صحافی محمود جان بابر کے مطابق ننگرہار کے گورنر ضیا اللہ امرخیل نے افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی حکومت نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران 39 ایسے افراد کی لاشیں آئی سی آر سی کے حوالے کی ہیں جو پاکستانی تھے اور طالبان کے ساتھ افغان فورسز سے لڑنے کے لیے افغانستان آئے تھے۔
ان کا دعوی تھا کہ بہت سارے ایسے زخمی پاکستانی جنگجوؤں کو افغانستان کے مختلف علاقوں سے واپس بھیجا گیا ہے۔