پاھار – سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ : چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

0
332



واقعہ ڈنک سے شدید عوامی ردعمل پر
ریاستی ایوانوں میں شگاف
شہید ملک ناز و برمش کوانصاف دلانیکا مطالبہ
ماہِ مئی میں 60فوجی آپریشنز میں 61 افرادلاپتہ،15لاشیں برآمد،

مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں اور جنگی جرائم عروج پر ہیں،روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز،گھروں میں لوٹ مار،لوگوں کا لاپتہ ہونے کے ساتھ زیر حراست قتل عام اور ریاستی مسلح حمایت یافتہ افراد کی سماجی برائیوں نے عام لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔
مئی کے مہینے میں جہاں بلوچ قوم نے چاغی کے ایٹمی دھماکوں پر یوم سیاہ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کیمپن چلا کرپاکستان کی ایٹمی تباہ کاریوں کے اثرات و تابکاری کے حوالے سے دنیا کو آگاہی دی تو دوسری جانب ریاستی حمایت یافتہ مسلح گروہ نے ضلع کیچ کے علاقے ڈنک میں ایک گھر پر حملہ کر کے ایک خاتون کو شہید کیاجبکہ ایک چار سال کی بچی برمش بلوچ کوزخمی کردیاجس کے بعد بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر عوامی احتجاج کا لاوا ابل پڑا جو پورے بلوچستان سے ہوتا ہوا اب دنیا بھرمیں پھیل رہا ہے۔


مذکورہ واقعہ میں ملوث افراد کا تعلق مقامی ریاستی حمایت یافتہ مسلح گرۂ سے تھا جس کی سربرائی کوئی سمیر سبزل نامی شخص کر رہا ہے اور اسکی سربرائی بدنام زمانہ کٹھ پتلی وزیر خزانہ بلوچستان ظہور بلیدئی کر رہے ہیں۔اس واقعے نے لوگوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا کہ پاکستانی وزیر اپنے مسلح افراد جن کو وہ بلوچ جہد آزادی کے خلاف استعمال کر رہا تھا اب انکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کو ڈکیتی،بھتہ وصولی اور دیگر سماجی برائی کے کاموں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔


اس واقعے کے بعد بدنامہ زمانہ ڈیتھ اسکواڈ سربراہ اور ڈرگ ٹریفکر ظہور بلیدئی کے چچا اسلم بلیدئی نے ایک بیان دیا کہ اگر لوگوں کو مسلح افراد پھالنے کا شوق ہے، تو وہ انکی ضروریات خود پورا کریں نہ کہ چادر و چار دیواری کی پامالی کرائیں۔انکے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ ریاستی وزیر کھلے عام ان جرائم میں ملوث ہے۔ رہی سہی کسر اسکے تصاویر نے پوری کر دی ہے جو ان مسلح افراد کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
مئی کے مہینے میں ریاستی جنگی جرائم اپنے عروج پر رہے۔ مقبوضہ بلوچستان کی صورت انسانی حقوق کے حوالے گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے۔ مگر مجال ہے کہ آج تک ہم کسی عالمی ادارے یا انسانی حقوق کے اداروں کی مثبت توجہ کا مرکز بن سکے جسکی وجہ میرے خیال میں موثر حکمت عملیوں کا نہ ہونا یا انکو عملی جامہ نہ پہنانا ہے،آزادی پسند حقیقی رہنماؤں کو اس بارے سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔


ایک جانب عالمی وبا کرونا کی تباہ کاریاں تو دوسری جانب پاکستان کی دہشت گرد پالیسیوں نے اس خطے کو جہنم بنا دیا ہے، جہاں افغانستان و بلوچستان میں انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ اپنی عروج پر ہے،اسی مہینے افغانستان کو پاکستان نواز اسلامی شدت پسندوں نے خون سے نہلا دیا جہاں ہسپتال،جنازوں،بازاروں میں قتل و غارت گری کا ننگا تماشہ آئی ایس آئی کی جانب سے کھیلا گیا۔
افغان الیکشن کے بعد ایک اچھی پیش رفت ہوئی جب اشرف غنی اور عبداللہ کے درمیان معاہدہ طے ہوا اور اب افغان حکومت

نے اپنا حکومتی کام شروع کر دیا ہے۔جس سے افغان امن عمل متوقعہ ہے یقینا افغان عمل پورے خطے کے لیے اہم ہونے کے ساتھ معاشی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے بصورت دیگرپاکستان جیسے ریاست اور اسکے شدت پسندوں کو اس سے باہر کیا جائے۔اس حقیقت کو امریکہ سمیت ہندوستان اور دیگر کو مانتے ہوئے سوچنا چائیے کہ کس طرح وہ پاکستان کو افغانستان سے بے دخل کر کے انکی شدت پسند اداروں کو ہمیشہ کے لیے وہاں سے بے دخل اور ختم کر سکتے ہیں،بصورت دیگر افغان امن صرف ایک خواب ہی رہے گا۔


جب تک عالمی ادارے پاکستان کے خلاف مقبوضہ بلوچستان اور افغانستان میں انکے جنگی جرائم کے خاتمے کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے،پاکستان جیسے ریاست کا راہ راست پر آنا ممکن نہیں ہے۔
عالیہ دنوں میں ایک پاکستانی میجر کی بلوچستان میں ہلاکت کے بعد اسکی کرتوں کا کچھا چھٹاکھل کر سوشل میڈیا پرسامنے آنا،پاکستانی پارلیمانی وزیروں کا انکے جرائم میں شامل ہونا جنگی جرائم کی واضح مثالیں ہیں۔
واقعہ ڈنک کیچ کے بلوچ ماں شہید ملک نازاورننھی برمش کے بہتے لہو نے بلوچستان کو ایک مرتبہ عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔بلوچستان جہاں سیاسی پارٹیاں آزادی اظہار پر ریاستی قدغن کی پالیسی کی وجہ سے مکمل طور پر بے بس اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اپنی آوازپہنچانے کے سفارتی و سیاسی پالیسی مرتب کرنے سے ناکام تھے اب ڈنک واقعہ کے بعدابھرتی ہوئی عوامی احتجاج نے ان کی سیاسی و سفارتی پالیسیز پر سوالات کھڑے کردیئے۔
ڈنک واقع نے آج بلوچستان بھرمیں احتجاجی لہر کو جنم دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ بلوچ سماج ان ریاستی کارندوں سے تنگ آ چکی ہے،اور اب انہیں کسی سیاسی پشت پناہی کی ضرورت نہیں۔قوم کا اس طرح یک مشت ہو کر احتجاج کرنا ایک اچھی پیش رفت ہے اور ایسے سلسلے اندر کی خوف کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ماہ مئی 2020 پر
بی این ایم کی
تفصیلی بیان

مکمل بیان کے لیے درج لنک پر کلک کریں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here