پا کستا نی پر نٹ و الیکٹر انک میڈیا کے ریاستی زیر اثر جانبدارا نہ ومنافقا نہ کر دار کے پیش نظر بلو چستان میں نوآبادیا تی ریا ستی جبرواستبداد اور نسل کش جنگی جرائم کے بارے میں بلوچ قوم اور دنیا کو مسلسل آگاہ رکھنے میں ”سنگر“ایک سر گرم ذریعہ ابلاغ کے طور پر سا منے آیا ہے
مو جو دہ دنیا کو ایک نہیں دو کہا جا تا ہے،ایک حاکموں،ظالموں،جابروں، امیروں اور استحصال کر نے وا لوں کی تر قی یا فتہ و پر تعیش ہے،جبکہ دوسری محکو موں،مظلو موں،مجبو روں،غریبوں اور استحصال زدہ پسماندہ و مفلوک الحال اقوام و طبقات کی دنیا ہے جن کا فکرو عمل،بو دو باش اور اقتصادی زند گی و مفادات سب کچھ باہم متضاد اور نا قا بل مصالحت ہے، حاکم و ظالم اور دولت مند و استحصال کر نے والوں کی اقتصادی،سیاسی و سما جی بالادستی تب تک قائم رہ سکتی ہے جب تک محکوم و مظلوم اور پسماندہ و مفلوک الحال اقوام و طبقات حاکموں کی بالادستی اور استحصال کو قبول کرتے رہیں اور اسے چیلنج نہ کریں لیکن انسان فطری طور پر ایسی محکو ما نہ اور جبرو استحصال پر مبنی کیفیت کو زیادہ عرصہ بر داشت و قبول نہیں کر سکتا،یہی وجہ ہے کہ دور غلاماں سے لے کر مو جو دہ جدید صنعتی اجر تی غلا می کے دور تک محکو موں و مظلو موں نے بار بار بغاوتیں کی ہیں۔محکوم اقوام نے نو آ با دیا تی غلا می سے آ زادی حاصل کی، مظلوم طبقات نے انقلا بات بر پا کر تے ہو ئے جبر و استحصال پر مبنی اقتصادی و سیاسی نظا موں کو اکھاڑ پھینکا،اور اقتصادی و سما جی مساوات قائم کر تے ہو ئے اقتدار و تر قی کے ہر فرد کیلئے یکساں مواقع پیدا کئے۔آزادی و انقلاب سے روشناس ہو نے وا لی اقوام و معاشروں نے حیران کر دینے والی تیز رفتار تر قی و خوشحالی کی منازل طے کیں،اور جو اقوام و معاشرے محکو می و جبراور استحصال کے خاتمے کی بجائے اس کا حصہ یا اْسے قبول کرتے رہے وہ ہر آ نے والے وقت کے ساتھ پسماند گی،غر بت و افلاس،انتشار اور تباہی و انحطاط سے دو چار رہے۔
محکو موں میں پا ئی جا نے والی اس تفریق کے پیچھے محض بہادری و بزدلی اور حاکم بالا دست قو توں کی طرف سے کم زیادہ طاقت کے استعمال کا فرق نہیں تھا،بلکہ یہ تفریق نظر یات و خیالات میں پائے جا نے والے فرق کا نتیجہ تھی، جس محکوم قوم و مظلوم طبقے نے انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال پر مبنی قو می و طبقا تی جبرو استحصال کے خاتمے کے انقلا بی و سائنسی نظر یے کو اپنا یا اسی نے آزادی، ترقی و خوشحالی کی نعمتوں کو پایا اور اپنے وجود کی باوقار بقا محفوظ بنا ئی،جبکہ جن محکو موں نے بالادست حکمرانوں کے پھیلائے ہو ئے نظر یات و خیالات اور طرز زند گی کو اپنایا ان کی نہ جداگا نہ شنا خت با قی رہی اور نہ ہی معاشرے میں عزت وقار اور تر قی و خوشحا لی نصیب ہو سکی۔
نظر یات و خیالات کے اس محرک و فیصلہ کن کردار کی اہمیت مسلمہ ہو نے کے نا طے حکمرانوں نے ہمیشہ طاقت کے استعمال کے ساتھ ذہنی غلا می کے ذرائع کو بروئے کار لایا، یہ کام محکو موں و مظلو موں کے دماغوں پر آزادی و انقلاب دشمن نظر یات و تصورات کے قبضے سے ہی ممکن تھا،لیکن انقلاب دشمن نظر یات کا پھیلاؤ خود بخود عمل میں نہیں آسکتا تھا اس کام کیلئے نہ صرف ریاستی قوانین تعلیمی و اد بی ذرائع اور سیاسی عمل کا سہارا لیا گیا بلکہ سب سے زیادہ تو جہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر مر کوز کی گئی،کیو نکہ میڈیا نہ صرف