بلوچ یکجہتی کمیٹی نے تربت میں جبری گمشدہ اتفاق منظور کے قتل کو ریاست کا گھناؤنا فعل اوربلوچ نسل کشی کی بھیانک مثال قرا دیاہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ اپنے ایک پوسٹ میں بی وائی سی ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) بلوچستان کے علاقے تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے اتفاق منظور کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ یہ حساب کتاب اور گھناؤنا فعل ریاست کی طرف سے بلوچ عوام کے خلاف جاری نسل کشی کی ایک اور بھیانک مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق 12 جنوری 2025 کی رات تربت کے علاقے جوسک میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ اتفاق منظور بم نصب کرنے کی کوشش کے دوران پھٹنے سے جاں بحق ہوگیا۔ تاہم یہ بیانیہ سرد مہری کے قتل کو جواز فراہم کرنے کی ایک من گھڑت کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اتفاق منظور کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے 10 دسمبر 2024 کو گواہوں کے سامنے جبری طور پر غائب کر دیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے عوامی طور پر ان کی رہائی کی اپیل کی تھی، پریس کانفرنسیں اور احتجاجی مظاہرے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لیے کیے تھے۔ جب کہ اس کے بھائیوں کو بالآخر رہا کر دیا گیا، اتفاق غیر قانونی حراست میں رہا یہاں تک کہ وہ حراست میں ہلاک ہو گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ بی وائی سی واضح طور پر پولیس کے جھوٹے اکاؤنٹ کو مسترد کرتا ہے اور ریاست کو اس ماورائے عدالت قتل کا براہ راست ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہ واقعہ ان پرتشدد ہتھکنڈوں کا تسلسل ہے جو انصاف اور حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والی بلوچ آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے بعد انکاؤنٹر اور جعلی الزامات بلوچ عوام میں خوف پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ظلم کے منظم ہتھیار ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے اس بگڑتے ہوئے بحران کا نوٹس لینا چاہیے۔ نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور ریاست کی طرف سے منظور شدہ تشدد کی پالیسی ختم ہونی چاہیے۔