امارات اسرائیل معاہدہ،امریکی بگ ڈیل اور ممکنہ اثرات – میراث زروانی

0
389

کیا ہمارا کرہ ارض کبھی امن واستحکام اور خوشحالی کا دور مستقبل میں دیکھ پائے گا؟یہ سوال جو ا پنے اندر گہرے وسوسوں، خدشات اور تشویش کو سموئے ہوئے ہے موجودہ عالمی سطح پر پائی جانے والی شدید بدامنی، جنگی تصادموں، بد ترین اقتصادی زوال پذیری اور مختلف طاقتوں کے مابین بڑھتے ہوئے ناقابل مصالحت مفاداتی تضادات کے پر انتشارمنظرنامے کے باعث آج بنیادی حیثیت اختیار کر گیا ہے،البتہ یہ سوال ایک ایسی مایوسی اور بے بسی کی عمومی کیفیت کابھی مظہر قرار دیا جاسکتا ہے جو بحران سے نکلنے کی تمام سامراجی وسرمایہ دارانہ اصول و نظریات اور فارمولوں کے تحت اختیار کردہ حکمت عملیوں، پالیسیوں اور تراکیب کی بری طرح ناکامیوں کے باعث روزبروز گہری ہورہی ہے، یہ اسی مایوسی اور بے بسی کا نتیجہ ہی ہیکہ مختلف علاقائی وعالمی طاقتیں نہ صرف اپنے سرمایہ دارانہ و سامراجی مفادات کے حصول بلکہ حاصل شدہ مفادات وغلبے کے چھن جانے کے خوف کے باعث شدید جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہیں، یہ جھنجھلاہٹ لاگو کردہ پالیسیوں کی پے درپے ناکامیوں کے بعد ان طاقتوں کے غصے اور اشتعال کو بڑھا رہی ہے، جس سے ا ن سامراجی طاقتوں کے رویوں میں جارحانہ پن غالب آچکاہے، جس کا عکس مختلف حریف طاقتوں کے مابین معاملات کے حل کیلئے سفارتی کو ششوں کی ناکامی اور تلخ جملوں کے تبادلوں میں بڑانمایاں نظر آتا ہے۔


اس تمام تر کشیدہ صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہیکہ سفارتی میدان کی ویرانی کے باعث اب تمام توجہ جنگی میدان سجانے یا آباد کرنے پر دکھائی دیتی ہے، جس کا آغاز اگرچہ کافی عرصہ پہلے ہو چکا ہے لیکن اب صف بندی اور عزم وارادے زیادہ کھل کر سامنے آرہے ہیں،مختلف علاقائی و عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدوں اور اتحادوں کی تشکیل جس تیزی سے عمل میں آرہی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ سامراٍجی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کیلئے مزید انتظار نہیں کر سکتیں، سامراجی طاقتوں کی اس بے صبری و عجلت کو بعض ماہرین و تجزیہ کار بلاسبب تصور نہیں کرتے، ان حلقوں کے مطابق دراصل بین الاقوامی سطح پر اجارہ دارانہ سر مایہ داری کے نا قابل حل بحران اور کو رونا کی عالمی وبا کی وجہ سے اس اقتصادی بحران کے مزید تباہ کن شکل اختیار کرنے کے باعث تمام چھوٹی بڑی سرمایہ دارانہ معیشتوں کی حامل ریاستیں اپنے وجود کو لاحق جان لیوا خطرات سے دو چار ہو چکی ہیں، اور اس تباہ کن اقتصادی بحران کا سب سے زیادہ نشانہ امریکہ اور یورپ نظر آتا ہے، جو سرمایہ دارانہ سامراجی معیشت کا سب سے بڑا مرکز قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہیکہ امریکہ سب سے زیادہ غصے اور بے بسی سے تلملایا ہوا ہے،اور صدر ٹرمپ ہر روز چین سمیت اپنے حریفوں سے الجھ رہے ہیں، کہا جاتا ہیکہ صدر ٹرمپ کے امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے دعوؤں کے باوجود ان کے دور میں امریکہ پر 4 ہزار ارب ڈالرکا قرضہ مزید بڑھ گیاہے،جبکہ کورونا وبا کے باعث امریکی معیشت انتہائی گہرے زوال کا شکار ہو چکی ہے،بعض رپورٹس کے مطابق امریکی معیشت کو پہنچنے والا نقصان 10 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے، جس میں مزید اضافے کا قوی خدشہ پایا جاتا ہے، دوسری طرف معیشت کی بندش اور کسا دبا زاری کی وجہ سے امریکہ میں بے روز گاری 20 فیصد سے بڑھ چکی ہے، اور اس بار لاکھوں افراد نے بیروز گاری الاؤنس کیلئے حکومت سے رجوع کیا ہے، دوسری طرف جی ڈپی میں شدیدگراوٹ آنے کے بعد امر یکہ کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مفادات اور مقاصد کے حصول اور تحفظ کیلئے درکار وسائل کو پورا کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے، جس سے امریکہ کی دنیا اور اپنے اتحادیوں پر گرفت کمزور پڑگئی ہے، اور دنیا کے متعدد اہم ترین علاقے اور اتحادی امریکی غلبے سے نکل کر چین، روس و دیگر امریکہ مخالف طاقتوں کی جھولی میں گررہے ہیں،یہ صورتحال امریکہ کیلئے کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے، لیکن امریکہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہیکہ وہ آج کسی بڑی اقتصادی وعسکری طاقت کے خلاف تنہا جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اگرچہ ماضی میں بھی امریکہ اپنے عروج کے دوران کبھی تنہا نہیں لڑا مگر اب جدید ترین فوجی صلاحیت کے باوجود شدید اقتصادی زوال کے باعث امریکہ کا چین وروس کیخلاف خود تن تنہا جنگ کیلئے میدان میں اترنا ممکن نہیں رہا ہے، لہذا وہ اپنے دشمن کے نئے اور پر انے دشمنوں کو اپنی زیرقیادت متحد کر رہا ہے، خاص طور پر چین کی طرف سے ایران کے ساتھ حالیہ25 سالہ اسٹریٹیجک واقتصادی تعاون کے معاہدے کے بعد خطے میں امریکی تو جہ اور سر گرمیاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔


اس ضمن میں امریکہ کی پہلی کو شش یہ نظر آتی ہیکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات وا ختلافات کا خاتمہ کر ا تے ہوئے ان کے مابین امن اور باہمی تعاون کے معاہدے کرائے جائیں، تاکہ ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہ آئے اور مشترکہ دشمن کیخلاف باہم مربوط اور بااعتماد ہو کر لڑنے میں آسانی ہو جس کا ایک مظہر متحد عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والا حالیہ معاہدہ قرار دیا جارہا ہے، اس معاہدے کے پس پر دہ محرکات کے بارے میں امریکی کر دار اور دباؤ کو کلیدی عنصر تصور کیا جارہا ہے، جبکہ اسے بعض لوگ چین ایران معاہدے کے ردعمل کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہا ہیکہ عرب امارات اس معاہدے کے ذریعے ان جدید امریکی ہتھیاروں کو حاصل کرنا چاہتا ہے جس کی امریکہ نے خطے کے ایسے ممالک کو فروخت بند کر رکھی ہے جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات اور باہمی امن وتعاون کے معاہدوں کے حامل نہیں ہیں، اور یواے ای چونکہ خطے میں ایران کیخلاف یمن اور دیگر علاقوں میں جنگ میں مصروف ہے اور ایران جیسی خطے کی بڑی فوجی طاقت سے مقابلے کیلئے اسے زیادہ جدید اور موثر ہتھیاروں وفوجی سازو سامان کی شدید ضرورت ہے، جس کیلئے امریکہ سے بہتر اسے کوئی نظر نہیں آتا، کیونکہ چین امارات کے دشمن تصور کئے جانے والے ایران کا اسٹریٹیجک پارٹنر بن گیا ہے،لہذا متحدہ عرب امارات کے پاس امریکہ کی نئی صف بندی میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چوائس باقی نہیں رہی تھی، جبکہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا ایک سبب یو اے ای کی گر تی ہوئی معیشت کو بھی قرار دیا جارہا ہے، بعض مبصرین کے مطابق سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے موجود تباہ کن بحران سے متحد ہ عرب امارات کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی، جس میں کورونا کی وباء کے علاوہ یمن میں گزشتہ پانچ سالوں سے زائد جاری بے نتیجہ جنگ کے معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات بھی شامل ہیں، ایسی صورت میں امریکہ ویورپ کے ساتھ گہری تجارتی واقتصادی شراکت داری کے باعث متحد ہ عرب امارات کے حکمران بحران سے نکلنے کیلئے امریکی و مغربی امداد اور پشت پناہی کی پہلے سے زیادہ ضرورت محسوس کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ممکن ہیکہ متحدہ عرب امارات کو امریکہ اور اسرئیل کی جانب سے اپنے کاروباری بازار میں پہلے سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہو، اس معاہدے کے حوالے سے عرب امارات کا کہنا ہیکہ وہ اپنے مفاد میں فیصلے کرنے میں خود مختارہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاہدے سے یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی ہیکہ اسرائیل مسئلہ فلسطین کو حل کرے گا، جس سے ظاہر ہوتا ہیکہ یوائے ای مسلم دنیا کے اس موقف سے الگ ہو چکا ہے جس میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا عہد کیا گیا ہے،متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کی ایران اور ترکی سمیت متعدداسلامی ممالک کی جانب سے سخت مذمت اور مخالفت کی گئی ہے،اور اسے فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے مقصد سے غداری قرار دیا ہے،جبکہ ایران نے توامارات پر حملے کی دھمکی بھی دی ہے،جس پر یواے ای نے انتہائی سخت ردعمل ظاہر کیاہے۔ بہرحال اسرائیل سے امن معاہدے کے پس پر دہ متحدہ عرب امارات کے جو بھی مفادات و مقاصد کا ر فرما ہوں تا ہم بعض ماہرین و تجزیہ کاراس معاہدے کو امریکہ کے مشرق و سطی کے سیاسی جغرافیائی مستقبل کے حوالے سے تشکیل دیے جانے والے بڑے منصوبے کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں، ان حلقوں کے مطابق صدر ٹرمپ اسرائیل اور فلسطین کیلئے ایک ا یسے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس میں اسرائیل کو تمام عرب اور مسلم ریاستوں سے تسلیم کر واکر اسرائیلی ریاست کو لاحق اس کی سلامتی کے خطرات سے محفوط بنانا ہے،اس حوالے سے ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں جن کے مطابق امریکہ کے اس منصوبے کو صدی کی سب سے بڑی ڈیل کا نام دیا گیا ہے، جس پر عملدر آمد کیلئے ٹرمپ انتظا میہ کی سفارتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، اور اس سلسلے میں امریکی حکام مختلف مسلم ممالک کے دورے کر رہے ہیں، تاکہ انہیں اس ڈیل کا حصہ بنایا جاسکے، رپورٹس میں کہا گیا ہیکہ اس ڈیل کیلئے امریکہ50، ارب ڈالر مختص کر ے گا، اس ڈیل کے تحت فلسطینی مہاجرین کی اردن، مصر اور لبنان میں مستقل آباد کاری کی جائے گی، مصرمیں ان مہاجرین کی آبادکاری کیلئے صحرائے سینا کا انتخاب کیا گیا ہے، جبکہ ان مہاجرین سمیت فلسطینی علاقوں سے نقل مکانی یا ہجرت کرنے والے فلسطنیوں کو واپس اپنے آبائی وطن فلسطین آکر آباد ہونے کی اجازت نہیں ہو گی، اور دوسری طرف اسرائیل کے زیر تسلط بیت المقدس کے مقام سے کچھ دور ایک علاقے کو فلسطین میں شامل کرتے ہوئے اسے فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے گا اور پورا یوروشلم یا بیت المقدس کا شہر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا جائے گا، اور وہ فلسطینی علاقے جہاں یہودی آباد کاری کی جاچکی ہے وہ اسرائیل کے حوالے کر دئے جائیں گے، اس کے علاوہ غزہ کو ایک بڑے پل کے ذریعے فلسطین کی ریاست سے ملا دیا جائے گا، ان رپورٹس کے مطابق اس ڈیل کیلئے مختص کئے گئے50، ارب ڈالر میں 25، ارب ڈالر فلسطین کو اور باقی 25، ارب ڈالر فلسطینی مہاجرین کو اپنے علاقوں میں آباد کرنے والی ریاستوں میں تقسیم کئے جائیں گے، بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہیکہ فلسطینی مہاجرین کی وطن واپس پر پابندی اور اسے غیر قانونی قرار دینے کے منصوبے کے باعث اسرائیل کی کوشش ہیکہ فلسطینی علاقوں پر حملوں کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے وہاں کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے، تاکہ ایک مختصر آبادی والی جغرافیائی طور پر انتہائی محدود فلسطینی ریاست عمل میں آئے اس حوالے سے صدر ٹرمپ کی یہ خواہش ہیکہ صدی کی سب سے بڑی ڈیل کا منصوبہ آمدہ امریکی صدارتی الیکشن سے قبل عملی شکل اختیار کر لے تاکہ وہ اسے اپنی انتخابی کامیابی کیلئے بھی استعمال کر سکیں، لہذا اس تناظر میں یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا ہیکہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والا معاہدہ خطے میں امریکی و اسرائیلی مفادات کے تا بع لائی جانے والی تبدیلیوں اور منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہے، جس کے مشرق وسطی سمیت پورے مغربی ایشیاء بلکہ اس کے ہمسایہ اور آس پاس کے خطوں پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔


اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہیکہ امریکہ کے نئے منصوبے پر سب سے زیادہ اثر مسلم ریاستوں کے متحدہ بلاک پر پڑے گا،اور اسلامی تعاون تنیظم او آئی سی جو پہلے ہی عرب ایران اختلافات کے باعث داخلی انتشار کا شکار تھی اس معاہدے کے بعد مزید ٹوٹ پھوٹ سے دو چار ہو سکتی ہے، اگر چہ یو اے ای اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب مسلمان ملک نہیں ہے بلکہ اس سے قبل اردن اور مصر اسرائیل کو بہت عرصہ پہلے تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات استوار کر چکے ہیں، مگر متحدہ عرب امارات نے ایک ایسے موقع پر یہ معاہدہ کیا ہے جب خطے میں عرب یا مسلم ریاستیں نہ صرف باہمی ٹکراؤ، کشیدگی اور جنگی تصادموں کا شکار ہیں بلکہ خطے میں امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تحت دونوں بڑی عالمی طاقتوں کی طرف سے خطے کی ریاستوں کو ساتھ ملا کروسیع صف بندیوں کے تشکیل کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔جس کو چین ایران 25 سالہ معاہدہ نے مزید تیز کر دیا ہے، ایسی صورت میں عرب امارات اسرائیل معاہدہ خطے میں امن کا ضامن بننے کی بجائے عدم استحکام اور انتشار کو بڑھانے کا باعث بنتا ہوا نظر آتا ہے۔جس کا پہلا عکس یو اے ای اور ایران کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے،یہی منظرترکی اور امارات کے تعلقات میں بڑھنے والی تلخی میں بھی نظر آتا ہے،جبکہ دیگر اسلامی ممالک کے علا وہ دنیا بھر کی مختلف مذہبی و سیاسی قوتوں کی طرف سے بھی متحدہ عرب امارات کو بڑی تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اور مبصرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے مسلم دنیا میں عرب امارات کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جس کا نتیجہ یو اے ای کے خلاف کسی خاص ردعمل کی صورت میں بھی بر آمد ہو سکتاہے،تاہم سعودی عرب کی جانب سے تاحال ایسا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے جو سعودی حکمرانوں کے اس حوالے سے پائے جانے والے خیالات اور عزائم کو کھل کر واضح کر سکے، البتہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اسرائیل کے ساتھ پائے جانے والے مبینہ خفیہ تعلقات اور ایران کے خلاف مشترکہ محاذ بنانے کی تیاریوں کی اطلاعات کے پیش نظر غالب امکان یہی ہیکہ سعودی عرب حالیہ امارات اسرائیل امن معاہد ہ کی مخالفت نہیں کرے گا، بلکہ یہ بھی ممکن ہے اسے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے سود مند تصور کرتے ہوئے اس کا بھرپور حامی ہو، اور آگے جا کے خود امریکی ڈیل یا منصوبے کا حصہ بن جائے، کیونکہ سعودی عرب نئی صف بندیوں کی تشکیل میں امریکی صف میں شامل ہے، اور وہ ان ممالک سے اقتصادی و اسٹریٹیجک تعاون اور تعلقات بڑھا رہا ہے جو چین کے خلاف تشکیل پانے والے