…..پاھار……
بلوچستان کی دفاع میں سرمچاروں کی شہادتیں
بلوچ صحافی ساجد حسین کا المناک قتل،
بلوچستان میں کورونا کیسز میں اضافہ
ماہِ اپریل میں 100 سے ز ائدفوجی آپریشنز میں 103 افرادلاپتہ،12لاشیں برآمد،
200سے زائد گھروں میں لوٹ مار،50گھر نذر آتش
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
ساجد حسین اب ہم میں نہیں رہا،انکی گمشدگی کے دو ماہ بعد انکی لاش ملی اوراس لرزہ دینے والی خبر نے مقبوضہ بلوچستان کے باسیوں اور دنیا بھر کے بلوچوں کو شدید رنج میں مبتلا کردیا۔
ساجدحسین ایک نامور صحافی تھے اور ان کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ انہوں نے 2012 میں پاکستان چھوڑ دیا تھا اور وہ 2017 سے سویڈن میں مہاجر کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے۔ بطور صحافی وہ رحم دل تھے اور انہوں نے بلوچ عوام کے دکھوں پر بڑے پیمانے پر تحریر کیا۔ ان کا کام اکثر انھیں پریشانی کا نشانہ بناتا تھا کیوں کہ حکام ان کی بلوچستان کی ممنوعہ کہانیوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنا پسند نہیں کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہیں جلاوطنی میں رہنا پڑا۔
ساجد حسین کی سویڈن جیسے شہر میں گمشدگی اورپھر قتل بلوچستان کے صحافی برادری سمیت جلا وطن بلوچوں کیلئے تشویشناک امرہے۔ کیونکہ بلوچوں کی جبری گمشدگی و قتل اور پھر مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا جو سلسلہ بلوچستان اورپاکستان کے دیگر شہروں میں پاکستانی انٹیلی جنس کے ہاتھوں بغیر کسی خوف و خطر جاری ہے اب اس کا تسلسل یورپی ممالک میں پھیل چکا ہے۔
ادارہ سنگر ساجد حسین کی بلوچ قوم کی حقوق اور حق وسچ کے اس سفر میں اس کی قربانی کا معترف ہے اور اس پْر کھٹن سفر کو جاری رکھنے کا عزم کرتا ہے۔
ساجد حسین بلوچ کی اس طرح موت پر بلوچ قوم سمیت دنیا بھر کے صحافیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے،جہاں واضح طور پر بلوچ آزادی پسند اور بلوچ قوم سمیت صحافی بھی اسے پاکستانی خفیہ اداروں کی کارستانی قرار دے رہے ہیں۔
بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ساجد حسین کی اس طرح جدائی کو بلوچ قوم اور صحافت کے لیے اہم نقصان قرار دیتے ہوئے سویڈن حکومت سے شفاف تحقیق کی مانگ بھی کی ہے۔
کرونا وباء نے جہاں دنیا کو شدید متاثر کیا ہے وہاں بلوچستان بھی اس وباء سے متاثر ہورہا ہے بلکہ بلوچستان جہاں قابض ریاست کی بربریت اپنے عروج پہ ہے جس کی وجہ سے اب تک پچاس ہزار سے زائد بلوچ فرزند ریاستی عقوبت خانوں میں پابند سلال ہیں انہیں سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے اس کے علاوہ آئے روز کے فوجی آپریشن اور ان میں لوگوں کو جبری طور پر علاقہ بدر کرنے کی وجہ سے بھی بلوچ قوم دیگر گوں کی کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہے اور یہی عوامل اس وباء سے متاثر ہونے کی اہم وجہ بن سکتی ہے جس کی وجہ سے بعض قوم پرست حلقوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ پاکستان اس وباء کو بلوچوں کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔جب ہم پاکستان کی بربریت کا جائزہ لیتے ہیں تو اس سے یہ بات من و عن صادق آتی ہے کہ پاکستان اس وباء کو بلوچوں کے خلاف شعوری طور پر استعمال کررہا ہے۔ ایک ایسا خطہ اور اس کے باسی جو ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں وہاں ایسی صورتحال میں وہ زندگی سے زیادہ موت کے قریب ہونگے۔
