بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکرٹری خارجہ فہیم بلوچ نے انسانی حقوق کے دن کے موقع پر برطانیہ کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔
تقریب کی میزبانی بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے محترم سوجن جوزف ایم پی نے کی۔
اپنے خطاب میں فہیم بلوچ نے بلوچستان و بلوچ عوام کی موجودہ حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس مصائب کی جڑ بلوچستان پہ استعماریت کی قبضہ ہے۔ بلوچ صرف بنیادی حقوق، پانی، نوکری یا سوئی سے نکالی گئی گیس کے لیے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں۔ وہ بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ نہ صرف آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے بلکہ بلوچستان کے عوام کی آواز بننے کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہے جو کہ شدید مصائب کا شکار ہیں۔ بلوچستان معدنی وسائل سے مالامال ہے، پھر بھی مظالم کی زد میں ہے۔ ہزاروں مرد، خواتین اور بچے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں، جن کے خاندانوں کو اذیت میں چھوڑ کر، اپنے پیاروں کے ٹھکانے سے لاعلم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی پچھلے ہفتے مجھے ذاکر مجید کا کیس یاد آیا جسے تقریباً 15 سال قبل جبری اغوا کیا گیا تھا۔ اس کی والدہ نے اپنے بیٹے کی تصویر تھامے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا، یہ میری آخری وصیت ہے”اگر میں مر گئی تو میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اس کی تصویر کو زندہ رکھیں”یہ ایک غمزدہ ماں کا چہرہ ہے۔
فہم بلوچ نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک سینئر رہنما ڈاکٹر دین جان بلوچ کے معاملے پر غور کریں جنہیں 15 سال قبل اغوا کیا گیا تھا۔ ان کی اہلیہ اکثر کہتی ہیں، ‘مجھے نہیں معلوم کہ خود کو شادی شدہ عورت کہوں یا بیوہ۔’ ان کی بیٹی، سمی دین بلوچ، انصاف کے لیے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تین روز قبل ضلع خضدار سے 8 سال قبل اغوا ہونے والے شخص کی باقیات مل گئیں۔ صرف اس کی ہڈیوں کی شناخت ہوئی تھی۔ اس کے والد نے دل شکستہ حالت میں تسلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کم از کم اب ہم سکون سے سو سکتے ہیں، یہ جان کر کہ ہمارے بیٹے کو قتل کر کے دفن کر دیا گیا ہے۔ اس کی ماں ہر رات اس خوف سے نہیں روئے گی کہ اس پر تشدد کیا جا رہا ہے۔
بی این ایم رہنما نے مزید کہا کہ یہ بلوچستان کی ان گنت دردناک کہانیوں میں سے چند ایک ہیں۔ ایسے ہزاروں کیسز موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اغوا کیوں ہو رہے ہیں؟ ذاکر مجید کو اس لیے اغوا کیا گیا کہ اس نے بلوچستان کی آزادی کے لیے بات کی تھی۔ ڈاکٹر دین کو بھی اسی وجہ سے اغوا کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس مصائب کی جڑ بلوچستان پہ استعماریت کی قبضہ ہے۔ بلوچ صرف بنیادی حقوق، پانی، نوکری یا سوئی سے نکالی گئی گیس کے لیے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں۔ وہ بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم مسٹر جوزف جیسے لیڈروں سے بلوچ عوام کی آواز کو بلند کرنے کی توقع رکھتے ہیں، جو اپنی آزادی اور بنیادی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