امریکی اتحاد میں شامل ہیں،بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو مبصرین اسی تناظر میں دیکھ ر ہے ہیں، اگرچہ اپنے داخلی معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے سعودی حکمران انڈیا کی بڑی مارکیٹ میں داخلے کو اہم ذریعہ تصور کرتے ہیں،جہاں خطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کے قیام اوردیگرمنصوبوں کے لئے 60،ارب ڈالر سے زائد سعودی سرمایہ کاری کی جائے گی، جبکہ اس کے برعکس سعودی عرب نے پاکستان میں محض 12، ارب ڈالر کی آئل ریفائنری کے لئے سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروائی ہے،لیکن انڈیا سے اقتصادی مفادات کے علاوہ سیاسی طور پر بھی سعودی عرب کشمیر سمیت خطے کے اہم اور متنازعہ معاملات پر بھارت کے ساتھ ہم آہنگی بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے، جس کا سبب دونوں ریاستوں کا امریکی اتحاد اور صف بندی میں شامل ہونا ہے، اور یوں دونوں کی بحیثیت اتحادی قربتوں میں بڑھاوے کے پس پردہ امریکی کردار و حکمت عملی یقینی محرک نظر آتی ہے، اسی لئے یہ واضح امکان ہیکہ سعودی عرب بھی جلد یا بدیر اسرائیل کو تسلیم کر لے گا،جس کا عکس سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کے حالیہ اس بیان میں بڑا نمایاں نظر آتا ہے کہ اگر اسرائیل یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرلے مقبوضہ علاقہ خالی کر دے توسعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا،اگرچہ اس بیان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی گئی ہے لیکن بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی حکمران امریکی دباؤ پر صدر ٹرمپ کو اسرائیل کے ساتھ معاہدات و تعلقات عمل میں لا نے اور اسے تسلیم کرنے پر با قاعدہ آمادگی ظاہر کر چکے ہیں، جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہیکہ سعودی حکمران شرائط سامنے لاکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک فضا اور ماحول تشکیل دینا چا ہتے ہیں تاکہ اچانک اعلان سے کسی غیر متوقع داخلی و خارجی ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ سعودی عرب کو امت مسلمہ میں ایک قائد اور رہنما کا مقام حاصل ہے، لہذا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سعودی فیصلے کا شدید ردعمل آسکتا ہے، لیکن یہ بھی امکان پایا جاتا ہیکہ مخالفت کرنے والوں کے ساتھ مسلم ممالک کی ایک بڑی تعداد ممکنہ سعودی فیصلے کی حمایتی کے طور پر بھی سامنے آئے، کیونکہ عمان اور بحرین کے بارے میں کہا جارہا ہیکہ وہ بھی صدی کی سب سے بڑی امریکی ڈیل کا حصہ بنتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مکمل تیار ہیں،اور اس کاکسی بھی وقت باقاعدہ اعلان کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کئی دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حامی ہیں، جوبدلتے ہوئے وقت کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کر سکتے ہیں، حتی کہ پاکستان میں بھی اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں آواز یں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں، جن میں فلسطینی اور امت مسلمہ کے مفاد کی بجائے پاکستان کے قومی مفاد کے تقاضوں کے مطابق اسرائیل کے بارے میں خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔


اس تمام ترصورتحال سے یہ واضح دکھائی دے رہا ہیکہ آنے والے دنوں میں خطے اور مسلم ممالک میں فیصلہ کن تبدیلیاں رونما ہوں گی، جس میں مذہبی ہم آہنگی کی بجائے مفاداتی ہم آہنگی کلیدی محرک ہوگی، اور امت مسلمہ کے بین الاقوامی اتحاد اور باہمی تعاون کا نعرہ جو پہلے بھی دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں تھا اب قصہ پارینہ بن جائے گا، جس کے آثار پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب کے بارے میں دیئے گئے حالیہ متنازعہ بیان سے زیادہ نمایاں ہوگئے ہیں، موصوف وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر سعودی عرب مسئلہ کشمیر پر پاکستان موقف کا ساتھ نہیں دیتا تو پاکستان کو بھی اپنے قومی مفاد کے مطابق کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرنے والے اسلامی ممالک کا الگ اجلاس بلانا چاہیے، شاہ محمود قریشی نے یہ شکوہ بھی کیا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے کہنے پر کو الا لمپور میں مسلم ممالک کے اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن اس کے برعکس سعودی عرب نے کشمیر کے ایشو پر او آئی سی میں وہ کر دار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا، پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان پر سعودی عرب کی طرف سے شدید برہمی کا اظہار کیا گیا، اور ردعمل کے طور پر سعودی حکومت نے پاکستان کو دئیے گئے 3، ارب ڈالر قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے، جسے پاکستان نے چین سے ادھارلے کر سعودی عرب کو ادا کردیے، جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہیکہ سعودی عرب نے تعلقات معمول پر لانے کیلئے شاہ محمود قریشی کا وزارت خار جہ سے استعفی بھی طلب کیا ہے، اس صورتحال میں پاکستان اور سعودی عرب کا مذہبی، اسٹر یٹیجک اور اقتصادی قریبی رشتوں پر قائم 70 سالہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ سے دو چار ہوتا نظر آتا ہے، اگر چہ پاکستانی آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب اور دیگر سفارتی ذرائع سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں، جس سے تناؤ میں کمی یا خاتمے کا بھی امکان ہے، اور یہ بھی ممکن ہیکہ دونوں کے درمیان کوئی بڑی تلخی یا کشیدگی پیدانہ ہو، اور اقتصادی و دیگر دو طرفہ تعلقات و تعاون جاری رکھے جائیں، لیکن قریشی کے بیان کو بعض تجزیہ کار کسی فر دواحد کا تخیل تسلیم نہیں کرتے، ان حلقوں کے مطابق خطے میں امریکہ اور چین کی زیر قیادت تشکیل پانے والی صف بندیوں میں پاکستان اور سعودی عرب پہلی بار ایک دوسرے کی مخالف یا دشمن صفوں میں شامل ہوئے ہیں، جہاں آنے والے وقت میں دونوں کے قومی مفادات ہم آہنگی کی بجائے باہم ٹکراؤ کے حامل دکھائی دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب حلیف سے حریف کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، اور صرف پاکستان اور سعودی عرب ہی نہیں بلکہ او آئی سی میں شامل دیگر اسلامی ممالک کے مابین بھی تقسیم اور ٹکراؤ کا عمل بڑھے گااور عین ممکن ہیکہ او آئی سی ختم ہوکر مختلف ہم خیال اسلامی ملکوں کے اتحادوں یا بلاکس میں تقسیم ہو جائے۔


اس پر انتشار ممکنہ پیش منظر میں تجزیہ کار مختلف اسلامی ریاستوں میں موجود علاقائی وقومی تنازعات اور ان کے گرد ابھرنے والی تحریکات میں مزید شدت کا امکان ظاہر کررہے ہیں،جس میں بلوچستان کا مسئلہ بھی براہ راست متاثر ہو سکتا ہے، کیونکہ مغربی، وسطی اور جنوبی ایشیاء کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث مشرق وسطی اور اس کے آس پاس آنے والی تبدیلیوں سے بلوچستان اور اس کے ساحلی علاقے ناگزیر طور پر متاثر ہوں گے،لہذا ایسی صورت میں بلوچستان کا تنازعہ علاقائی و عالمی سیاست میں ایک بار پھر تو جہ حاصل کرتے ہوئے زیر بحث آسکتا ہے، جس سے نئے چیلنجر اور امکانات سامنے آئیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here