معاشرے تک معرو ضی حالات و حقائق تک رسا ئی کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ یہ ذہن سازی میں بھی کلیدی کردار کا حا مل ہے، اس کا تعلق پرو پیگنڈہ کے ذرائع سے بھی ہے، بالادست حکمرانوں نے میڈیا کو اس کے حقیقی کردار یعنی حقائق سے آگا ہی کی بجا ئے اسے محکو موں و مظلو موں کیخلاف ایک پرو پیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیاہے،جہاں بھی قو می و طبقا تی جبر اور حاکمیت و محکو می پر مبنی نظام حکو مت اور ریاستی ڈھا نچے بر قرار ہیں وہاں میڈیا حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلو نا بنا رہا ہے۔
میڈیا کا یہ کردار حکمرانوں اور با لا دست قو توں کے مفادات کا ترجمان اور محکو موں تک حقائق کی رسا ئی کے بر عکس حقائق کو مسخ کر نے و پو شیدہ رکھنے کا حا مل رہا ہے۔
اانسان کی انسان پر بالادستی اور جبر واستداد کی پوری تاریخ اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ غلامی، محکومی اور تسلط کو قائم رکھنے کیلئے بالادست اور قابض قو توں نے صرف مسلح ریاستی جبر واستبداد کا ہی بے رحمانہ استعمال نہیں کیا بلکہ غلا می و محکو می کی ذہنی قبو لیت کیلئے تعلیمی،اد بی، اور ثقا فتی سمیت پرو پیگنڈے کے مختلف ذرائع کو وسیع پیما نے پر بروئے کار لا یا گیا، یہ حر بہ بدلتے اور جدت اختیار کر تے ہو ئے دور کے ساتھ نت نئی اور جدید صورتیں اپناتا گیا،کامیاب تجر بات نے ثابت کیا کہ مسلح ریا ستی جبر وتشدد سے غلا می و محکو می کو عارضی طور پر تو قا ئم رکھا جا سکتا ہے مگر اْسے دائمی اور دیر پا نہیں بنا یا جا سکتا،یہی وجہ تھی کہ ہر قا بض و بالادست قو ت نے غلا موں و محکو موں کو زیر تسلط رکھنے کیلئے کھو لے جا نے وا لے محاذوں میں تعلیمی،ثقا فتی و اد بی، صحافتی غرض ذہنوں پر گہرے اور دیر پا اثرات مر تب کر نے وا لے پرو پیگنڈہ کے محاذ پر سب سے زیا دہ توجہ دی، اور یہ حر بہ قا بض و مقبو ضہ اور حاکم و محکوم کے در میان مسلسل جا ری رہنے وا لی جنگ نما کشمکش میں انتہا ئی اہمیت اختیار کر گیا،اور اس نے جنگ کی ایک صورت کے طور پر خود کو تسلیم کرا لیا،جسے پرو پیگنڈہ یا نفسیا تی جنگ بھی قرار دیا جا تا ہے۔یہ جنگ حریف کو فکری ابہام، حقا ئق سے بے بہرہ کر نے،غیر اہم اور سطحی ایشوز کو ابھار کر بنیا دی تضادات کو چھپا نے اور انہیں اپنا ذہنی مطیع و غلام بنا نے کیلئے انہی مقا صد کے حصول کیلئے لڑی جا تی ہے جو کسی بھی جنگ کے مقا صد ہو تے ہیں،قا بض و مقبو ضہ اور حا کم و محکوم کے در میان اپنے اپنے وجودکی بر قرا ری کیلئے جا ری کشمکش میں قا بض و حا کم قو توں کو یہ بر تری حا صل ہو تی ہے کہ ان کے پا س پو ری ریا ست اور اس کے بے پناہ وسا ئل ہو تے ہیں، اور قا نون بھی اس کا محافظ ہو تا ہے، جبکہ مقبو ضہ اور محکو موں کے پاس ایسی کو ئی طاقت نہیں ہو تی، اسی لئے اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیا بی کیلئے لڑنے وا لوں کو ہر محاذپر مشکلات کا سا منا کر نا پڑتا ہے،مگر تمام تر مشکلات ورکاوٹوں کے باوجود حقوق سے محروم قو تیں اپنی آزادی اور نجات کیلئے ہر محاذ پر مقا بلے کیلئے ہر ممکن ذرائع بروئے کار لا تی ہیں،جس میں نفسیا تی جنگ کا اہم اوزار پرو پیگنڈہ بھی شا مل ہے، مگر محکو موں کی انقلا بی جدو جہد کا پرو پیگنڈہ قا بض قو توں کے لغو اور حقا ئق کو مسخ کر نے وا لے پرو پیگنڈے کے بر عکس حقائق کو عوام کے سامنے