ٍ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں جہاں پوری دنیا آج عالمی وباء کی لپیٹ میں آچکا ہے، لیکن پاکستان کی بلوچستان میں بربریت اسی شدت کے ساتھ جاری ہیں۔پاکستان کی بربریت کی وجہ سے ماہ اپریل میں آواران، کوہستان مری، جھاؤ، مکران، پنجگور، خاران، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن زور و شور سے جاری رہی۔ اس کے علاوہ بولان، سبی اور اس کے مضافات میں شدید قسم کی فوجی آپریشن کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان ان علاقوں میں ایک بار پھر بربریت کا طوفان کھڑا کرے گا۔الغرض جب ہم بلوچستان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پاکستان کے زیر قبضہ پورا خطہ پاکستانی بربریت کی زد میں ہے جہاں آئے روز آبادیوں پہ دھاوا بولنا، لوگوں کو جبری طور پہ لاپتہ کرنا، خواتین اور بچوں کو زد وکوب یا اکثر اوقات انہیں بھی لاپتہ کرکے بربریت کا شکار بنانا وغیرہ روز کا معمول بن چکا ہے۔پاکستان کی اسی بربریت کی وجہ سے 26اپریل کو پنجگور کے علاقہ پروم میں ایک شدید قسم کی فوجی کارروائی میں چار بلوچ فرزند شہید ہوگئے۔اس فوجی آپریشن میں قابض ریاست کے فوج کو شدید جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔مستند ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ بلوچ فرزندوں نے کہیں بار قابض ریاستی فورسز کو پسپا کیا اس جنگ میں قابض ریاست کو مقامی ڈیتھ سکواڈ کے ساتھ فضائی کمک بھی حاصل رہی۔
بلوچ فرزندوں کی شہادت تحریک کے لیے کسی بڑے نقصان سے کم نہیں لیکن بلوچ سرمچار میجر نورا کے جنگی میدان سے
پیغام نے جو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوچکا ہے اس نے بلوچ قوم میں آزادی کے حصول کی شدید امنگ پیدا کی ہے۔اور آج بلوچ قوم کے حوصلے دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں کہ بلوچ قوم اور وطن کی آزادی اب زیادہ دور نہیں۔
مغربی بلوچستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے بلوچ مہاجرین کے خلاف ریاستی خفیہ ادارے اور ڈیتھ اسکواڈ سر گرم ہیں اور اب تک درجن سے زائد بلوچ فرزند شہید کیے جا چکے ہیں،اپریل کے ماہ دو بلوچ فرزند زائد اور حمل بلوچ دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
گزشتہ چند مہینوں کی طرح ماہ اپریل میں بھی کرونا وائرس شۂ سرخیوں میں رہا۔کرونا وائرس کی وبا ء سے اب تک دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد تیس لاکھ سے زائد ہے۔انسانی جانوں کے ضیاکے علاوہ اس وباء سے دنیا کی اقتصادی حالت شدید متاثرہوئی ہے اور ایک تحقیق کے مطابق 1930ء کے بعد دنیا کی معیشت اس وباء کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے۔اس وباء نے یورپ اور امریکہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جہاں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔مغرب میں کرونا وائرس کی قہرمانیوں کے بعد چین کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ایک بڑے حلقے کا یہ کہنا ہے کہ اس وباء کی اصل وجہ چین ہے جو مغرب کی معیشت کو زبوحال کرکے دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔دوسری جانب چین مغرب کی اس سوچ کی تردید کرتا چلا آرہا ہے۔وباء کی تباکاریوں کے باوجود امریکہ اور ایران کی صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہوگیا اس کے علاوہ افغانستان میں حکومت کی جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود طالبان کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔اس وباء کی تباکاریاں آج دنیا کے تمام ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام اقوام سے جنگوں کی بندش کا مطالبہ بھی کیا ہے لیکن پاکستان کی بلوچوں کے خلاف بربریت میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کی ابتداء 31 دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان سے ہوئی اور چند ایک مہینوں میں اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تیزی سے پھیلنے والے اس وائرس سے پوری دنیا لاک ڈاؤن ہے۔جس کی وجہ سے دنیا کی معیشت زبوحالی کا شکار ہوچکا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق 1930ء کے بعد دنیا کی معیشت میں خطرناک صورتحال کا شکا ر ہے۔دنیا نے ایسی صورتحال کا سامناپہلی جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد کیا تھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے ددرکھول دیے۔اگر مزید کچھ عرصہ دنیا کی یہی حالت رہی توممکن ہے کہ دنیا میں ایک اور ہولناک جنگ شروع ہوجائے۔کیوں کہ دنیا کے بڑے ممالک کبھی اس بات کو گوراہ نہیں کرسکتے کہ ان کی طاقت کی زبوں حالی کا فائدہ کوئی اور ملک اٹھائے۔
