سرمچارمیجر نورا نے "نورا” نام کواپنے خون سے نئی درخشندگی عنایت کی – تحریر : رحیم بلوچ ایڈوکیٹ

ایڈمن
ایڈمن
32 Min Read


بلوچ قوم کی تاریخ بیرونی حملہ آوروں، غاصب لٹیروں، ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف شاندار مزاحمت کی تاریخ ہے بلوچ قوم کے معلوم تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھیں تو ہر ورق پر قومی آزادی کی دفاع کیلئے بڑے اور طاقتور قوتوں کے خلاف علمِ مزاحمت بلند کرنے والے بلوچ سورماؤں کی بہادری کے قابل فخر کارنامے پڑھنے کو ملیں گے انہی بے شمار سورماؤں میں سے ایک نورا عرف پیرک ولد میر شیردل ساکن پروم، پنجگور ہے جس نے 26 اپریل 2020 کو اپنے سرمچار ساتھیوں نواز جان وعبدالمالک پسران حاجی میر غلام حسین ساکنان پروم اور مومن جان ولد میر محمد عظیم سکنہ سلو، بلیدہ کے ساتھ مل کر فکری پختگی، قومی آزادی کے لئے چٹان کی طرح مضبوط و کوہِ چھلتن کی طرح بلند حوصلہ، حریت پسندی، شجاعت و دلیری اور جنگی کارناموں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ وہ آخری سانس اور آخری گولی تک حملہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑتا رہا اور دشمن کو اپنے قریب پیر پھٹکنے نہیں دیا۔


نورا عرف پیرک کے بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق وہ 1992 میں پیدا ہوا۔آٹھویں جماعت تک اس نے اپنے آبائی علاقہ پروم میں تعلیم حاصل کی پھر خدابادان، پنجگور ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ میٹرک کے بعد حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس نے 2006 میں سائنس کالج کوئٹہ میں داخلہ لےلیا اور ساتھ میں ٹیوشن بھی پڑھتا رہا۔

وہ بینائی سے متعلق میڈیکل کی شاخ علوم امراض چشم (عینیات)

Ophthalmology

میں بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے 2008 میں کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی، لاہور کے ذیلی ادارہ

(PIPO) Punjab Institute of Preventive Ophthalmology

میں داخلہ لیا تھا لاہور میں پڑھائی کے دوران وہ اپنے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے بلوچ طلباء سیاست اور قومی تحریک آزادی کی جمہوری محاذ میں سرگرم کردار ادا کرتا رہا اس نے بی ایس او آزاد کے 2008 کی قومی کونسل کے اجلاس میں بی ایس او لاہور زون کی طرف سے بطور کونسلر شرکت کی اور اسی سال وہ بی ایس او آزاد لاہور زون کا جنرل سیکریٹری بھی منتخب ہوا پھر 2009ء میں وہ بی ایس او آزاد لاہور زون کا صدر منتخب ہوا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس نے جلد ہی بی ایس او لاہور کو ایک فعال زون بنادیا۔اس نے لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء و طالبات کو منظم کرکے وہاں دو درجن کے قریب تنظیمی یونٹس بنائے۔ نہ صرف لاہور کے اندر اس نے بی ایس او آزاد کو منظم، فعال اور متحرک کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس نے ساہیوال، اوکاڑہ ،ملتان ،فیصل آباد اور دیگر شہروں میں زیر تعلیم بلوچ اسٹوڈنٹس کو بی ایس او کے پلیٹ فارم پر منظم کرکے وہاں بھی تنظیم کے یونٹ قائم کئے۔

