پاکستان اور افغانستان کی طورخم سرحد 25 روز بند رہنے کے بعد آج جزوی طور پر بڑی گاڑیوں کے لیے کھول دی گئی ہے۔ یہ سرحد دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولنے کے بعد پاکستان کی طرف سے طورخم سے پہلی گاڑی افغانستان روانہ ہو گئی ہے۔
میڈیا رپور ٹوں کے مطابق مریضوں کو لانے والی گاڑیوں کو بھی آمدورفت کی اجازت مل گئی جبکہ عام لوگوں کوجمعے سے آمدورفت کی اجازت ہوگی۔
دونوں ممالک کے درمیان قبائلی عمائدین، علما اور تاجروں پر مشتمل جرگوں کے بعد آج سرحد پر تعینات بارڈر فورسز کی فلیگ میٹنگ ہوئی۔
اس میٹنگ کے بعد سرحد کھولنے کے لیے انتظامات کیے گئے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ کسٹم کے عملے کو آج صبح سے ہی حاضری کے لیے کہہ دیا گیا تھا جبکہ پیدل جانے والے افراد کے لیے ایف آئی اے کے کنٹینر میں سکینر کی مرمت کا کام شروع کیا گیا۔ اس سکینر کی مرمت کے بعد پیدل افراد کے لیے سرحد کھول دی جائے گی۔
خیال رہے کہ مقامی عمائدین، علما اور چیمبر آف کامرس کے اراکین اور افغانستان کے نمائندہ جرگے نے اس عرصے میں دو مرتبہ باقاعدہ ملاقاتیں کی ہیں اور سرحد کھولنے کے لیے اعتماد سازی کے لیے اقدامات تجویز کیے تھے۔
پاکستانی وفد میں شامل ملک تاج الدین اور شاہ خالد شنواری نے بتایا تھا کہ افغان حکام سے کہا گیا تھا کہ اعتماد سازی کے لیے فائر بندی کی جائے، اس کے علاوہ متنازع مقام پرچیک پوسٹ کی تعمیر کا کام روک دیا جائے اور اس کے بعد سرحد کھول دی جائے۔
اس پر افغان حکام نے کابل میں حکومت سے رابطے اور ان کی رائے حاصل کرنے کے لیے دو مرتبہ وقت مانگا لیکن جرگے کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس کے بعد آج دونوں ممالک کی بارڈر فورسز کی فلیگ میٹنگ میں سرحد کھولنے کے لیے بات چیت ہوئی۔
اس سرحد کی بندش سے مقامی لوگوں اور تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ تاجروں کے مطابق انھیں سامان اور گاڑیوں کی خرابی ڈرائیوروں اور مزدوروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مقامی رہنما ملک تاج الدین کے مطابق اس سرحد سے روزانہ کی بنیاد پر برآمدات کی مد میں 25 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ درآمدات کی مد میں 50 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ اس سرحد اگر کھلی ہو تو یہاں جیسے زندگی رواں دواں ہوتی ہے اور جب سرحد بند ہو جائے تو زندگی رک جاتی ہے۔
اس سرحد سے بڑے تاجروں یا صنعتکاروں کو ہی نہیں عام شہریوں کا کاروبار اور مزدوروں کی روزانہ کی آمدن کا انحصار بھی ہوتا ہے۔
پاکستان افغانستان سرحد پرگذشتہ ماہ کی 22 تاریخ کو اس وقت کشیدگی شروع ہوئی جب افغانستان کی جانب ایک چوکی پر تعمیراتی کام شروع کیا گیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ افغانستان متنازع مقام پر تعمیر کر رہا ہے جس وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور دونوں جانب سے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی گئی تھی۔
ان جھڑپوں میں پاکستان میں تین اہلکار زخمی ہوئے جبکہ افغانستان کی جانب ہلاکتوں کی اطلاع بھی موصول ہوئی ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں 6 چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا تھا جن میں جنگل پوسٹ، کمانڈو پوسٹ، بیراج پوسٹ، خوارہ پوسٹ، شیراز پوسٹ اور خامسری پوسٹ شامل ہیں۔ ان میں ایک پوسٹ پر تنازع ہے جس پر پاکستان کا موقف ہے کہ یہ پوسٹ پاکستان کی حدود میں تعمیر کی جا رہی ہے۔
سرحد پر کشیدگی سے بارڈر پر واقع گاؤں باچا مینہ سے لوگوں نے ہی نقل مکانی کر لی تھی اور ان لوگوں نے اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کے ہاں لنڈی کوتل میں پناہ حاصل کی ہے۔
پاک افغان سرحد پر طورخم کے مقام پر کشیدگی ایسے وقت میں شروع ہو گئی جب خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے وفود بھیجنے کے لیے کوششیں شروع کی گئیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کا مؤقف ہے کہ صوبے میں جاری تشدد کے واقعات پر قابو پانے کے لیے افغانستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات ضروری ہیں۔