ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری نے جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو اسلام آباد ہائیکورٹ ( آئی ایچ سی ) کی انسداد ہراسانی کمیٹی کی سربراہی سے ہٹانے پر آئی ایچ سی کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور شکایت جمع کرادی۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے ایمان مزاری کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف دائر شکایت پر نوٹس لینے کے بعد گذشتہ روز عدالت کے انتظامی عملے نے اُنہیں ہراسگی کی شکایات سننے کے اختیارات سے محروم کر دیا تھا اور ان کی جگہ جسٹس انعام امین منہاس کو مقرر کر دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے جسٹس ڈوگر نے مزاری کو توہین عدالت کے مقدمے کی وارننگ دی تھی اور ’ انہیں پکڑنے’ جیسے ریمارکس دیے تھے جس پر متعدد وکلا تنظیموں نے مذمتی بیانات جاری کیے تھے اور چیف جسٹس کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد ایمان مزاری نے ایک روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کی کام کی جگہ پر ہراسانی کے انسداد کی کمیٹی میں اور سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
آج ایک پوسٹ میں (ایکس پر) ایمان مزاری نے کہا کہ انہوں نے جسٹس ڈوگر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کل کے ’ تشویشناک واقعے’ کے بعد اپنی ابتدائی شکایت میں ایک اضافہ جمع کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو، شکایت درج کرانے کے چند گھنٹے بعد ہی ’ من مانی اور بدنیتی’ سے مجاز اتھارٹی کے طور پر ہٹا دیا گیا، اور اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
ڈان ڈاٹ کام کے پاس دستیاب اضافی شکایت میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے مختلف شعبہ جات، رجسٹرار آفس، ڈسپیچ برانچ اور ممبر انسپکشن ٹیم ، نے ان کی شکایت کو مجاز اتھارٹی تک پہنچانے سے انکار کر دیا۔
پوسٹ میں کہا گیا کہ ’شکایت پھر براہِ راست مجاز اتھارٹی تک لے جائی گئی … ان کے کورٹ ایسوسی ایٹ نے عدالت میں شکایت کی ایک کاپی پر دستخط شدہ رسید فراہم کرکے اس کی وصولی کی تصدیق کی۔ کل کے واقعات نے 2010 کے ایکٹ کے تحت شکایات کے اندراج کے عمل میں مکمل شفافیت کی کمی کو ظاہر کیا۔ مزید یہ کہ اس نے عدالتوں میں رائج اس انتظامی رویے کو اجاگر کیا، جو بڑی حد تک مردوں پر مشتمل ہے، کہ وہ کسی خاتون کی ہراسگی کی شکایت کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ آخرکار واحد خاتون جج (جو مجاز اتھارٹی تھیں) کو اپنے عملے کے ذریعے شکایت وصول کرنی پڑی، کیونکہ آئی ایچ سی کے تمام متعلقہ مرد افسران نے میری شکایت وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘
گزشتہ دن کے واقعے کو دہراتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے بعد میں تین رکنی انکوائری ٹیم تشکیل دی، جس کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر نے ’ واضح بدنیتی اور مفادات کے ٹکراؤ’ میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو ہٹا کر ان کی جگہ جسٹس انعام امین منہاس کو مقرر کر دیا۔
اضافی درخواست میں کہا گیا کہ ’ ہٹانے کے نوٹیفکیشن میں کوئی وجہ نہیں دی گئی۔ حتیٰ کہ اگر چیف جسٹس (جو اس شکایت میں فریق ہیں) کو مجاز اتھارٹی یا انکوائری کمیٹی کے دائرہ اختیار پر کوئی اعتراض تھا تو وہ اپنی شکایت کے جواب میں اعتراض اٹھا سکتے تھے۔ اس کے بجائے چیف جسٹس نے اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انکوائری کمیٹی اور/یا مجاز اتھارٹی کی تشکیل اور ترکیب پر اثر انداز ہو کر واحد خاتون جج کو ہٹا دیا، جنہوں نے میری شکایت وصول کرنے کی ہمت کی۔ مناسب چارہ جوئی اور انصاف حاصل کرنے کی میری کوشش کے چند گھنٹوں بعد ہی ایسا صریح بدنیتی پر مبنی طرزِ عمل تشویشناک ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے تحت طاقت کے ناجائز استعمال کی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔’
ایمان مزاری نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ان کے وہ مقدمات جو پہلے سماعت کے لیے مقرر نہیں تھے، ان کی شکایت کے بعد اچانک جسٹس ڈوگر کے سامنے لگا دیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ان کی جانب سے ایک نمائندہ وکیل پیش ہوا اور زیر التوا ہراسگی کی شکایت کی بنیاد پر کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست کی تو ’ نہ صرف یہ درخواست مسترد کر دی گئی بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے بار بار نمائندہ وکیل کو ہراسگی کے واقعے پر بحث میں کھینچنے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس نے کیس منتقل کرنے کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کر دی کہ اصل وکیل (میں خود) ان کے سامنے پیش نہیں ہوئی تھی، پھر مقدمہ ملتوی کر دیا۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اضافی دستاویزات ہیں جو ’ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بظاہر اثر و رسوخ اور اختیارات کے ناجائز استعمال’ کو ظاہر کرتی ہیں، اور بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعے کے فوراً بعد ان کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن اتھارٹی (این سی سی آئی اے) میں مقدمہ درج کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے جمعہ کو وزارت داخلہ نے ان کے مقدمے میں ایک خصوصی استغاثہ ٹیم نامزد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ مزید کہا کہ کل ان کے خلاف ایک چالان ٹرائل کورٹ میں جمع کرایا گیا اور انہیں اس بارے میں میڈیا رپورٹس اور پھر این سی سی آئی اے کے ایک افسر کی وائس نوٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ انہیں بدھ کے روز اس معاملے میں طلب کیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ ’ اس تحریر کے وقت تک مجھے کسی بھی باضابطہ عدالتی عمل کے ذریعے سمن/نوٹس موصول نہیں ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں لگتا کہ ہراسگی کے واقعے اور شکایت درج کرانے کے فوراً بعد ایک ایسا چالان، جو گزشتہ چار برس (یعنی 2021-2025) سے متعلقہ واقعات پر مشتمل ہے، جلدی سے ٹرائل کورٹ میں دائر کر دیا گیا اور ٹرائل کورٹ (جو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ماتحت عدلیہ کے طور پر کام کرتی ہے) نے فوراً ہی اس کی سماعت مقرر کر دی۔’
ایمان مزاری نے سپریم جوڈیشل کونسل پر زور دیا کہ وہ اضافی شکایت اور دستاویزات کو جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف ان کی پچھلی شکایت کا حصہ سمجھ کر پڑھیں۔ ’ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین سے درخواست کرتی ہوں کہ میری شکایت پر کارروائی کریں اور جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف جلد از جلد کارروائی شروع کریں کیونکہ ایسا کھلا بدنیتی پر مبنی طرز عمل اور زبردستی اختیارات کا بے لگام استعمال میری قانونی مشق اور ان مؤکلین پر اثر انداز ہوتا ہے جن کی میں روزانہ نمائندگی کرتی ہوں۔’
انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو یہ درخواست بھی کی کہ’اس شکایت کی سنگین نوعیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے باعث، میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اس شکایت کے مندرجات کو اس پوسٹ کے موصول ہوتے ہی فوری طور پر ایس جے سی کے معزز اراکین تک پہنچائیں۔’