ماہِ اگست میں 75فوجی آپریشنز میں 98 افرادلاپتہ،13لاشیں برآمد،4سوسے زائد گھروں میں لوٹ مار

ایڈمن
ایڈمن
34 Min Read

ادارہ سنگر کی ماہ ِ اگست کی تفصیلی رپورٹ

ماہ اگست2020 کی صورت حال ریاستی جبر کے حوالے یکساں بلکہ تباہ کن رہی،یوں تو پورے مہینے میں ضلع کیچ،ضلع آواران،ضلع واشک،ضلع پنجگور،بولوان میں فوجی جارحیت جاری رہی،مگر خاص کر گچک کے پہاڑی علاقوں میں تا تحریر ریاستی جبر جاری ہے،جہاں درجنوں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے ساتھ دو افراد کی شہادت رپورٹ ہوئے ہیں۔ گچک،دراسکی ان پہاڑی سلسلوں میں چار سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ لوٹ مار کی گئی،اسی طرح جھاؤ کے پہاڑی سلسلے سورگر میں بھی فوجی آپریشن میں سو سے زائد گھروں کو جلایا گیا،جاری آپریشنز میں پہاڑی علاقوں میں موجود پانی کے چشموں میں زہر ملانے سے سینکڑوں مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔
اسی طرح ضلع کیچ کے علاقے دشت،مزن بند میں بھی تاحال پاکستانی فوج کی تباہ کن آپریشن جاری ہے۔
ان آپریشنز کے علاوہ حیات بلوچ کی لرزہ دینے والی قتل نے پورے بلوچ قوم کو یکجا کیا اور اس سلسلے میں شدید رد عمل سامنے آیا۔مقبوضہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں احتجاج و مظاہروں کے ساتھ کراچی اور بیرونی ممالک میں بھی پروٹسٹ کیے گئے۔

مقبوضہ بلوچستان ماہ اگست میں ریاستی سنگینیاں عروج پر رہیں، فورسز نے75 سے زائد آپریشنز کر کے98 افراد کو لاپتہ کیا،جب کہ اس ماہ13 نعشیں برآمد ہوئیں،جس میں 9 بلوچ فرزند فورسز ہاتھوں شہید ہوئے جبکہ ایک لاش کی شناخت نہ ہو سکی اور تین کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔ دوران آپریشن پاکستانی فوج نے 400 سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ ان گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
اگست کے ماہ قابض ریاستی فورسز نے گچک،دراسکی و گرد نواع میں خونی آپریشن کیا،زمینی فوج کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹروں کا استعمال بھی کیا گیا،تاحال مذکورہ علاقے فوجی محاصرے میں جس کی وجہ سے وہاں سے مکمل تفصیلات و نقصانات کا آنا باقی ہے۔اسی طرح ضلع کیچ کے مختلف علاقوں اور جھاؤ میں بھی تا تحریر فوجی آپریشن جاری ہے۔
ان آپریشنوں میں پاکستانی فوج نے قدرتی چشموں کے پانیوں میں زہر ملایا جس سے سینکڑوں مویشیاں مر گئے،ابتدائی رپورٹ کے مطابق گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور زہریلی پانیوں سے ایک ہزار سے زائد مویشیاں مر چکے ہیں۔

ادارہ سنگر کی ماہ ِ اگست کی تفصیلی رپورٹ

یکم اگست
۔۔۔بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے کولواہ سے پاکستانی فورسز نے دوران آپریشن گھر میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ایک خاتون کو گرفتار کرکے اپنے ہمراہ لے گئے۔فورسز کے ہاتھوں اغواء ہونے والی خاتون کی شناخت شلّی ولد تلاھو کے نام سے ہوگئی ہے۔


2 اگست
۔۔۔ناگاؤ،دلبند،اسپلنجی، جوہان، پاکستانی فوج نے زمینی و فضائی آپریشن کیا،علی الصبح پاکستانی فوج کی8 گن شپ ہیلی کاپٹروں نے ناگاؤ،دلبند،اسپلنجی، جوہان کے پہاڑی سلسلوں میں شدید شیلنگ و بمباری کا سلسلہ شروع کیا،دن بھر فورسز کا آپریشن جاری رہا۔


