گرفتارصحافی اسد طورکی رہائی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت،فیصلہ محفوظ

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پاکستان میں ججز و جرنیل پر تنقید کرنے کے پاداش میں گرفتارصحافی اسد طورکی رہائی کیلئے اسلام آبادہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جس کے بعدفیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی اسد طور گرفتاری کیس میں ریمارکس دیے کہ چھپ کر کرنے والا کام زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔

صحافی اسد طور کی گرفتاری کے خلاف اور ہراساں نہ کرنے کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق نے کی۔

اسد طور کی وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا ایف آئی آر اسی انکوائری پر درج ہوئی جس پر طلبی نوٹس بھیجا گیا؟ جس پر وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا طلبی نوٹس میں جو الزام تھا ایف آئی آر اس سے مختلف ہوئی ہے جو ایف آئی اے کے پراسس کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا ایف آئی اے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کیسے کسی اور کی طرف سے شکایت درج کرا سکتا ہے، عدالت اسد طور کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پوچھا کہ انکوائری آپ نے کہاں سے شروع کی ایف آئی آر کہاں ختم کی؟ کل انہوں نے بتایا تھا کہ آپ کا نوٹس 2 لائن کا ہے باقی کچھ نہیں ہے، نوٹس میں کیا لکھا ہے، ایف آئی آر میں کیا لکھا، آپس میں مطابقت ہی نہیں ہے۔

جسٹس عامر فاروق کا ایف آئی اے کے وکیل سے مکالمہ کرتے کہنا تھا آپ بتانا نہیں چاہ رہے یا آپ کو میری بات سمجھ نہیں آرہی؟ آپ کیا پڑھنا چاہ رہے ہیں؟ کیا کہا ہے اُس نے سپریم کورٹ سے متعلق؟

عدالت کا کہنا تھا جہاں پر عدلیہ یا آرمڈ فورسز ہوں ایسے معاملات میں خاص طور پر احتیاط برتنی چاہیے، یہ جو چھپ کر کرنے والا کام ہوتا ہے یہ زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے، یہ چھپ کر کرنے والا کام پتہ نہیں کون اور کیوں کروا رہا ہے، ایسے کیسز میں شفافیت زیادہ ہونی چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کیوں پراسیکیوٹ ہو رہا ہے۔

وکیل ایف آئی اے کا کہنا تھا عدالت کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، پٹیشن کے بعد ایف آئی آر کا اندراج ہوا ہے، جس پر عدالت نے کہا اگر نوٹس عدالت کالعدم قرار دے دے تو کیا ایف آئی آر پر کچھ فرق پڑے گا؟

وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا سورس رپورٹ، طلبی نوٹس اور ایف آئی آر تینوں مختلف ہیں۔

اسدطور کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

Share This Article
Leave a Comment