اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نیب نے گرفتار کرلیا

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی، جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا۔

صوبائی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے آمدن سے زائد اثاثے اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

عدالت میں سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکلا نے اپنے دلائل کو مکمل کیا جبکہ اس کے جواب میں نیب کی جانب سے بھی دلائل دیے گئے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو شہباز شریف کے وکلا نے اپنے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور سابق وزیراعلیٰ کی کارکردگی سے تمعلق شائع شدہ رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ان کے مو¿کل نے آج تک کوئی ٹی اے ڈی اے یا سیلری نہیں لی، اورنج لائن ٹرین میں بھی شہباز شریف نے 81 ارب روپے بچائے، اس کے علاوہ ٹیکسی پراجیکٹ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نے 40 کروڑ روپے کی خالص بچت کی۔

وکیل کے مطابق شہباز شریف نے سیف سٹی کیمروں کے منصوبے میں قوم کے 4 ارب روپے بچائے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ مو¿قف اپنایا کہ مذکورہ معاملے پر ریفرنس دائر ہوچکا ہے، اس اسٹیج پر گرفتاری نہیں بنتی، مذکورہ معاملے میں نیب کی بدنیتی ہر جگہ نظر آرہی ہے۔

عدالت میں وکیل نے بتایا کہ ان کے مو¿کل نے مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی قوم کی رقم بچائی ہے لہٰذا ان پر نیب کے کیسز بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

اس موقع پر ان سے پوچھا گیا کہ کیا احتساب عدالت میں شہباز شریف پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ریفرنس کی کاپیاں فراہم ہوچکی ہیں، فرد جرم عائد ہونے والی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں، حکومت تو چاہتی ہے کہ شہباز شریف جیل جائیں۔

دوران سماعت عدالت میں موجود شہباز شریف نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس سردار احمد نعیم نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل نے دلائل دینے ہیں، کچھ رہ جائے تو آپ بتائیے گا۔

بعد ازاں عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کردیا، جس کے بعد نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

اس معاملے میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کررکھی ہے جبکہ اسی معاملے میں گزشتہ دنوں لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور بیٹی رابعہ عمران کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

Share This Article
Leave a Comment