5 اگست
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع کیچ سے دو اور مقبوضہ سندھ کے ضلع خیر پور سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے دو بلوچوں کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
سندھ کے ضلع خیر پور کے مثالی گوٹ کے رہائشی دو بھائیوں کچی خان مری اور زامر خان مری کو رات کے دو بجے کے قریب فورسز نے گھر سے انکو اغوا کیا۔
گذشتہ رات دو بجے کے قریب پاکستانی فورسز نے بلیدہ کے علاقے میناز میں آپریشن کرتے ہوئے دو بلوچ نوجوانوں مختار ولد مجید اور عبدالوہاب ولد ملا عبدالحکیم کو ان کے گھر سے اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
۔۔گذشتہ دنوں کیچ کے علاقے پیدارک سے وقار ولد ہاشم دشت سے عبدالقدوس کولواہ سے واجد ولد محمد، محمد علی ولد واجد، الہی بخش ولد تلاھو سمیت کئی افراد گرفتاری بعد لاپتہ کردیئے گئے۔


6 اگست
۔۔۔کراچی کے مین بازار میں حانی گل بلوچ کی جبری گمشدگی کی کوشش ناکام ہو گئی۔
کراچی کے مین بازار صدر کے موبائل مارکیٹ کے سگنل پرپاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے لاپتہ نسیم بلوچ کے منگیتر حانی گل بلوچ کی جبری گمشدگی کی کوشش ناکام ہوگئی۔
حانی گل بلوچ کے منگیتر نسیم بلوچ کو 14مئی2019 کو سیکورٹی فورسز وخفیہ اداروں نے حانی بلوچ کے ساتھ اٹھا کر لاپتہ کیا تھا اور بعد ازاں حانی بلوچ کو چھوڑ دیا گیا۔


۔۔۔بلیدہ میں فورسز نے 3افراد کو جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
بلیدہ کے علاقے بزپیش ماسٹر ناصر بازار میں گذشتہ شب پاکستانی فورسز نے گھروں پر دھاوا بول کر، گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیئے۔
مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ فورسز نے لوگوں کے موٹر سائیکل نذر آتش کئے اور گھروں کے قیمتی سامان بھی قبضے میں لے لئے۔
جبکہ خواتین اور بچوں کوہراساں کرکے تین نوجوانوں کو گھر والوں کے سامنے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ جن میں دو سگے بھائی جاسر اور باسط ولد شریف اور علم ولد امیت شامل ہیں۔فورسز نے کمسن بچوں کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کہ جس پر خواتین نے مزاحمت کی تو انہیں تشددکانشانہ بناکر چھوڑ دیا گیا۔
۔۔۔کوئٹہ سمیت سبی اور صنعتی شہر حب سے تین افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہے۔
سبی سے برآمد ہونے والے لاش کی شناخت حسین الدین ولد شادی کے نام سے ہوئی ہے جو نصیر آباد کا رہائشی ہے۔
اسی طرح کوئٹہ کے علاقے سبزل روڈ کلی گشگوری سے ایک شخص کی لاش ملی جسے شناخت کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے صنعتی شہر حب کے علاقے لیبر کالونی سے نامعلوم شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے جسے شناخت کے لئے سول اسپتال حب منتقل کر دیا گیا ہے۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے تربت سے ریاستی حمایت یافتہ مسلح افراد نے چھ بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرکے اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔
تربت کے علاقے آسکانی میں ریاستی حمایت یافتہ مسلح افراد نے رزائی ولد دلبود، خداداد ولد بازید، محمد جان، گہرام، شیر جان ولد گہرام، اور اعظم ولد خالق داد کو بزور بندوق زدکوب کرکے اپنے ہمراہ لے گئے۔
ذرائع کے مطابق مسلح افراد کا تعلق ریاستی حمایت یافتہ مرزا گروہ سے ہیں۔


7 اگست
۔۔۔پاکستانی فورسز ہاتھوں لاپتہ نوجوان کے والد بھی لاپتہ ہوگئے۔
ضلع آواران سے پاکستانی فوج نے لاپتہ چاکر بلوچ کے والد سلام بلوچ کوبھی لاپتہ کردیا ہے، پاکستانی فوج نے گزشتہ روز سلام بلوچ کو آواران بازار کے آرمی کیمپ بلایا جس کے بعد سے وہ تاحال لاپتہ ہیں۔
واضح رہے کہ انکے بیٹے چاکر بلوچ کو پاکستانی فورسز نے حب چوکی سے حراست بعد لاپتہ کیا تھا، چاکر بلوچ جو ذہنی حوالے سے مریض تھے اور علاج کے لیے انکو حب لایا گیا تھا جہاں اسے فورسز نے لاپتہ کیا۔


