بچوں کو شہید کرنا مردانگی نہیں،افغانستان کا پاکستانی حملوں پر سخت ردعمل

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کی جانب سے پکتیکا صوبے میں کئے گئے فضائی حملوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغان عوام اپنی سرزمین پر ہونے والی خلاف ورزیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

یہ بیان کابل میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے 45 سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک تقریب میں دیا گیا۔

امیر خان متقی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے حوالے سے ایک ذمہ دارانہ اور متوازن پالیسی اپنائے۔

انھوں نے کہاہم پاکستانی حکام کو پیغام دیتے ہیں کہ بچوں کو شہید کرنا کوئی کارنامہ نہیں۔ تم نے عورتوں اور بزرگوں کو نشانہ بنایا، ان کے گھر تباہ کیے۔ یہ عمل جرات یا بہادری کی مثال نہیں بلکہ بزدلی ہے۔

مزید برآں، متقی نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ انگریزوں، سوویت یونین اور نیٹو سے سبق سیکھے، جنھیں افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

افغان وزیر خارجہ نے یاد دلایا کہ دس سال قبل وزیرستان کے لوگ پاکستان کے حملوں سے مجبور ہو کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا بہادری نہیں۔ اگر پاکستان افغانستان کو کمزور سمجھتا ہے، تو اسے تاریخ کے سبق یاد رکھنے چاہئیں۔

افغان وزیر اعظم کے دفتر کے سیاسی نائب، مولوی عبدالکبیر، نے ایک تقریب میں کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان میں کسی مسلح گروہ کو کارروائی کی اجازت نہیں دیتی۔ انھو ںنے جھوٹے الزامات کو تعلقات کی خرابی کا سبب قرار دیا۔

اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پکتیکا میں پاکستانی فضائی حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

یوناما کے بیان میں کہا گیا کہ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستانی فوج کے فضائی حملوں میں معصوم شہریوں کی بڑی تعداد ماری گئی۔

سیاسی تجزیہ کار عبدالصدق حامدزوئی نے طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا یہ حملہ پاکستان کی اسلامی اور سفارتی اصولوں سے بے رخی کو ثابت کرتا ہے۔ ان حملوں میں بے گناہ خواتین اور بچوں کی شہادت ناقابل قبول ہے۔

افغان حکومت نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور کشیدگی کو بڑھانے سے گریز کرے۔

Share This Article