بلوچستان کے ینگ سکالرز نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ایک طرف تو یونیورسٹی آف بلوچستان کے اساتذہ تنخواہوں کیلئے روڈ پر ہوتے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی یونیورسٹی رینکنگ کو شدید ضربہ لگی ہوئی ہے۔
جبکہ دوسری جانب جی ایس او یونیورسٹی آف بلوچستان کی زمہ دارانہ پوزیشن پر براجمان ڈاکٹر قیصر ایک متنازعہ شخص ہے کیونکہ وہ عرصہ دراز سے یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے بر خلاف ایم فل اور پی ایچ ڈی ٹسٹ مونوفلی کی بنیاد پر ایک ہی استاد کی جمع کی ہوئی سوالات سے بناتے ہیں، خیبر پختونخوا،سندھ، پنجاب کے یونیورسٹیز ٹیسٹ کی نوعیت کو بہتر بنانے کیلئے یونیورسٹی سیچوٹری باڈیز سے اپروول لینے کے بعد ٹیسٹ کنڈکٹ کرکے میرٹ اور تحقیقی سوچ رکھنے والے افراد کو داخلہ دیتے ہیں۔ جبکہ یونیورسٹی آف بلوچستان کے جی ایس او نے ہر حد کراس کی ہے؛ خود فارمیسی میں ڈگری کرکے ہر فن مولا اور ڈکٹیٹر بنے بیٹھے ہیں اور اپنی من مانیوں کو دوام کے کر یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کم ازکم 3 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کی دی ہوئی سوالات کی بینک ان کے پاس جمع ہوتی ہے اور ان سب کی دی ہوئی سوالات کی بنیاد پر ٹسٹ بنتا ہے۔ یہاں ایک ہی شخص کی سوالات بدنیتی اور قواعد کو پامال کرکے اٹھا کر ٹسٹ بنانے کا مطلب ہے صوبے کے ینگ سکالرز پر تحقیق کے راستے بند کرنا ہے جو نہ کہ ایک گھنائونی سازش، بدنیتی اور تعلیم دشمنی ہے بلکہ یہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں ریسرچ اور تحقیق کے رستے بند کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ حالانکہ ایم فل، پی ایچ ڈی کی داخلوں سے یونیورسٹی کی ریوینیو بڑھنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی پروفائل اور رینکنگ میں بہتر سکورنگ ہوسکتی ہے۔
بیان میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے چانسلر گورنر بلوچستان، وزیراعلی بلوچستان، صوبائی وزیر تعلیم اور وائس چانسلر سے اس غیر انسانی عمل اور تعلیم دشمنی کا نوٹس لیتے ہوئے یونیورسٹی آف بلوچستان کو مزید تباہی سے بچانے کی اپیل کی گئی ہے۔