9 اگست
۔۔۔گزشتہ رات پاکستانی فوج نے پنجگور کے علاقے پروم گیشتی میں شہید ملا ناصر کے گھر پر چھاپہ مارکر ان کے تین سگے بھائی علی،سرور، اور عبدالمالک ولد سنجر کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
واضح رہے پاکستانی فوج نے اس سے قبل بھی شہید ملا ناصر کے گھر پرچھاپہ مارا ہے اور اس کے بھائی سرور کو اس سے قبل بھی دو مرتبہ پہلے فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا تھا۔
۔۔پاکستانی فوج نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے ایک شخص کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
کل رات بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی اکرم کالونی سے کولواہ کنیچی کے رہائشی نوجوان مقبول ولد جمعہ کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ نوجوان کولواہ کنیچی کا رہائشی ہے جو پاکستانی فوج کے بربریت سے تنگ آکر اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی کرکے حب چوکی میں پناہ گزین کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوئے تھے۔


12 اگست
۔۔۔وادی مشکے پاکستانی فوج کا آپریشن جاری،گچک سے دو افراد پاکستانی فوج نے اغوا کر لیے۔
پاکستانی فوج نے پینک کلانچ گچک سے عاظم ولد مار جان محبت ولد مراد جان نامی دو افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔
جبکہ وادی مشکے کے علاقے زونگ میں ریاستی بربریت کا سلسلہ جاری ہے دن بھر گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پہاڑی علاقوں کو نشانہ بنایا،۔


13 اگست
۔۔۔ضلع آواران میں فوجی آپریشن کے لیے،تمام مقامی گاڑیوں کو ضبط کر لیا گیا۔
گذشتہ شب پاکستانی فوج نے ضلع آواران کے گردونواحی علاقوں تیر تیج، اہوری،بزداد،سر مالار، چیری مالار،گیشکوراور دیگر چھوٹے دیہاتوں کی مکمل ناکہ بندی کردی ہے اور ان علاقوں کے داخلی و خارجی راستوں کومکمل طور پربند کرکے فوجی دستے علاقوں میں پھیل گئے۔
مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ فوج نے محاصرے میں لئے گئے مذکورہ علاقوں کے تمام لوگوں کی گاڑیوں کو قبضے میں لیا ہے اور عوام کو گھروں میں محصور کردیا گیا۔
۔۔۔گچک میں فوجی آپریشن جاری،آواران میں موبائل نیٹ ورک بند،گچک ٹوبہ میں گذشتہ رات سے فوجی آپریشن جاری ہے۔
جبکہ آواران میں ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیاریاں ہورہی ہیں جہاں موبائل نیٹ ورک کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے اور لوگوں کی گاڑیاں بھی فوج نے قبضے میں لئے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق گذشتہ رات دوجیٹ طیارے بھی علاقے میں دکھائی دیئے تھے۔
۔۔۔۔ پاکستانی فوج نے ضلع کیچ میں فائرنگ کرکے نوجوان طالب علم حیات کو شہید کر دیا۔
حیات بلوچ ضلع تربت کے رہائشی تھے۔ وہ چار بہن بھائی تھے جن میں حیات بلوچ کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ کراچی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔


14 اگست
۔۔۔۔گچک میں زمینی وفضائی آپریشن میں شدت، کئی آبادی نذر آتش کیے گئے۔بلوچستان کے علاقے گچک اور آواران میں زمینی وفضائی آپریشن میں شدت لائی گئی۔
جہاں پاکستانی فوج درندگی پر اتر آئی ہے اور گچک کے دس سے زائد آبادیوں کوجن میں لوہڑی،کلانچ، تاک ڈن،ٹوبہ اور دیگر شامل ہیں کو نذر آتش کررہی ہے اورطیاروں کی آبادیوں پر شیلنگ بھی کی گئی۔
فوج نے چادرو چاردیواری کی تقدس کو پامال کرکے خواتین و بچوں کو شدید تشدد کانشانہ بنایا اور انہیں گھسیٹ کر گھروں سے باہر نکال کر گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
جبکہ فوج نے کئی افراد کو حراست میں بھی لیا ہے جن میں ایک کی شناخت موسیٰ نامی ایک چرواہے کے نام سے ہوگئی ہے۔
۔۔۔آواران کے علاقے پیراندر میں پاکستانی فوج نے آبادی پر حملہ کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اورخواتین کو اغوا کرنے کی دھمکی دی ہے۔
بروزجمعہ کو پاکستانی فوج نے پیراندر پر یلغار کرکے چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کیا اور خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
فوجی اہلکاروں نے پیراندر کے تمام آبادی کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا اور انہیں اپنے گھر بار چھوڑنے اورپیراندر کو مکمل طور پر خالی کر نے کی دھمکی دی اور کہا کہ کل تک اگر کسی نے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا اور پیراندر کو خالی نہیں کیا تو تمام خواتین کو اغواکرکے کیمپ منتقل کیا جائے گا۔


