بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ہمارے دھرنا اور احتجاج کا مقصد وزارت اور عہدہ نہیں ہے ہم بلوچ خواتین کی باعزت رہائی چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ ڈپٹی کمشنر اور سیکٹر کمانڈر کے زیرِ اثر آچکی ہے۔
پسنی کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت کرنے والی خواتین اور بچیوں کو محض اس لیے پابند سلاسل کیا گیا کہ انہوں نے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نوجوانوں کو لاپتہ کرنا اور ان کی لاشیں سڑکوں کے کنارے پھینک دینا کوئی نئی بات نہیں رہی، لیکن اب خواتین کو بھی اٹھا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، جس کی اجازت نہ بلوچ سیاست دیتی ہے اور نہ بلوچ معاشرہ۔
سردار مینگل نے کہنا تھا کہ جب سے بلوچستان میں نئی حکومت آئی ہے، شاید انہیں یہ ٹاسک دیا گیا ہے، اور فارم 47 کے تحت کامیابی بھی انہیں انہی شرائط پر ملی ہے کہ وہ بلوچ ننگ و ناموس سے بالاتر ہوکر اقدامات کریں۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت نے جمہوری سیاست کے راستے خود بند کر دیے ہیں، اور بی وائی سی کی خواتین کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لاپتہ افراد کے حق میں آواز بلند کی ہے اور اُنہیں تھری ایم پی او کے تحت قید کیا گیا اور جب یہ معاملہ عدالت پہنچا تو سب نے دیکھا کہ کیا ہوا، عدالت فیصلہ نہ دے سکی۔”
انہوں نے کہا کہ "26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ اب انتظامیہ کے تابع ہوچکی ہے۔”
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بی وائی سی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں لیکن جو لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں وہ پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اُنہوں نے بلوچستان کے لیے کیا کیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم نے نواب اکبر بگٹی کی شہادت پر آواز بلند کی تو یہی کہا گیا ہم اپنی سیاست چمکا رہے ہیں یا جب میں گرفتار ہوا تب بھی یہی کہاگیا، ہر بار مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں اپنی سیاست چمکا رہا ہو،ہم پر یہ الزامات آج کے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ پروپیگنڈے نئے ہیں،نیب سے بی این ایم پھر بی این ایم سے بی این پی تک ایک تسلسل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی کے کارکنان نہیں بلکہ اس وقت بی وائی سی کی خواتین اور بچیاں زیرعتاب ہیں اور میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں، اپنی بچیوں کے لیے کر رہا ہوں میں نے حکومت سے کوئی وزارت یا عہدہ نہیں مانگا، ہمارا مطالبہ صرف بلوچ خواتین کی باعزت رہائی ہے۔”