ھندی فلم "پانی پت” پر ایک تبصرہ ، ذوالفقار علی زلفی

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بھارت کے ممتاز ہدایت کار اشوتوش گواریکر نے پانی پت کی تیسری لڑائی کے ساتھ وہی کیا جو وہ قبل ازیں "جودھا اکبر” اور "موہن جو دڑو” کے ساتھ کرچکے تھے ـ یعنی ستیاناس ـ

بھارتی تاریخ دانوں کے مطابق مرہٹہ پیشوا سداشیوراؤ باؤ ایک زیرک جرنیل تھے ـ اشوتوش گواریکر بھی فلم کا آغاز ان کی ہوشیاری و عقل مندی سے کرتے ہیں لیکن فیصلہ کن جنگ شروع ہوتے ہی ان کی ہوشیاری ہوا ہوجاتی ہے ـ ہندوستان کے راجو مہاراجوں کے ساتھ ان کی سفارت کاری ناکام ہوکر قابلِ رحم بن جاتی ہے ـ ہدایت کار نے اس دور کے ہندوستان کی سیاست اور مختلف چھوٹے بڑے ریاستوں کے درمیان آپسی تضادات کو طاق میں رکھ کر سیدھا سیدھا بتا دیا کہ "غداری کی گئی” ـ فلم بینوں کو احمق سمجھا ہے کیا؟ ـ

ہدایت کار نے احمد شاہ (سنجے دت) کو ولن اور سدا شیو (ارجن کپور) کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا وہ مہذب ترین الفاظ میں بھی حماقت کے علاوہ دوسرا نام نہیں پاسکتا ـ احمد شاہ ایک وحشی درندہ ہے جسے تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری ـ اسے انار تک کھانے کی تمیز نہیں جو قندھار کا مشہور پھل ہے ـ وہ اپنے بھائی اور مصاحب کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرتا ہے ـ کم بخت سنجے لیلا بھنسالی "پدماوت” میں خلجی تخلیق کرکے بری روایت قائم کرگیا ـ بہرحال، دوسری جانب سدا شیو صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک متمدن انسان ہے ـ وہ گاتا ہے، ناچتا ہے، عشق کرتا ہے اور بلاوجہ قتل کرنے پر یقین نہیں رکھتا ـ اسکرین پلے کے مطابق ہیرو اور ولن کے درمیان شخصی تضاد ابھارنا ضروری تھا پھر بھی اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا احمد شاہ جارح جبکہ سدا شیو دافع ہے ـ باقی سب اسٹیریو ٹائپ اور فضولیات کا مجموعہ ہے ـ

عام طور پر اردو زبان (فارسی و عربی الفاظ پر مشتمل) کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے ـ واضح رہے ایسا عام لوگ سمجھتے ہیں ـ کیا اشوتوش گواریکر جس نے "لگان” جیسی لازوال فلم تخلیق کی ایک عام آدمی ہے؟ ـ پھر اس جہالت کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ افغانستان کا ایک پشتون حکمران ؛ میر و غالب کی اردو بولتا نظر آتا ہے ـ صرف یہ بتانے کے لیے کہ احمد شاہ ابدالی مسلمان ہے اس کے منہ میں دبستانِ لکھنو کی شاعری گھسیڑ دی ـ

سب جانتے ہیں ـ پانی پت کی تیسری لڑائی مرہٹے ہار گئے تھے ـ اس ٹھوس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کونسی قیامت آجائے گی؟ ـ مگر نہیں ہم تو بھئی ہار کر بھی جیت گئے تھے ـ فاتح احمد شاہ مرہٹہ پیشوا کو خط لکھتا ہے ـ واہ ـ سدا شیو اور مرہٹہ سپاہیوں کی بہادری کی تعریف کرتا ہے ـ گویا تسلیم کرتا ہے میں جیت کر بھی ہار گیا ـ اس اوچھی حرکت سے قوم پرست جذبات کو شاید تسلین ملے لیکن اسکرین پلے کا بھرکس نکل گیا ـ

خوامخواہ رنویر سنگھ پر پیار آرہا ہے ـ ارجن کپور کسی بھی سین میں ایک جنگی کمانڈر نہیں لگے ـ تھکے تھکے سے بے جان مکالمے ـ

ہاں کیرتی سینن پیاری لگ رہی تھی ـ بس یہ سمجھ نہیں آیا ایک نیم حکیم گھریلو عورت خونخوار افغان سپاہیوں کو تلوار بازی میں شکست کیسے دے جاتی ہے؟ ـ افغان سپاہی تھے یا کچرا چننے والے معصوم افغان بچے؟ ـ

بہرکیف ـ قصہ مختصر ـ مرہٹہ سامراج امر ہے ـ

Share This Article
Leave a Comment