15 اگست
۔۔۔ضلع آواران، واشک،کیچ،پنجگور پاکستانی فوج کا زمینی و فضائی آپریشن جاری،متعدد بستیاں نذر آتش،کئی بستیاں کے لوگ فورسز ہاتھوں لاپتہ۔
مقبوضہ بلوچستان کے چار اضلاع میں پاکستانی فوج کا پہاڑی علاقوں پر شدید نوعیت کی آپریشن جاری ہے۔
پاکستانی فوج کی زمینی وفضائی آپریشن کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے،، دملی،ٹوبہ،آزوی زیارت،کیل کور،پسیل، لوڈی، سولیر،چب،پیل کلانچ ،گچک کے تمام علاقوں میں آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، زمینی فوج کے ساتھ تین گن شپ ہیلی کاپٹر بھی اس آپریشن کا حصہ ہیں دن بھر ان گن شپ ہیلی کاپٹروں نے مذکورہ علاقوں پر شیلنگ کی ہے، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کئی انسانی بستیوں کو پاکستانی فوج نے نذر آتش کیا ہے۔


16 اگست
۔۔۔گچک،دراسکی فوجی آپریشن جاری، چار خواتین تین بچے اغوا۔
چک کے بیشتر علاقوں میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے،چار خواتین تین بچے بھی فوج نے اغوا کر لیے ہیں جبکہ گچک میں درجنوں گاؤں بھی نذر آتش کیے گئے ہیں۔
دراسکی میں شے غبی زیارت کے علاقے میں ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی۔


17 اگست
۔۔۔کیچ،آواران، واشک و پنجگوراضلاع میں فوجی آپریشن میں وسعت، متعدد افراد لاپتہ
پاکستانی فوج نے ضلع کیچ،ضلع آواران،ضلع واشک،ضلع پنجگورمیں فوجی آپریشن کو وسعت دیکر آواران کی جانب سے سرحدی علاقوں پر آپریشن چوتھے روز بھی جاری ہے۔اور اس میں مزید شدت لائی گئی ہے۔
گچک،کیل کور،کولواہ،گندہ چائی،زر بار پہاڑی علاقے میں پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی ہے۔
۔۔حیات بلوچ کے قتل کے خلاف تربت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
پاکستانی فوج کے ہاتھوں کیچ کے مرکزی شہر تربت آبسر کے مقام گزشتہ دنوں شہید ہونے والے بلوچ طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے خلاف تربت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا
کراچی اور کوئٹہ کے بعد آج تربت میں ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراؤں سے ہوتے ہوئے شہید فدا چوک پر جلسے کی شکل اختیار کرگیا احتجاج میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین و بچوں سمیت مرد حضرات شامل تھے۔


18 اگست
۔۔۔پاکستانی فوجی آپریشن تین اضلاع میں پانچویں روز بھی جاری،درجنوں لوگ اغوا کیے گئے۔
پاکستانی فوج کی بربریت پانچویں روز بھی جاری،سینکڑوں گھر نذر آتش درجنوں افراد آرمی کیمپوں میں منتقل جس میں بڑی تعداد خواتین وبچوں کی ہے۔
ضلع پنجگور،کیچ کولواہ، آواران مشکے اور ضلع واشک کے متعدد علاقوں میں پاکستانی فوج کی زمینی اور فضائی بربریت جاری رہی ہے۔
فوجی آپریشن کولواہ آواران کے مغربی پہاڑوں اور پنجگور اور ضلع واشک کی مشرقی جانب سے شروع کیا گیا تھا، اب اس میں وسعت لاکر ضلع واشک کے علاقہ راغے کے شمال مشرقی علاقوں شنگر، ملادونی،پیزگ اور گجلی تک پھیلاکر ان پہاڑی علاقوں میں ملٹری اور ریاستی حمایت یافتہ مسلح افراد کے کارندوں نے لوگوں کے جھگیاں اور گھر جلانے کا سلسلہ شروع کیاہے۔
پاکستانی فوج نے چب،گونی،گورکی،لوہڈی، میں ڈیڑھ سو سے زائد گھروں کو نذرآتش کرنے کے بعدتمام لوگ کو پرپوکی آرمی کیمپ میں لا کر تشدد کا نشانہ بنایا جس میں خواتین و بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے اسکے بعد کہن کیمپ آرمی کیمپ منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان:گچک پاکستانی فوج نے چھ خواتین کو پانچ بچوں سمیت لاپتہ کر دیا ہے۔
گچک کے علاقے پینک کلانچ میں کی مکمل انسانی آبادی کو پاکستانی فوج نے زمینی و فضائی آپریشن سے تباہ کرنے کے ساتھ تمام گھروں کو نذر آتش کر دیا ہے۔ اور اسی گاؤں کے6 خواتین کو انکے 5 بچوں سمیت اغوا کر لیا ہے۔زر بی بی بنت دوری، عمر پچاس سال، دری زوجہ صابر، عمر 75 سال، گنج خاتون زوجہ اللہ داد، عمر 65 سال۔ رضیہ بنت عطا محمد، شبانہ بنت دری۔
تمل عمر7 سال، نور زیب عمر 3 سال،صدام عمر دس سال،لیاقت عمر8 سال، خدابخش عمر پانچ سال کو پاکستانی فوج نے گچک کے علاقے پینک کلانچ سے حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کردیا ہے۔
واضح رہے کہ پانچ روز سے مقبوضہ بلوچستان کے چار اضلاع کیچ،آواران،پنجگور،واشک کے سرحدی پہاڑی علاقوں میں شدید آپریشن جاری ہے،۔زمینی فوج کے ساتھ پاکستانی فوج کے دس گن شپ ہیلی کاپٹر بھی اس آپریشن کا حصہ ہیں۔