لا تا ہے،اور انہیں قا بض قو توں کی چالبازیوں اور سازشی منصوبوں و عمل سے چو کنا رکھتا ہے،اور محکو می واستحصال کو بر قرار رکھنے کے نفسیا تی حر بوں کو نا کام بنا تا ہے،صرف یہی نہیں بلکہ انقلا بی پرو پیگنڈہ غلام و محکوم اقوام و مظلوم عوام کو داخلی طور پر گہرے اتحاد کی لڑی میں پرو تے ہو ئے انہیں آزادی پسند انقلا بی جدو جہد میں شعوری طور پر شریک اور ان کی فکری رہنما ئی و حقیقی منزل کے تعین میں آسا نی پیدا کر تا ہے،جبکہ پرو پیگنڈہ کے مختلف اخبار،الیکٹر انک و جدید مواصلا تی ذرائع محکو موں کی نظر یا تی،سیا سی و تنظیمی تعلیم و تر بیت میں کلیدی کر دار ادا کر تے ہیں،جہاں تنظیمی ڈھانچہ نہیں پہنچ پا تا وہا ں انقلا بی اخبار و دیگر ذرائع ہی حقا ئق سے آگا ہی اور سیا سی رہنما ئی فرا ہم کر تے ہیں،اس حوا لے سے بلوچ قو می جہد آجو ئی میں ادارہ”سنگر“کو ایک ایسا انقلا بی مور چہ قرار دیا جا سکتا ہے، جہاں نہ صرف با لا دست قا بض قو توں کے لغو پرو پیگنڈے و نفسیا تی حملوں کو نا کام بنا دیا گیا بلکہ اس کا منہ توڑ جواب بھی دیا گیا۔ اپنے گیارہ سا لہ اشا عتی عرصے میں ”سنگر“نے معرو ضی حقا ئق،نظریا تی و سیا سی تعلیم و تر بیت اور بلوچ قو می شناخت کے حوا لے سے وہی تاریخی کردار ادا کیا ہے جو کسی بھی قوم دوست عوام دوست انقلا بی تر جمان کا فریضہ ہو تا ہے، اگر چہ ابھی تک مزید بہت کچھ کر نا با قی ہے تا ہم اپنے محدود اقتصادی وسا ئل،ریا ستی جبرواستبداد کے باعث آزادانہ تحقیق و تخلیق کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور دیگر مسا ئل کے باوجود ”سنگر“نے مختصر عرصے میں حریت پسند انقلا بی نو جوا نوں اور بلوچ عوام کو تحریک آجو ئی کے گرد متحدہ و منظم کر نے اور ان کی ہمت افزا ئی میں اپنی کلیدی حیثیت کو عملی طور پر منوا یا ہے’۔’سنگر“نے فریب کاری و مکا ری اور مبالغہ آمیزی کو اپنا ہتھیار بنا نے کی بجا ئے بلوچ قو م سمیت پو ری دنیا کے سا منے پا کستا نی اور ان کے عا لمی سا مرا جی اتحا دی با لا دست قا بض قو توں کی بلوچ سر زمین پر اپنے نوآبا دیا تی قبضے اور وسا ئل کی لوٹ کھسوٹ کے عزائم کی حا مل ہر شکل و صورت کی بدنما ئی کو بے نقاب کیا ہے، جبکہ تحریک کے حر یت پسند سا ئنسی انقلا بی نظر یے کی تر ویج کر تے ہو ئے بلوچ سماج میں قبائلی،مذہبی و فر قہ وارانہ دیگر تنگ نظر،غیر سائنسی وقدا مت و رجعت پسند انہ شدت پسند رحجا نات کی بیخ کنی میں اپنا متاثر کن حصہ ڈالا ہے۔
اپنی اس انقلا بی فکری سر گر می کے باعث سنگر نے نوآبا دیا تی نظر یات کے زیر اثر رائے عامہ کو بدلنے میں کلیدی کر دار ادا کیا ہے، یہ ایک ایسی کامیا بی ہے جو کسی بھی قو می ا نقلا بی تحریک کی سما جی بنیا دوں کو وسیع و گہرا بنا تی ہے،اور اس کے بغیر تحریک کی کامیا بی اور قا بض قو توں کو شکست نہیں دی جا سکتی،کیو نکہ کہا جا تا ہے کہ رائے سماج پر حکو مت کر تی ہے اور کو ئی بھی رائے اپنے پس پر دہ ذہنی و فکری تصورات کا عکس ہو تی ہے،جس پر انسان کی عملی سر گر می کی پو ری عمارت کھڑی ہوتی ہے،رائے زند گی کے تمام سما جی و قدرتی مظاہر بشمول سیاسی عمل کی طرف انسا نی رویوں اور تر جیحات کے تعین میں رہنما ئی کر تی ہے، اسی لئے بالا دست قو تیں محکوموں کی اپنی انقلا بی تحریک و سیا سی عمل میں شعوری شر کت کو روکنے کیلئے ایک ایسی رد انقلا بی رائے عامہ کی تشکیل پر اپنی پو ری پرو پیگنڈہ مشینری کا بھر پور استعمال عمل میں لا تی ہیں جو نوآبادیاتی غلبے کیلئے ذہنی قبو لیت کی آراء تشکیل دے سکے۔سنگر نے اس نوآبادیا تی حر بے کو متعدد مقا مات پر ہزیمت سے دوچار کیا ہے،