آج چین نے اس وباء پہ قریباً کنٹرول حاصل کرلیا ہے جس سے وہاں اب ماحول نارمل پوزیشن میں آچکا ہے۔ چین کا اس وبا پہ کنٹرول نے اس کی معیشت کو بڑی حد تک سنبھالا تو دیا ہے لیکن عالمی منڈیوں میں جو تنزلی ہے وہ انتہائی خطرناک صورتحال پیش کررہی ہے۔
جس کے معاشی اثرات سے چین بھی متاثر ہورہا ہے یہ الگ بات ہے کہ چین خود میں ایک بڑی منڈی ہے لیکن عالمی دنیا سے آج اس کے تعلقات میں کافی ٹہراؤ آچکا ہے جو سرد جنگ کا نقشہ پیش کررہا ہے۔
اس وائرس کے سبب دنیا میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے اور اس وائرس کے سبب آج قریباً پوری دنیا میں لاک ڈاؤن جبکہ بعض ممالک میں نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ انہوں نے کرفیونافذ کردی ہے جس سے معاشرتی زندگی کے ساتھ عالمی اقتصادیات بری طرح متاثر ہورہی ہے، اور اس کے اثرات آنے والے دنوں میں پوری دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ سماجی اور اقتصادی زندگی کے ساتھ ساتھ اس وباء نے نفسیاتی الجھنیں بھی پیدا کی ہیں جو یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔اس کے علاوہ اس وباء کی تباکاریاں ہم جانی نقصانات کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں جہاں تیس لاکھ سے زائد افراد اب تک اس وباء سے متاثر ہوچکے ہیں اور دو لاکھ چالیس ہزارسے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد امریکہ اور یورپ کی ہے۔
ایک جانب کرونا کی وباء اپنی تباکاریوں کے ساتھ دنیا کا نقشہ تبدیل کررہا ہے تو دوسری جانب ایران اور امریکہ ایک بار پھر شدید کشیدگی کی جانب مائل ہیں جہاں امریکہ نے پہل کرتے ہوئے بحرہ عرب میں ایرانی جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے جس کے جواب میں ایران کا ردعمل بھی اس سے مختلف نہیں۔ایسی صورتحال میں اگر ان ممالک کے مابین جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس سے دنیا مزید ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرے گی۔
ایران امریکہ کشیدگی کے علاوہ جو سب سے بڑا خطرہ اس وقت دنیا محسوس کررہی ہے وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو بڑی جنگ کی جانب مائل ہوتے دیکھنا ہے۔جہاں امریکہ اور یورپ چین کے خلاف ایک ہی پیج پہ آچکے ہیں اور اس وباء اور اس کے اثرات کا ذمہ دار چین کو ٹہرایا جارہا ہے جبکہ چین مسلسل مغرب کے اس عمل کی تردید کرتا چلا آرہا ہے۔اگر صورتحال یہی رہی اور اس میں چین کے خلاف کوئی ثبوت ہاتھ لگا تو ممکن ہے کہ دنیا بڑی طاقتوں کی وجہ سے میدان جنگ بن جائے۔
دنیا کی بڑی طاقتوں کے علاوہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں بھی شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ایک جانب امریکہ اور طالبان امن معاہدہ قریباً مکمل ہوچکا ہے اور دوسری جانب طالبان اور افغان حکومت کے مابین معاہدے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی شدید حملے جاری ہیں جو نہ صرف افغان خطے کے مستبقل کو داؤ پہ لگائے گی بلکہ اس قسم کے حملوں کی وجہ سے افراتفری مزید پھیلے گی جس سے کرونا جیسے عالمی وباء کا افغان خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے اسباب مہیا ہونگے جو کہ اس خطے کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ کیوں کہ اس وباء کی وجہ سے امریکہ نے بھی یہ عندیہ دے دیا کہ ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے سارے فوجی افغان خطے سے واپس بلالیں۔ ایسی صورتحال میں افغانستان کا مستقبل تو داؤ پہ لگ جائے گا لیکن وہاں پناہ لینے والے بلوچ قوم پرستوں کے لیے بھی شدید مشکلات پیش آئینگے جس کا براہ راست اثر ان کی تحریک پہ پڑسکتا ہے۔
ماہ اپریل 2020 پر
بی این ایم کی
تفصیلی بیان