19 اگست
۔۔۔پاکستانی فوج کا گچک و گرد نواع میں خونی آپریشن چھٹے روز بھی جاری، دو افراد پاکستانی فوج نے قتل کردئیے۔
پاکستانی فوج کا مقبوضہ بلوچستان کے علاقے گچک،واشک،کیچ کے پہاڑی علاقے جو آواران سے جڑے ہیں،بدترین زمینی وفضائی آپریشن کا سلسلہ6 روز بھی جاری رہا۔
گزشتہ روز گچک کہن کے علاقے میں دو افراد کی لاشوں کو پاکستانی فوج نے پھینکا،مقامی ذرائع بتاتے ہیں انکی چہرئے مسخ ہونے کے ساتھ انکو گولیوں سے بھوند کر مار ڈالا گیا تھا۔


20 اگست
۔۔۔بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپے کے دوران تین نوجوانوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ وحید بلوچ، نوید بنگلزئی اور غلام حسین بنگلزئی کو مستونگ کے علاقے کلی تیری سے پندرہ اگست کی رات فورسز اہلکاروں نے حراست میں لے کر ساتھ لے گئے۔
نوید بنگلزئی اور غلام حسین بنگلزئی آپس میں بھائی ہے جبکہ ان کا کزن غلام حسین بولنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ وحید بلوچ کو اس سے قبل 2012 میں بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
۔۔۔ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے 12 اگست کو مغربی بلوچستان کے علاقے درگس میں فائرنگ کر کے رحمت جمال عرف فارس ولد جمال کو شہید کر دیا۔
۔۔۔حیات بلوچ قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔
تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسٹوڈنت حیات مرزا کے قتل کیخلاف آج بھی بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے ایک ریلی نکالی گئی۔ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر کر مین آر سی ڈی روڈ پر گشت کیا اور حیات بلوچ قتل کے خلاف نعرہ بازی کی۔
ریلی کے شرکاء نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کی شکل اختیار کیا اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچستان سے کیے گئے اپنے وعدوں سے مْکر چکا ہے، اس ریاست میں بلوچ کی مال و جان کی قیمت سے زیادہ پنجاب کے جانوروں کو قدر قیمت ہے۔
بارکھان اور نوشکی میں بھی طلباء طالبات سمیت سول سوسائٹی سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئے ہیں اس موقع پر بارکھان کے مرکزی چوک سے ریلی برآمد ہوا۔ ریلی میں شریک لوگوں نے ایف سی کے خلاف نعرہ بازی کی۔
۔۔۔گچک آپریشن جاری،خواتین وبچے فورسز ہاتھوں لاپتہ ہوئے۔
بلوچستان کے ضلع پنجگور،آواران،کیچ ،آواران سرحدی پہاڑی علاقوں اور گردونواح میں ایک بڑے پیمانے کافوجی آپریشن جاری ہے۔
گچک سے مزید سات خواتین کو گیارہ بچوں کے ہمراہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منقل کردیا گیا ہے، جبکہ آٹھ افراد کے گھروں سمیت گندم اور دیگر کھیتوں کو فورسز نے جلا دیا ہے۔
لاپتہ کیئے گئے خواتین اور بچوں میں مریم، مہرم، ماہل، ماہ گل، رضیہ، جماعتی، بیگو، چودہ سالہ شکیلہ، چھ سالہ جمیلہ، بارہ سالہ خیرینہ، چھ سالہ سبرینہ، ایک سالہ عدیلہ، آٹھ سالہ زبیر، سات سالہ سمیر، چھ سالہ شہداد، چار سالہ شہرام، دو سالہ شانتل اور مزید ایک دو سالہ بچہ شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بہرام، بیام، پنڈوک، سردو، میاں، شمبو اور مراد بخش کے گھروں کو فورسز نے جلادیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے شہر تربت کا رہائشی نوجوان ساجد سراج تربت سے سفر کے دوران لاپتہ ہوگیا۔
ساجد سراج جامشورو یونیورسٹی سندھ میں سی ای اے ڈیمارٹمنٹ کا طالب علم ہے، چھٹیوں کے باعث اپنے آبائی شہر آیا تھا۔ ساجد سراج اس وقت لاپتہ ہوئے جب وہ 18 اگست کو تربت شہر سے کڑکی تجابان سفر کررہے تھے۔


