بی ایل اے کا آغاز نئی امیدوں کے ساتھ اُس وقت ہوا جب نواب خیربخش مری افغانستان کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ "حق توار سرکل” کے نام سے ایک فکری نشست رکھی گئی، جہاں لوگ نواب خیربخش سے سیاسی سوالات اور ماضی کے تجربات کے بارے میں گفتگو کرتے اور سیکھتے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سے کچھ دوستوں نے ایک بار پھر بلوچ قومی سوال اور آزادی کے لیے سائنسی انداز، مشترکہ قیادت اور منظم سوچ کے تحت ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھی، جو بلوچ قوم کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو منظم انداز میں شروع کر سکے۔
جب بی ایل اے کے آغاز کی بات آتی ہے تو اکثر سننے میں آتا ہے کہ تمام ذمہ داریاں حیربیار مری اور اُن کے ساتھیوں کے کندھوں پر تھیں، جنہوں نے جنگی وسائل اور افرادی قوت کو منظم کیا، آپسی اور قبائلی جھگڑے ختم کیے، سب کو متحد کیا اور یوں بی ایل اے کی بنیاد رکھی۔ بعد میں سفارتکاری کے لیے حیربیار مری بیرونِ ملک چلے گئے اور تنظیمی ذمہ داریاں بالاچ مری اور امیر بخش سگار جیسے دوستوں نے منظم انداز میں سنبھالیں۔ کارروائیاں بھی دشمن کے خلاف جاری رہیں۔
بی ایل اے کا ایک رہنما بھی تھا اور اس کے پاس وسائل، افرادی قوت، فنانس اور میڈیا سمیت تمام تحریکی لوازمات موجود تھے۔ بلوچ نوجوان جوق در جوق اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ کوہ سلیمان سے لے کر مکران تک بی ایل اے نے اپنی موجودگی اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
لیکن پھر آپسی اختلافات اور حیربیار مری کی لندن میں گرفتاری کے دوران بی ایل اے ایک بحران کا شکار ہوگئی۔ مہران مری اور حیربیار مری کے اختلافات نے تحریک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ نواب خیربخش مری کی موجودگی میں ہی بی ایل اے دو حصوں میں بٹ گئی اور یو بی اے (UBA) کا قیام عمل میں آیا اور جنگی وسائل بھی مہران مری اپنے ساتھ لے گئے۔
2013 کے بعد بی ایل اے نے ایک بار پھر سر اُٹھایا اور خود کو منظم کیا مگر دوسری بار 2017 میں تنظیمی بحران اور آپسی اختلافات نے دوبارہ جنم لیا۔ اس بار یہ اختلافات استاد اسلم کی صورت میں سامنے آئے۔ جب استاد اسلم کو ہندوستان جانے پر تنظیم سے معطل کیا گیا تو اُن کے ساتھ بشیر زیب جو بی ایس او کے سابق چیئرمین تھے ۔ دونوں نے اپنا الگ دھڑا بی ایل اے جیئند کے نام سے تشکیل دیا جو آج بھی منظم انداز میں قائم ہے۔
انہوں نے جنگی حکمتِ عملی، میڈیا پروپیگنڈہ اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی توجہ حاصل کر کے ایک بار پھر دنیا کی نظریں بلوچ تحریک کی جانب موڑ دیں۔ جبکہ دوسری جانب بی ایل اے (آزاد) جو خود کو ڈسپلن کا دعویدار کہتی رہی وہ اب اندر سے غیر منظم اور غیر ڈسپلن ہو چکی ہے۔
روز بروز کرپشن میں اضافہ ہوا، جنگجو ڈرون حملوں کا نشانہ بننے لگے اور کئی سنگت شہید ہوئے۔ ان حملوں کی ایک بڑی وجہ عبید عرف دیدگ جیسے افراد کو ذمہ داریاں دینا تھا جو دراصل ایک چور اور کرپٹ شخص تھا۔ اُس کے بعد میڈیا زوال کا شکار ہوا، پرانے دوست بی ایل اے (آزاد) کی قیادت چھوڑ گئے اور سوال کرنے والوں کو نظرانداز کیا جانے لگا۔
جب جنگی وسائل کی کمی کا بہانہ بنایا گیا تو کارکنوں کو مغربی بلوچستان جانے کو کہا گیا جہاں وہ ایرانی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور تاحال لاپتہ ہیں۔ تنظیمی ذمہ داریاں اُن ناتجربہ کار افراد کے حوالے کر دی گئیں جو نہ سوال کرنا جانتے ہیں، نہ ہی یہ سمجھ رکھتے ہیں کہ کون سا سوال کس ذمہ دار سے کیا جائے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ لوگ مسلسل دوسروں کو معطل ٹولہ کہتے رہے مگر خود کون سی ذمہ داری اٹھائی؟ جنگی وسائل کہاں ہیں؟ تنظیمی اسٹریکچر کہاں ہے؟ نئی جنگی حکمتِ عملی کہاں ہے؟ جب استاد اسلم کو معطل کرتے وقت کہا گیا کہ بی ایل اے نئی جنگی ڈاکٹرائن لے کر آئے گا — وہ کہاں ہے؟ جب عبید عرف دیدگ نے کرپشن کرتے ہوئے آپ لوگوں سے ہزاروں ڈالر بٹورے تو آپ ایک پیج چلانے پر خوش ہوئے تو کیا کسی نے سوال کیا؟ اچھے جنگجو کرپشن زدہ ذہنیت کے شکار کیوں ہوئے؟ نظریاتی دوست خاموش کیوں ہیں یا دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوئے؟ کیا یہی تھی وہ تحریک جس کا خواب شہیدوں نے دیکھا تھا؟ کیا یہی تھا وہ مقصد جس کے لیے بلوچ نوجوانوں نے جانیں قربان کیں؟
کیا یہی وہ بی ایل اے ہے جو کبھی کوہ سلیمان سے مکران تک بلوچ عوام کے دلوں کی دھڑکن تھی؟ آج تنظیم کا نظریاتی چہرہ زوال کا شکار ہے، جنگجو کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، میڈیا غیر فعال ہے اور قیادت محض لفاظی ذہنیت میں زندہ ہے۔ بی ایل اے کے وہ پرانے سنگت جنہوں نے برسوں جدوجہد کی آج یا تو خاموش ہیں یا دشمن کے عقوبت خانوں میں ہیں۔ لہذا سوال یہ نہیں کہ بی ایل اے کہاں کھڑی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی کوئی اسے سنبھالنے والا باقی ہے؟ یا اب بھی رہنما خواب خرگوش میں ہیں۔
نوٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ادارے کا ان سے اتفاق کرناضروری نہیں ہے۔
٭٭٭