نورا : بلوچ کی اعلیٰ اقدار کا محافظ۔ ۔۔۔۔ قمبر مالک بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

کسی بھی انسان کی مکمل زندگی کو قلم بند کرنا قریباً ناممکن ہے اور جب اُس انسان کی زندگی ہمہ جہتی ہو اور لکھنے والے کا تعارف صرف اس کی ایک مخصوص پہلو سے ہو تب اُس انسان پر لکھنا اور زیادہ پچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تحریر شہید نور احمد عرف نورا و پیرک کی ہمہ جہتی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں ہے جسے میں ایک بلوچ اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے نظرانداز نہیں کر سکتا- یہ تحریر پڑھنے والوں کی خدمت میں اس مقصد سے لا رہا ہوں کہ نورا کی غیر معمولی زندگی سے پڑھنے والے اور میں جدوجہد کی عظمت پہچان لیں اور اس عظمت کو اپنی زندگی کے پیکر میں اتار لیں- خاص طور پر بلوچ طالب علم اور سیاست کی ابتدائی مرحلہ کے قوم دوست تانکہ ان میں بلوچ سماج کے مثبت کرداروں کے بارے میں مزید جاننے اور انکی زندگی اور پیغام سے فائدہ اٹھانے کی خواہش پیدا ہو جو انہیں سماج اور قومی تحریک کا گہرا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں- اور انہیں بلوچ سماج اور قومی تحریک کو فائدہ پہنچانے میں اپنے کردار کے تعین میں مدد ملے-

یہ تحریر وسیع اور جامع ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی لہٰذا شہید نورا کی زندگی کے چند واقعات کے تناظر میں اس تجزیہ کی ردی یا قبولیت پڑھنے والے کی صوابدید پر ہے-

جس ماحول میں نورا نے تربیت پائی تھی اس نے اس کی شخصیت کی جو تشکیل کی تھی وہ ایک کرؤٹ بیٹھنے والا نہیں تھا- اپنی سماجی و ثقافتی اقدار کے حوالے سے حساس نورا نے اپنے دور کے کئی نوجوان طالب علموں کی طرح بی ایس او آزاد کے فورم سے بلوچ کی سماجی اور ثقافتی اقدار میں قابل اعتراض بیرونی مداخلت کی پر زور مخالفت کی- وہ بلوچ اور بلوچستان کے مستقبل کے فیصلوں کو بلوچ کی مرضی کے مطابق تشکیل دینے کے حق میں ہمہ وقت بولتے تھے۔ اس حوالے سے پرامن سیاسی آگاہی پھیلانے کو ہر بلوچ نوجوان کی ذمّہ داری سمجھتے تھے اور اس مہم میں اپنا حصّہ پوری دیانت اور ایمانداری سے دیتے تھے- بی ایس او کے دیگر سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی طرح مذہبی ریاست پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے نورا کو لیکر رعایت نہیں بھرتی- ٹارچر اور دھونس دھمکیوں سے اسکے ضمیر و شعور کو مرعوب کرنے کی کوشش کی تاکہ نورا کو بلوچ قوم پرست بیانئے کے خلاف استعمال کیا جا سکے جس نے نورا کی باقی ماندہ زندگی کے فیصلوں پر گہرے اثرات چھوڑے- تکالیف اور مصائب سے ابھرنے والی قوتوں سے لیس نورا نے ریاستی آلہ کار بننے کی بجائے اپنی اور اپنی قومی حرمت کی تحفظ کا رستہ چُھن لیا۔ جب ان کے لیئے پرامن سیاست ناگوار ہوگیا تب اُنھوں نے بندوق اٹھائی اور آخری سانس تک مخلصی اور مستقل مزاجی کے ساتھ بلوچ و بلوچستان کی حفاظت کرتا رہا-

ایسے کئی بلوچ نوجوان بندوق اٹھائے شہید ہوئے اور کئی آج بھی اپنی قومی شناخت و سرزمین کی تحفظ کے لئے مسلح ہیں البتہ جو نورا کو ایسے کئی جہدکاروں سے منفرد بناتے ہیں وہ اسکی سیاسی تربیت ہے جو اسکی دوسروں کی رائے کو تحمل سے سننا، اپنے کردار کے مثبت و منفی پہلوؤں کو مسلسل جھانچنا اور اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا اعتراف اور خود کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ِ عمل رہنا تھا-

وہ ایسے تمام پالیسیوں اور اقدامات پر فخر نہیں کرتا تھا جس سے بلوچ سماج کو نقصان پہنچے اور وہ ہمہ وقت اصلاح کی تجویز کو سنتا اور اپنے ساتھیوں تک اسے پہنچاتا بھی تھا- پروم کی لڑائی کے دوران شھید ہونے سے پہلے نورا کے آخری الفاظ تحریک کو لیکر اسکے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، اُن کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بلوچ کی باوقار زندگی کے لئیے اپنی زندگی کے تھپیڑوں سے ناراض نہیں تھا۔ وہ جس بہادری کے ساتھ بلوچ قوم، اپنے ساتھیوں اور رہنماؤں سے مخاطب ہوتا ہے یہ انکی مظبوط شخصیت کی عکّاسی کرتی ہے۔ دشمن کے ساتھ دوبدو لڑائی میں جب وہ جان جاتے ہیں کہ اب شاید دشمن کی بچھائی گئی جال سے نکلنا مشکل ہے وہ اپنے کسی قریبی ساتھی کو فون لگاتے ہیں اور اپنا آخری پیغام بلوچ قوم اور اپنے ساتھیوں کے لئیے ریکارڈ کرواتے ہیں۔ جس میں وہ بارہا اداروں کی تشکیل و مضبوطی کی بات پر زور دیتے ہیں- قومی تحریک سے جڑے تحریک کی لوازمات سے واقف تمام سیاسی کارکن یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ تحریک کی مضبوطی اور اسے بہتر انداز میں کامیابی کی جانب گامزن کرنے کے لئے اداروں کی مضبوطی سب سے اہم عناصر میں شامل ہے- یہ مضبوط ادارے ہی ہوتے ہیں جو وقت و حالات کے تقاضوں اور عوامی خواہشات و ضروریات کے تناظر میں پالیسی تشکیل دیتے ہیں-

بلآخر نورا اپنی جہد کو جس طرح سر اٹھائے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں سونپ کر چلے گئے اب یہ ان کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اس سر کو جھکنے نہ دیں- امید ہے کہ ہماری قومی تحریک بلوچ کی سماجی و ثقافتی اعلیٰ اقدار کی تحفظ سے وابستہ اس کے عزم کو اپنے خیالات، پالیسیوں اور اقدامات میں ہمیشہ برقرار رکھے گی-

Share This Article
Leave a Comment