21 اگست
۔۔۔ آصف عرف فدا ولد لال جان اور گلاب عرف وحید ولد پھلان نے گچک سلاری کے مقام پرفورسز نے شہید کیا۔


22 اگست
۔۔۔ پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے مند کے مختلف علاقوں کُلین،مند بازار، سورو، بلو، گوبرد،گوک، تلامب بلوچ آباد،مہر، سمیت مند کے تمام علاقوں میں پمفلٹ پھینکے۔
پمفلٹ بلوچی زبان میں ہے جس میں پاکستانی فوج نے لکھا ہے کہ وطن کی حفاظت اور خوشحالی تم سب پر فرض ہے،جس میں لوگوں کو تنبیہ بھی کیاگیا ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کریں اور بلوچ سرمچاروں کے ٹھکانوں اور انکی نقل و حرکت کرنے والوں انعام دیا جائے گا۔
۔۔۔پاکستانی فوج کی آپریشن: پانی کے چشموں میں زہر ملانے سے سینکڑوں جاندار مر چکے ہیں۔
گچک،مشکے،واشک تمام پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج نے پانی کے چشموں میں زہر ملا دیا،سینکڑوں مال مویشی و جانور مر چکے ہیں۔
تمام پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج نے زہر ملا دیا ہے، گچک،مشکے،کیل کور،پانی کے قدرتی چشموں میں فوج نے زہر ملا دیا ہے،تمام مال مویشی پانی پینے کے بعد مر رہے ہیں۔
مقبوضہ بلوچستان کے چار اضلاع،ضلع کیچ،ضلع آواران،ضلع پنجگور،ضلع واشک کے پہاڑی علاقے جو ایک دوسرے سے ملتے ہیں میں دوران آپریشن ریاستی فوج نے تمام قدرتی پانی کے چشموں میں زہر ملا دیا ہے،جس سے اب تک مال مویشیوں سمیت سینکڑوں سانپ و دیگر جاندار مر چکے ہیں۔
گچک،وادی مشکے،کیل کور،راغے، کے تمام پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج نے قدرتی پانی کے چشموں میں زہر ملا دیا ہے،جس سے نہ صرف سینکڑوں کی تعداد میں مال مویشی مر چکے ہیں،بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں دیگر جاندار سانپ و پرندے بھی مرے ہوئے حالت میں پھائے گئے ہیں۔
۔۔۔مستونگ میں حیات بلوچ کے قتل کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مستونگ میں برمش کمیٹی کے زیراہتمام تربت میں فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے بلوچ نوجوان حیات بلوچ کے قتل کے خلاف سراوان پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔


23 اگست
۔۔۔۔حیات بلوچ قتل: نصیر آباد کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں مظاہرے کیے گئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نصیرآباد ڈویڑن کے زیر اہتمام حیات بلوچ کے قتل کیخلاف نصیر آباد ڈویڑن کے چھ چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں احتجاجی مظاہرے کیئے گئے اور ان کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔
جھٹ پٹ سے تعلق رکھنے والے کارکنان پریس کلب جھٹ پٹ پر جمع ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نصیر آباد ڈویڑن کے کارکنان نے ڈیرہ مراد (ٹیمپل ڈیرہ) میں چھ بجے بلدیہ گراؤنڈ میں جمع ہوکر پیس واک کرتے ہوئے اللہ والا چوک نزدیک پریس کلب میں شعمیں روشن کیں۔
اْدھر منجھو شوری میں نوجوانوں نے بازار میں پیس واک کے بعد حیات بلوچ کی یاد میں شمعیں جلائیں۔
اسی طرح اوستہ محمد شہر میں بھی پرامن ریلی نکالی گئی اور یو بی ایل چوک پر حیات بلوچ کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ جس میں سیاسی و سماجی، سول سوسائٹی اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔


24 اگست
۔۔۔گچک میں فوجی آپریشن جاری، کیمیکل ملا پانی پینے سے 400مال مویشیاں ہلاک ہوگئے۔
گچک میں جاری فوجی آپریشن میں کیمیکل ملا پانی پینے اورگھاس پوس کھانے کی وجہ سے 400سے زائد مال مویشیاں ہلاک ہوگئیں۔جن میں بیڑ بکریاں اور اونٹ بھی شامل ہیں۔
زمینی و فضائی فورسز کی یلغار اور شیلنگ سے کئی بستیاں جلا کر خاکسترکردی گئیں۔ اور کئی افراد کو فورسز نے جبری طور پرگرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے جن میں خواتین اور بچون کی بڑی تعداد شامل ہے۔
۔۔۔شاہرگ:پاکستانی فورسز ہاتھوں 4 افراد لاپتہ ہو گئے۔
شاہرگ میں لونی تنک کے مقام پر پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپے کے دوران چار بھائیوں کو حراست میں لیا جن میں بازو ولد سالو مری، لانگوو ولد سالو مری، رضو ولد سالو مری اور نیازمحمد ولد سالو مری شامل ہیں۔
۔۔۔گچک آپریشن میں تیس افراد لاپتہ،جھاؤ آپریشن جاری،متعدد لوگ لاپتہ کیے گئے۔
گچک کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج کی آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے،جبکہ ضلع اواران کے علاقے جھاؤمیں بھی آپریشن ک پاکستانی فوج کا زمینی وفضائی آپریشن جاری ہے،مزید تیس افراد کو پاکستانی فوج نے حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے،فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد میں سے کچھ کی شناخت،حبیب،کہور،میر جان،نواب،کریم بخش،روستم،آصف،دلدار،خالد،مزار،محمد صالح، کے ناموں سے ہوئے۔
۔۔۔جھاؤ اور اورناچ کے پہاڑی سلسلے سورگر ایک بار پھر شدید فوجی آپریشن کی زد میں ہے،زمینی فوج گزشتہ روز ان علاقوں میں داخل ہوا۔
آپریشن کا یہ سلسلہ جمعہ سے شروع ہوا تھا جس میں مختلف اطراف سے فوجی دستے سورگر میں داخل ہوئے تھے جبکہ متعدد گن شپ ہیلی کاپٹراس آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں،ہیلی کاپٹروں سے پہاڑوں کے چوٹیوں، گزرگاہوں اورٹارگٹ ایریاز میں کمانڈواتارنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹر چمنگی،راہین،گری،گزی راہین سمیت مختلف علاقوں میں مسلسل شیلنگ کررہے ہیں۔
مجید ولد محمد، صدیق چنال، دارو، رحیم بخش ولد دولت کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فوجی کیمپ منتقل کیاہے۔
ادھر جھاؤ کے علاقے کوہڑو سے پاکستانی فوج نے استاد حامد ولد جوگی کسو نامی ٹرک ڈرائیور کو حراست میں لے کر نامعلوم منتقل کردیا ہے جو کراچی سے پرچون لے کرجھاؤ لارہا تھا۔


25 اگست
۔۔۔بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے پاکستانی فوج نے ایک شخص کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
کیچ کے علاقے آسیاآباد کے باشندے ماسٹر داد دوست ولد کریم بخش کو پاکستانی فوج نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی بلوچ کالونی سے گزشتہ شام حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔واشک کے سب تحصیل شاہوگیڑی میں نامعلوم افراد کی فائزنگ سے بسیمہ کا رہائشی ایک شخص ہلاک ہوگیا۔
ذرائع کے مطابق شاہوگیڑی کے علاقہ جھالاوار میں علی الصبح نامعلوم مسلح افراد کی فائزنگ سے بسیمہ کا رہائشی محمد رفیق ولد در محمد ہلاک ہوگیا۔
تاہم واقعات کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔۔
۔۔۔ضلع گوادر میں پاکستانی فوج کی گاڑی نے نیاآباد کراس پر ایک موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا،ا اور گاڑی میں سوارفوجی اہلکار جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے۔
عینی شاہدین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر کچل دیا گیا ہو۔
گوادر سمیت بلوچستان کے شہری علاقوں میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں کہ بدحواس پاکستانی فورسز شہریوں کو کچلنے کے بعد جائے وقوع سے فرار ہوجاتے ہیں۔