اس کے علا وہ پا کستا نی پر نٹ و الیکٹر انک میڈیا کے ریاستی زیر اثر جانبدارا نہ ومنافقا نہ کر دار کے پیش نظر بلو چستان میں نوآبادیا تی ریا ستی جبرواستبداد اور نسل کش جنگی جرائم کے بارے میں بلوچ قوم اور دنیا کو مسلسل آگاہ رکھنے میں ”سنگر“ایک سر گرم ذریعہ ابلاغ کے طور پر سا منے آیا ہے اور جن بلوچ نسل کش جنگی جرائم اور انسا نی حقوق کی پا ما لی کے ریاستی اقدامات کو ریاستی گماشتہ میڈیا نظروں سے اوجھل رکھنے کی کو شش کرتا ہے انہیں اس انقلا بی ادارہ نے پوری تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے لا یا ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک کی وہ کامیابیاں اور حاصلات جنہوں نے استعماری ریاستی ڈھانچے کو کھو کھلا اور بے قا بو بحران سے دوچارکر دیا ہے کو چھپا نے کی تمام کو ششوں کو نا کام بنا تے ہو ئے انہیں نمایاں طور پر آشکار اکیا ہے۔سنگر کے اس کردار نے با لا دست قو توں کے گماشتہ میڈیا کے بلوچ سمیت محکوم قو موں کے دشمن اور ریا ستی جبر واستبداد کے حمایتی روپ کو بے نقاب کیا ہے،”سنگر“نے صرف تعلیمی وسیاسی تر بیت آگا ہی اور ذریعہ تشہیر وابلاغ کا فریضہ انجام نہیں دیا ہے بلکہ یہ تحریک کی تنظیم کاری اور اسے وسیع بنا نے والے منتظم کے طور پر سا منے آیا ہے،اس کے علاوہ بلوچ قوم اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے وا لے قارئین کو بین الاقوا می و علاقا ئی معا شی سیا سی و سما جی بدلتے حالات و رونما ہو نے وا لے نت نئے واقعات،قو می و علا قا ئی اور عالمی تنازعات پر بھی باقاعدگی سے بے لاگ تبصرے وتجزیے پیش کئے ہیں،کیو نکہ یہ ادارہ جانتا ہے کہ آج دنیا گلو بل اکائی بن چکی ہے اور ایک خطے کے حالات دیگر خطوں پر بھی مر تب ہو تے ہیں،حالات کی یہ اثر اندازی جدلیا تی ہے،جو باہم اثر پذیری کی حامل ہے،خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب عالمی وعلاقا ئی سامرا جی قو تیں اپنے تاریخ کے بدترین اقتصادی وسیاسی بحران سے دوچار اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور دنیا کی از سر نو بندر بانٹ کیلئے کرہ ارض اور اس پر بسنے وا لی خدا کی مخلوق کو جنگوں اور جارحیت کے ذریعے تباہ وبرباد کر رہی ہیں اور دوسری طرف حقوق سے محروم اقوام و طبقات کی تحریکات میں ہر آنے وا لے دن کے ساتھ شدت آرہی ہے، ایسے میں تحریکات کی سمت کو درست رکھنے اور درست لائحہ عمل وحکمت عملی کیلئے ان حالات سے آگا ہی ناگریز حیثیت اختیار کر گئی ہے جسے ”سنگر“نے پورا کر نے کی حتیٰ المقدور کوشش کی ہے،اب یہ مورچہ اپنے آغازسے زیادہ مضبوطی اور وسعت حاصل کر چکاہے،اس وقت ادارے کے تحت بلوچ قوم سمیت دنیا کو بلوچستان کے زمینی حقائق سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر اشاعتی ونشری ذرائع کا اہم کردار ہے،اس کامیا بی پر ادارہ کی پوری ٹیم مبارکباد کا مستحق ہے، جبکہ اب تک گیارہ سالہ کارکردگی تمام ترکمزوریوں کے باوجود قا بل تحسین ہے جس کے پیش نظر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سنگر اپنے نظریاتی انقلا بی کردار کو مزید گہرائی اور وسعت دے گاجو بلوچ قو می تحریک آجو ئی کی کامیابی میں گہرے اثرات کاحامل ہو گا۔