پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور ہائیکورٹ نے ایسے افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے بے دخلی کے عمل کو روکنے کا حکم دے دیا ہے جنھوں نے پاکستانی شہریوں سے شادی کی ہے اور ان کے بچے ہیں۔
جسٹس وقار احمد اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتنل بینچ نے آج متعدد افغان شہریوں کو پاکستان سے بے دخلی کو روک دیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ میں اس وقت درجنوں ایسی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں افغان باشندوں نے پاکستانی خواتین سے شادی کی ہے اور ان سے ان کے بچے ہیں۔ ان میں بیشتر درخواستیں ان خواتین نے دی ہیں جنھوں نے افغان مردوں سے شادی کی ہے اور ان کے بچے بھی ہیں۔
ان افغان باشندوں نے ہائیکورٹ میں پاکستان اوریجن کارڈ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو اپنے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ان افغان باشندوں میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے علاوہ ایسے افغان شامل ہیں جن کے پاس پی او آر کارڈ پروف آف رجسٹریشن کارڈ اور اے سی سی افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔
پاکستانی خاتون حسنہ نے اپنے شوہر مسعود کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ کی درخواست پشاور ہائیکورٹ میں جمع کرائی تھی۔ حسنہ اور مسعود کے دو بچے ہیں۔ سیف اللہ محب کاکاخیل ایڈووکیٹ اور نعمان محب کاکاخیل ایڈووکیٹ خاتون حسنہ کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کے افغان شوہر پاکستان اوریجن کارڈ پی او سی حاصل کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔
انھوں نے پاکستان کے آئین کے ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ دونوں کی شادی کے نتیجے میں دو بچے پیدا ہوئے ہیں اور وہ دونوں پاکستانی ہیں۔ اس لیے پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق خاندان کے تقدس کو بحال رکھنے کے لیے یہ حق انھیں ملنا چاہیے۔
وکلا کی جانب سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’درخواست گزار نمبر دو چونکہ پاکستانی شہری کے خاندان کا حصہ ہے اس لیے انھوں پاکستان سے اس وقت تک بے دخل نہ کیا جائے جب تک نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی نادرا حتمی طور پر انھیں پی او سی جاری کرنے کا حتمی فیصلہ جاری نہیں کر دیتا۔‘
اس وقت اگرچے خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کوئی بڑے پیمانے پر بے دخلی کا آپریشن نہیں ہو رہا لیکن بیشتر افغان شہریوں میں خوف ضرور پایا جاتا ہے کہ انھیں کسی بھی وقت اس صوبے سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