27 اگست
۔۔۔تربت میں فورسزکے رویے کیخلاف عوام کا احتجاجی مظاہرہ ودھرنا۔
ایران سے تیل وڈیزل کے کاروبار سے وابستہ مکران کے گاڈی مالکان وڈرائیور حضرات ورشتہ داروں کی جانب سے تربت میں شہید فدا چوک پر صبح سے دھرنا جاری ہے۔
دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھاکہ ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہاہے۔
باڈروں پر دس دس دن ہمیں روکا جاتاہے، جہاں ہم سے جبری مشقت کاکام بھی لیاجاتاہے جوکہ ہمارے لیے روزگارکے موقع کو بندش لگانے کے مترادف ہے۔
۔۔۔مند میں حیات بلوچ کے قتل کیخلاف احتجاج، انصاف کا مطالبہ۔
طالب علم حیات بلوچ کے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں قتل کیخلاف بلوچستان بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز مند میں بلوچ یکجہتی کمیٹی مند کی جانب سے اس سلسلے میں احتجاج کیا گیا اور حیات بلوچ کے یاد میں شمعیں روشن کی گئی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہائی اسکول بلو میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں شریک طلباء اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر حیات بلوچ کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو سزا دینے کا مطالبہ درج تھا۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے مند کے مختلف علاقوں میں گذشتہ کئی روز سے بڑے پیمانے پر پاکستانی فوج کی جانب سے فوجی آپریشن جارہی ہے۔
گذشتہ دنوں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا جس کو مزید وسعت دی جارہی ہے۔ آج مزن بند کے پہاڑی علاقوں میں فوجی آپریشن کی جارہی ہے جہاں گن شپ ہیلی کاپٹروں کو مختلف جگہوں پر شیلنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔


28 اگست
۔۔۔گچک سے بلوچی زبان کے شاعرو گلوکار فورسز ہاتھوں لاپتہ،جس کی شناخت امیر بخش بلوچ کے نام سے ہوگئی ہے۔
واضع رہے کہ آواران،پنجگوراورکیچ کے اضلاع میں گذشتہ دو ہفتوں سے بڑے پیمانے زمینی وفضائی آپریشنز جاری ہیں جہاں درجنوں آبادیوں کو نذر آتش کرکے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے جبکہ مکین بے یارو مددگار در در کی ٹوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔


29 اگست
۔۔۔ ایرانی فورسز کی سے فائرنگ سے بلوچ نوجوان جانبحق۔
مغربی بلوچستان میں راہ چلتے گاڑی پر ایرانی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص جانبحق ہوگیا۔جس کی شناخت یاسین ہونکزئی ولد محتاج کے نام سے ہوئی ہے۔


30 اگست
۔۔ ساتھی سکینڈ لیفٹینٹ ظہور احمد عرف اسحاق بلوچ ولد سبزل بلوچ سکنہ گواش آواران 27، اگست 2020 کواہم مشن سے واپسی دوران موسلادھار بارشوں کے سبب مشکے ندی کو کراس کرتے ہوئے سیلابی ریلہ میں بہہ گئے۔جس کی وجہ سے انکی شہادت واقع ہوئی۔


31 اگست
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقوں دشت اور تمپ کے درمیان مزن بند کے پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج کی جارحانہ کارروائیاں جاری رہیں۔
پاکستانی فوج نے بڑی تعداد میں داز (مزری) اور کھجور کے درختوں کو جلا کر چرواہوں کے چراگاہوں کو تباہ کیا ہے۔ زمینی فوج کے ساتھ جنگی ہیلی کاپٹرز بھی اس آپریشن کا حصہ ہیں۔پاکستانی فوج نے نئی کیمپ اور جگہ جگہ چوکیاں قائم کی ہیں۔ علاقے کے داخلی اور خارجی راستوں کو مکمل طور پر بند کردئیے گئے ہیں۔
پاکستانی فوج اس وقت کترینز، نیمگو، تلی دار،موکندار اور زیارت ندی کے دہانوں پر مورچے اور کیمپ لگاکر بیٹھی ہے۔فوجی جارحیت کی شدت کو دیکھتے ہوئے بڑی تعداد میں مالی اور جانی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment