بلوچستان میں فدائی سوچ میں اضافہ

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read


اداریہ ۔ ماہنامہ سنگر


عام طور پر انسانی حقوق کی پاسداری کے مسئلے پر دنیا کی تمام حکومتیں اس امر کی دعویدار نظر آتی ہیں کہ ان کے آئین و قوانین میں وہاں کے عوام یا شہر یوں کے مکمل بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے، تاہم دوسری طرف وہ ان آئینی و قانونی ضابطوں کی تشکیل بھی کرتی ہیں جن سے عوام کے اہم ترین اور بنیادی جمہوری،سیاسی و معاشی حقوق کی فراہمی ممکن نہیں ہو پاتی،اور انسانی حقوق کے گرد ایسے قوانین کے ذریعے آہنی حصار قائم کردیا جاتا ہے،جو حکومتی دعوؤں کے دہرے پن کو نمایاں کرتا ہے،بعض ماہرین و معلمین کے مطابق وہ تمام معاشرے جہاں قومی و طبقاتی جبر اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال پر سیاسی و معاشی نظام اور ریاستی ڈھانچوں کا قیام عمل میں آیا وہاں تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود انسان کے بنیادی حقوق کا سوال پوری شدت سے نظر آیا، اور ایسے معاشروں میں انسانی حقوق کا مسئلہ ان انسانی گروہوں یا اقوام و طبقات کے بنیادی حقوق کے سوال میں بدل گیا جنہیں ایک خاص نظام اور قانون کے تحت قومی، نسلی،طبقاتی ودیگر بنیادوں پر جبرو استحصال کا نشانہ بنایا گیا، اس استحصالی طرز عمل سے یہ واضح ہو گیا کہ نو آبادیاتی وسرمایہ دارانہ نظام میں حقوق کی بازیابی کا مسئلہ تمام انسانوں کا نہیں بلکہ محکوم اقوام ومظلوم طبقے اور محنت کش عوام کے باوقار وجود کا مسئلہ ہے،کیونکہ بالادست قوتیں بھی انسانوں کا ایک اقلیتی گروہ ہے، اس طرح حقوق سے محروم قوتوں کی نشاندہی کئے بغیر انسانی حقوق کا پرچار بعض اوقات اصل ایشوز اور محکوم ومظلوم قوتوں کے حقوق کے سوال کو مبہم بناتاہے، اور اسی لئے قومی وطبقاتی جبرواستحصال کو قائم رکھنے والے سیاسی ومعاشی نظام کی محافظ حکمران قوتیں بھی بڑھ چڑھ کر انسانی حقوق کی پاسداری کا پروپیگنڈہ کرتی ہیں،لیکن جب محکوم قوموں اور عوام الناس کے بنیادی معاشی و سیاسی حقوق کا سوال سامنے آتا ہے، تو جن قوانین کو حکمران قوتیں انسانی حقوق کا محافظ قرار دیتی ہیں انہی قوانین کے ذریعے قومی وطبقاتی سوال کو دبانے اور کچلنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اور بنیادی حقوق کی پامالی کے اس حکمران فکرو عمل کو قومی مفاد کا نام دیا جاتا ہے، جو اسے نہیں مانتا وہ غدار اور قابل گردن زدنی قرار پاتا ہے۔ بلوچستان کی موجودہ بحرانی صورتحال بھی یہاں کے باشندوں کے بنیادی سیاسی ومعاشی حقوق کی درست نشاندہی کا تقاضا کر رہی ہے، یہاں کے مسائل کے حوالے سے انسانی حقوق کے مسلے کو اجاگر کیا جاتا ہے، جو بلوچستان کے مسلے کے محض ایک پہلو کو سامنے لاتا ہے، اور اس سے اصل مسئلہ بلوچ قومی سوال درست طور پر ابھر کر سامنے نہیں آتا، لاپتہ افراد، جبری گمشدگیوں،مسخ لاشوں کی برآمدگی اور فورسز کی کارروائیوں میں عام آبادیوں کو پہنچنے والے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان کے مظاہر کو اگرچہ انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا جاتا ہے، مگر اصل میں یہ بنیادی بلوچ قومی سیاسی وجمہوری حقوق کی پامالی کا سطحی اظہار ہے، جسے اس کی اصل شکل میں سامنے لانا ہی بنیادی مسلے کی درست نشاندہی کر سکتا ہے، اس حوالے سے بلوچ سیاسی حلقے بارہا اس امر کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ محض یہاں جاری سیکورٹی اداروں کی پے در پے کارروائیاں اور اس سے جنم لینے والے انسانی المیے نہیں ہیں بلکہ بنیادی سوال بلوچ قومی حق حاکمیت کا ہے، جسے شروع دن سے ہی پامال کیا گیا ہے، اور وقت گز رنے کے ساتھ یہ سلسلہ سکڑنے اور محدود ہونے کی بجائے آج اس قدر پھیلا ہوا نظر آتا ہے کہ اب پورا بلوچستان مزاحمت کی شکل اختیار کر چکی ہے،بلوچ قوم کی اس شعوری جدوجہد کی ایک جھلک عالیہ دنوں میں بلوچ فدائین کے حملوں میں تیزی کے طور پر سامنے آٗئے ہیں۔
بلوچ پرایک ایسی دشمن قابض ہے جو مثبت انسانی اقدار اور روایات سے عاری ہے۔ اس سے توقع رکھنا کہ جنگی حالات میں زندہ قوموں کی طرح وہ جنگی قوانین کا پاس رکھے گی تو یہ خام خیالی ہوگی۔ ایک درندہ سے انسانی،اخلاقی اقداریابین الاقوامی قوانین پرعمل پیرا ہونے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔


آزادی کی جدوجہد میں بلوچ قوم نے ایسے ایسے گوہرنایاب ہستیوں کی شہادتیں پیش کی ہیں کہ اُن پر کچھ بولنے،لکھنے کے لئے زبان اورقلم عاجز نظرآتے ہیں۔الفاظ سے ان کے کردار،ان کی عظمت کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔ان عظیم ہستیوں میں بلوچ فدائین بھی شامل ہیں۔
دنیامیں کئی قومیں ایسی خون ریز سلسلہ ہائے سے گزرکر اپنی قومی آزادی کی حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں اور آج یہ مرحلہ بلوچ قوم کو درپیش ہے۔ تاریخ کے سامنے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے بلوچ قوم دنیاکی معلوم تاریخ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔آج بلوچ قوم کسی پس و پیش کے بغیر قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کررہاہے جوزندہ قوموں کا طرہ امتیاز ہے۔انہی قربانیوں کے طفیل آج بین الاقوامی برادری کے سامنے بلوچ نے کسی حد تک دنیاپرثابت کردیاہے کہ بلوچستان ایک متنازعہ خطہ ہے اوریہ دنیا کے دیگر حل طلب مسائل میں سے ایک بڑا اوراہم معاملہ ہے جسے زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیاجاسکتاہے۔آج ہم دنیاکے ہرکونے میں بلوچ قومی آوازسن رہے ہیں۔دنیاکے ہرملک میں بلوچ قوم کے نام لیوا موجود ہیں۔دنیاکے بہت بڑے ایوانوں میں بلوچ کا مسئلہ زیربحث آرہاہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا اُن عظیم ہستیوں کے سرجاتا ہے جنہوں نے بلوچ قومی آزادی کے لئے اپنی سروں کا نذرانہ پیش کیاہے۔
دنیا کی تاریخ میں ایسے رہنماؤں،معلموں،کامریڈوں کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی موت کو فخر بنایا اور وہ تاریخ میں امر ہونے کے ساتھ نوجوان نسل و کامریڈوں کو نئی زندگی اپنے نظریات،تعلیمات سے دے گئے۔بلوچ سرزمین میں بھی ایسے عظیم سپوتوں کی کمی نہیں۔
بلوچ فدائین نے اپنی قربانیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ انکی شعوری جدوجہدکا منزل صرف آزاد بلوچستان ہے۔

Share This Article
Leave a Comment