پنجاب کے مختلف شہروں کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ اسٹوڈنٹس کے تعلیمی حقوق اور ان کی تحفظ کیلئے بلوچ اسٹوڈنس ایکشن کمیٹی بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے نورا بلوچ ایکشن کمیٹی کے بھی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
جب 8 جون 2009 کو پاکستان کی خفیہ اداروں نے مستونگ میں کوئٹہ جانے والی ایک مسافر بردار ویگن سے بی ایس او آزاد کے اس وقت کے مرکزی وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا تو نورا نے ذاکر مجید کی باحفاظت بازیابی اور رہائی کے لئے بی ایس او لاہور زون کی جانب سے متعدد احتجاجی مظاہرے منعقد کرائے اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حقوق انسانی کے عالمی شہرت یافتہ رہنما محترمہ عاصمہ جہانگیر، تاریخ کے مشہور پروفیسر ، دانشور اور مصنف مبارک علی، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تحریک چلانے والی آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت بائیں بازو کے کئی اہم شخصیات اور تنظیموں کے ساتھ رابطے قائم کرکے نہ صرف انھیں ذاکر مجید کی جبری گمشدگی سمیت بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی مظالم سے آگاہی دیتا رہا بلکہ انھیں مقبوضہ بلوچستان کے اندر پاکستانی ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے آمادہ کرنے کی بھی کوشش کرتا رہا۔ان کی ایسی کوششوں کے نتیجے میں بی ایس او- آزاد اس قابل ہوگیا تھا کہ اس نے بلوچستان میں پاکستانی ریاستی جبر کے خلاف نہ صرف لاہور میں کئی احتجاجی مظاہرے کئے اور علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا، جن میں بائیں بازوکی تنظیموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی شرکت کرتا رہا، بلکہ پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بھی احتجاجی پروگرام منعقد کرکے سفارتی مشنز

missions

اور عالمی میڈیا کومقبوضہ بلوچستان کے اندر پاکستانی ریاستی دہشتگردی کی طرف متوجہ کرنے کی بھی کوششیں کرتا رہا۔


نورا بلوچ کی جمہوری سیاسی سرگرمیوں سے پاکستان کے اصل حکمرانوں یعنی کہ پنجابی خونخوار فوج اور خفیہ اداروں کا سیخ پا ہونا تو طے تھا کیونکہ ایک ایسی فوج جو جمہوری حقوق اور آزادیوں کو اپنے ہی عوام کے لئے کفر گردانتا ہو وہ بلوچ قومی تحریک آزادی سے جُڑے نورا بلوچ کی جمہوری سیاسی سرگرمیوں کو پنجاب کے دل لاہور اور اس کی طاقت کے مرکز راولپنڈی سے ملحقہ اسلام آباد میں بھلا کیسے ہضم کر سکتے تھے؟ پس خفیہ ادارے پہلے پہل خود پس پردہ رہ کر پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ نوازکی اسٹوڈنٹ ونگ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈیشن کے صفوں میں موجود اپنے غنڈوں کے ذریعے بلوچ طلباء کو تنگ و حراسان کرنا اور ان پر حملے کرنا شروع کیا۔ نورا بلوچ ایکشن کمیٹی کا ایک وفد لے کر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملاقات کی اور اسے پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کو درپیش افسوسناک صورتحال سے آگاہ کیا۔ 31 مارچ 2010 کو نورا بلوچ اپنے ساتھی عقیل بلوچ کے ہمراہ بی بی سی اردو سروس کے علی سلمان کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پنجابی طلباء خصوصاً ایم ایس ایف والے بلوچ طلباء کو بھارتی خفیہ ادارہ "را” کا ایجنٹ اور کافر کہہ کر ان پر آوازیں کستے ہیں طعنے اور گالیاں دیتے ہیں ،ان پر حملے اور تشدد کرتے ہیں انہوں نے حملہ آوروں کے خلاف کئی مقدمات درج کرائے ہیں مگر پولیس ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا ہے۔


جب اس طرح اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے آئی ایس آئی نورا بلوچ کو پنجاب میں زیرتعلیم بلوچ طلباء کے تعلیمی حقوق اور بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے سے روکنے میں ناکام ہوا تو جولائی ـ2010ء کی ایک رات پاکستانی خفیہ اداروں نے اسٹوڈنٹس ہاسٹل میں نورا کے رہائشی کمرہ پر چھاپہ مار کر خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ ذاکر مجید بلوچ و دیگر مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے والے نورا کواٹھا کر لاپتہ کردیا۔ دوران حراست آئی ایس آئی کے سفاک اہلکار نورا کو شدید جسمانی اذیت دیتے رہے اور دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کرکے کہہ دے کہ ذاکر مجید بلوچ کو خفیہ اداروں نے نہیں اٹھایا ہے بلکہ وہ بلوچستان کے پہاڑوں میں روپوش ہے اور پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑ رہا ہے اغواکاروں کی بات مان لینے سے انکار کرنے پر ان کے متشدد سلوک اور عزائم کو دیکھ کر نورا کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس دوزخ سے نکلنے کا یہی راستہ ہے کہ ان ظالموں کی بات مان لینے کا جھوٹا اقرار کرکے اس جہنم جیسے خفیہ عقوبت خانہ سے باہر نکل جاؤں۔ پس اس نے اغواروں کو بتا دیا کہ وہ باہر جاکر جبری لاپتہ ذاکر مجید بلوچ کے بارے میں میڈیا کے سامنے وہی کچھ کہنے کو تیار ہے جو کچھ اغواکار کہلوانا چاہتے ہیں یہ سن کر اغواکاروں نے اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اگلے دن پریس کانفرنس کرکے میڈیا کو ان کی بتائی ہوئی جھوٹی کہانی سناکر کہہ دے کہ ذاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کے بارے میں بی ایس او ان سے جھوٹا پروپیگنڈہ کرواتا رہا ہے۔


تاریک اذیت خانہ سے نکلتے ہی وہ سیدھے اپنے ایک بااعتماد ساتھی کے پاس پہنچ گیا اور اس کو سارا ماجرہ سنادیا۔اپنے بے گناہ ساتھی ذاکر مجید کے بارے میں میڈیا کے سامنے گمراہ کن الزام لگاکر ظالموں کا آلہ کار بننے کے بجائے وہ دونوں اسی رات لاہور سے کراچی کے لئے نکل پڑے گرفتاری سے بچنے کے لئے وہ راستے میں کئی بار اپنی گاڑی بدلتے رہے پھر کراچی سے گاڑی پکڑ کر سیدھا تربت، کیچ پہنچ گئے جہاں پریس کانفرنس کرکے نورا بلوچ نے لاہور میں اپنے جبری گمشدگی کا سارا ماجرہ میڈیا کے سامنے بیان کردیا۔


اب نورا بلوچ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ اس کے پاس اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق بلوچستان کی آزادی کے لئے جمہوری طور طریقے سے جدوجہد کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہےکیونکہ مدمقابل دشمن پاکستان جیسا غیر مہذب ریاست ہے جو جمہوریت، انسانیت، انسانی وقار اور آزادی جیسے ارفع اقدار سے یکسر محروم ہے ۔نورا بلوچ کے سامنے چار راستے تھے پہلا راستہ یہ تھا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لئے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے جمہوری جدوجہد جاری رکھے اور دشمن کے لئے ترنوالہ بن جائے اور انتظار کرے اس دن کا جب پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے اہلکار دوبارہ اسے جبری اٹھاکر کہیں جہنم جیسے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز سزائیں دے دے کر مسخ شدہ لاش بنا کر کسی چوک ، چوراہ، جنگل ، ویرانہ یا سڑک کنارے پھینک دیں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر خاموشی اختیار کرے اور خوب پڑھائی کرکے ڈگری حاصل کرے اور پیسہ بنانے کا مشین بن جائے۔ تیسرا راستہ اس کے پاس یہ تھا کہ اپنے ضمیر کا سودا کرکے بلوچ تحریک آزادی کے خلاف دشمن کا آلہ کار بن جائے اور وقتی طورپر عیش وعشرت کی زندگی کے مزے اُڑائے۔ نورا بلوچ کے پاس آخری اور باوقار راستہ یہ تھا کہ بلوچ قومی آزادی کی عظیم مقصد کے لئے پاکستان جیسے سفاک، غیر مہذب، غیر جمہوری، بے اصول، بے اعتبار اور لومڑ فطرت دشمن کے خلاف کسی مسلح بلوچ قومی تنظیم میں شامل ہوکر گوریلا جنگ و جدوجہد کا موثر راستہ اپنائے۔ غیرت مند، باہمت اور حریت پسند نورا بلوچ نے اسی آخری راستے کا انتخاب کرکے نورا سے پیرک بن گیا اور بہادری و گوریلا جنگی داؤ پیچ میں مہارت کے باعث اپنی زندگی کے آخری سانس تک پاکستانی فوجی اہلکاروں اور ان کے مقامی مسلح ڈیتھ اسکواڈز کی کارندوں کے اعصاب پر ایک مہیب خوف بن کر چھایا رہا۔


نورا بلوچ غالباً جولائی / اگست 2010 میں بی ایل ایف میں شامل ہوگیا تھا اور اپنے بہادری، جنگی امور میں مہارت ،سخت محنت، لگن، خلوص اور سیاسی شعور کے باعث جلد ہی تنظیم کے اندر اپنا ایک بااعتبار مقام بنالیا تھا شہید نورا عرف پیرک بلوچ کے بارے میں بی ایل ایف کی جانب سے جاری کردہ اب تک کی معلومات کے مطابق وہ 2015-2016 سے پروم، زامران، بلیدہ، بالگتر، کیل کورسمیت پنجگور اور کولوا کے کچھ حصوں پرمشتمل ایک بڑے اور تزویراتی لحاظ سے حساس علاقے میں بی ایل ایف کی طرف سے بطور آپریشنل کمانڈ ر خدمات سرانجام دیتارہا۔نورا بلوچ کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل 03 مارچ 2020 کو ان کی قیادت میں بی ایل ایف کے سرمچاروں نے گھات لگا کر جہانی آپ، بلیدہ میں ایک فوجی قافلہ پر حملہ کیا تھا بعد میں اس حملے کی ویڈیو اپلوڈ کرکے میڈیا میں جاری کیا گیاتھا جس میں ایک فوجی بکتر بند اور دو موٹر سائیکلوں کو نشانہ بناتے دکھا یا گیا ہے اس کامیاب حملہ کے بعد جب سرمچار اپنے ٹھکانے کی طرف جارہے ہوتے ہیں تو جائے وقوعہ سے چند کلو میٹر دور سوراپ، بلیدہ کے مقام پرحملے کا نشانہ بننے والے فوجی قافلہ کی کمک کیلئے آنے والے فوجی دستوں کے ساتھ اچانک ان کا مُڈ بھیڑ ہوجاتا ہے جس میں کئی فوجی ہلاک ہوتے ہیں اور تمام سرمچار بحفاظت نکل جاتے ہیں مگر میجر پیرک اور ایک دوسرا ساتھی کمانڈردیگر ساتھیوں کو بحفاظت نکلنے کے لئے کور cover دیتے دیتے خود دشمن کے گھیرے میں پھنس جاتے ہیں مگر ہمت، بلند حوصلہ اور جنگی چالوں میں مہارت کے باعث بالآخر دونوں مختلف راستوں سے دشمن کا گھیراؤ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں 24 گھٹے سے زائد وقت گزرنے بعد یکے بعد دیگرے دونوں الگ الگ جگہ سے اپنے ساتھی سرمچاروں سے رابطہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔


نورا عرف پیرک محض ایک نام نہیں بلکہ علامت ہے قابل فخر عمل وشجاعت کا، فکری پختگی و شعور کا، وطن،قوم اور آزادی سے دیوانہ وار محبت کا۔ نورا عرف پیرک کو بی ایل ایف نے میجر کا رینک یونہی نہیں دیا ہوگا بلکہ اس نے جنگی محاذ پر اپنی بہادری، فوجی امور میں مہارت، پختہ سیاسی شعور اور اپنے کمٹمنٹ سے اپنے آپ کو اس اعزاز کا اہل ثابت کیا تھا۔ اپنے آخری معرکہ میٖں میجر نورا عرف پیرک نے اپنی بہادری، کمانڈ کرنے کی قابلیت، جنگی مہارت، ہمت، بلند حوصلے، خلوص، قوم سے، وطن سے، آزادی سے عشق، سیاسی شعور اور کمٹمنٹ کا جس طرح مظاہرہ کیا وہ اپنے آپ اس کی عظمت کو دوستوں اور دشمنوں پر عیاں کر دیتا ہے میجر نورا عرف پیرک اور اس کے ساتھی چاروں اطراف سے کثیراتعداد دشمن کے سخت گھیراؤ میں تھے دشمن جدید نوعیت کے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ان پر آگ برسا رہا تھا ایک ساتھی شہید ہوچکا تھا جبکہ ایک ساتھی شدید زخمی حالت میں پڑا تھااس صورتحال میں بھی نورا بلوچ نے بزدل دشمن کی طرح خوفِ مرگ کو بھی اپنے نزدیک پھٹکنے نہیں دیا۔ چاروں اطراف سے دشمن کی شدید گھیراؤ اور گولہ باری کے اندر بھی میجر نورا کو اپنا اور اپنے جان نثار ساتھیوں کی زندگیوں اور خاندانوں کی نہیں بلکہ تنظیم، تنظیمی اداروں کی مضبوطی اور قومی تحریک کو آزادی کی منزل تک پہنچانے کا غم دامن گیر تھا اس لئے موت کے مہیب شکنجے میں ہوتے ہوئے بھی اس نے بڑے اطمینان سے پوری طرح پُرسکون انداز میں اپنا صوتی پیغام ریکارڈ کر کے اپنے دوستوں کے پاس بھیجا تھا جس میں میجر نورا بلوچ اپنی ماں اور بہنوں سے کہہ رہا ہے کہ "آپ سب ہماری شہادت پر رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سب سرمچاروں کو اپنے بیٹے اور بھائی سمجھیں ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ آپ کا سر جھک جائے ہم نے نہ پہلے آپ کا سر جھکنے دیا ہے اور نہ آئندہ جھکنے دینگے ہم نے ایسا کام کیا ہے اور کررہے ہیں جس سے آپ کا سر فخر سے بلند رہی ہے اور بلند رہے گی ایسا نہ ہو کہ ہمارے بعدآپ آزادی کی جدوجہد سے کنارہ کش ہوجائیں "۔اپنے پیغام میں وہ بلوچ نوجوانوں اور اپنے جونیئر ساتھی سرمچاروں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ "ہم سے جو کچھ بن سکتا تھا ہم نے اپنی بساط کے مطابق قومی آزادی کے لئے جنگ و جدوجہد کی اب قومی آزادی کے جنگ کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے یہ مت سوچنا کہ ہم آپ کے درمیان موجود نہیں رہے جسمانی طورپر نہ صحیح مگر ہم ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے یہ جنگ ہم سب کی جنگ ہے ہماری قومی بقا کی جنگ ہے۔”وہ اپنے آخری پیغام میں اپنے تنظیم کی قیادت پر زور دیتا ہے کہ آزادی کی اس جنگ میں جیت کے لئے ضروری ہے کہ آپ تنظیم اور تنظیمی اداروں کو مضبوط بنانے پر بھرپور توجہ دیں .
جب میں سوشل میڈیا میں میجر نوراعرف پیرک کا یہ آخری صوتی پیغام سن رہا تھا تو ایک اور عظیم، دلیر اور باشعور بلوچ سرمچار، بی ایل ایف مشکے ریجن کے آپریشنل کمانڈر شہید سلیمان عرف شیہک کا میدان جنگ سے زخمی حالت میں ریکارڈ کرایا ہوا ویڈیو پیغام میرے آنکھوں کے سامنے پلے

play

ہونے لگا جس میں زندگی کے ان آخری چند لمحوں میں شہیدسلیمان عرف شیہک زخموں سے کافی خون بہنے کے باعث جسمانی طور پر کمزور مگر ہمت اور حوصلے کے لحاظ سے کوہ چھلتن کی مانند مضبوط بڑے شفیق انداز میں چہرہ پر مسکراہٹ سجائے اپنے بچوں، ماں و بہنوں، ساتھی سرمچاروں اور رہنماؤں سے مخاطب نظر آتا ہے۔


شہید نورا عرف پیرک اور اس کے سرمچار ساتھیوں نے اپنے زندگی کے آخری معرکہ میں قوم، وطن اور آزادی سے محبت، بہادری، شعوری پختگی، ہمت، بلند حوصلے اور فوجی داؤ پیچ میں مہارت کے وہ جوہر دکھائے کہ دوست تو کیا دشمن بھی ان کے عظمت کی داد دئیے اور ان کو سلام کئے بغیر نہیں رہ سکتا بشرطیکہ وہ دشمن کینہ، بغض اور دشمنی کی آگ میں اپنی انسانیت جلانے والا کوئی کم ظرف اور کم نظر نہ ہو۔ مشہور زمانہ جلیانوالہ باغ واقع میں ایک ہزار سے زائد نہتے ہندوستانی حریت پسندوں کو قتل کرنے والے انگریز فوجی جنرل ڈائر نے اپنے ڈائری میں لکھا ہے کہ پہلی عالمگیر جنگ کے دوران 1916ء میں بلوچ حریت پسندوں کے خلاف سرحد، بلوچستان میں فوجی مہم کے دوران ایک لڑائی میں سردار خلیل خان گمشادزئی کو جب برطانوی لشکر نےشہید کیا تھا تو شہید خلیل خان کی بہادری کے اعتراف میں جنرل ڈائر نے بڑے احترام سے اس کی لاش کو سلامی پیش کیا تھا مگر اب بہادر بلوچ سرمچاروں کے مدمقابل انگریز جیسے بہادر اور مہذب قوم کی فوج نہیں ہے بلکہ پنجابی جیسے غیر مہذب قوم کا بزدل اور کم ظرف فوج ہے جو عالمی جنگی قوانین، آداب و اخلاقی اقدار سے یکسر نابلد اور انسانیت و انسانی اقدار سے تہی دامن ہے پاکستانی فوج ایک ایسا لشکر ہے جس پر اگر مد مقابل دشمن غالب آئے تو یہ اپنے فوجی پٹے اور پتلون اتار کر پھینک دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے جیسے کہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران جب مکتی باہنی کے گوریلے اور بھارتی فوج ان پر غالب آئے تو 16 دسمبر 1971 کو ریس کورس پارک ڈھاکہ میں بیانوے ہزار بزدل پاکستانی فوجیوں نے لاکھوں بنگالیوں کی موجودگی میں اپنے پٹے اور پتلونیں اتار کر بھارتی فوج کے حوالہ کرکے سرنڈر ہوئے تھے دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ 30 جون 2015 کو تاریخی معرکہ میہی، مشکے میں عظیم کمانڈر سلیمان بلوچ عرف شیہک اپنے سرمچار ساتھیوں میر سفر خان، ذاکرجان، رمضان عرف بالاچ سمیت دس بلوچ فرزندوں کے ہمراہ اور مورخہ 26 اپریل 2020ء کو کھلگ کور، یار محمد بازار پروم کی یادگار لڑائی میں میجر نورا بلوچ عرف پیرک، اپنے سرمچار ساتھیوں لیفٹیننٹ نواز بلوچ عرف گلاب اور عبدالمالک بلوچ و مومن بلوچ کے ہمراہ گھنٹوں پر محیط طویل معرکہ آرائی کے بعد جب میدان جنگ میں شہید ہوئے تو اسلام کے نام نہاد قلعہ اور بڑے علمبردار پاکستان کے کم ظرف و بزدل فوجی ظرف انسانیت اور جنگی قوانین کی پاسداری کے معاملے میں بقول ملاؤں کے کافر جنرل ڈائر کے پیروں کی خاک کے بھی برابر نظر نہیں آئے۔

بلوچ سورماؤں کو میدان جنگ میں ان کی جرات و بہادری کے اعتراف میں سلام پیش کرنے اور عالمی جنگی قوانین کے مطابق ان کی لاشوں کے ساتھ برتاؤ کرنے کی بجائے پاکستانی بزدل و کم ظرف فوجیوں نے انسانی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور مسلح تنازعات سے متعلق عالمی قوانین اور جنگی اصولوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے بلوچ شہداء کی لاشوں کو فوجی گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر اپنے کیمپ تک گھسیٹتے ہوئے لے جاکر اپنی کم ظفی، کم نظری اور بربریت کا کھلا مظاہرہ کیا۔


بڑا بہادر بنا پھرتا ہے
جو بلوچ کی لاش سے بھی ڈرتاہے
بےشک میجر نورا بلوچ عرف پیرک نے نورا نام کا لاج رکھ لیا بلوچ قومی تاریخ حریت و مزاحمت کے آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ شہید نورا مینگل ولد حمزہ کا نام ہے جو آج بھی بلوچوں کی تاریخ ،فرہنگ عامہ، داستانوں ، دلوں ، یاداشت اور شاعری میں زندہ ہے اور بلوچ گلوکار براہوئی زبان میں یہ مشہور گیت گا کر دلوں کو گرماتے اور نورا مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں :
” نورا نورا حمزہ نا مارے
خلکونے دشمن تیان ہفتاد و چارے
کنے خواجہ خداغا صبرے
نشانی تہ ڈیہو نا قبرے”
شاعر برطانوی فوج کے اس کرنل ڈیوڈ

David

کو ڈیہو کہتا ہے جس نے 25 جون 1916ء کو جہلاوان کے مردم خیز علاقہ وڈھ کے گاؤں "دودکی” پر یلغار کرنے کیلئے فوج بھیجا تھا اور حملہ آور انگریزی لشکر نے گاؤں والوں کو للکار کر انھیں اپنی تلواریں پھینکنے اور گرفتاری دینے کا حکم دیاتھا مگر گاؤں کے تمام بلوچ فرزند میر گہرام مینگل اور میر حسین گمشادزئی کی سرکردگی میں اس زمانے کے لحاظ سے جدید بندوقوں سے لیس برطانوی فوج کے سامنے اپنی تلواریں پھینک دینے کی بجائے تلواروں کے ساتھ دشمن کے خلاف مقابلہ کے لئے کمرکس کر میدان جنگ میں اترے تھے اور دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے تھے کمال یہ ہے کہ میر گہرام مینگل اپنے جسم پر انگریز کمانڈر کی پستول سے سات گولیاں لگنے کے باوجود اپنی تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا تھا اس معرکہ میں میر گہرام مینگل و میرحسین خان گمشادزئی سمیت جو بلوچ فرزند شہید ہوئے تھے ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
صالح محمدولد دودا گرگناڑی ، رسول بخش ولد ناکام گرگناڑی، محمد ولد بھٹے خان قلندرانی،عارف ولد بھٹے خان قلندرانی، کیچی ولد دھنگو زہری، سنجر خان ولد جمعہ خان زہری، دین محمد ولد نور محمد میروانی، ضرور ولد ہیبت خان بارانزئی، اعظم خان ولد سید خان ڈھلو جو ، ولیداد محمود زئی مینگل، حسین خان ولد علم خان گمشادزئی مینگل، لعل محمد ولد علم خان گمشادزئی مینگل، سنجر خان ولد علم خان گمشادزئی مینگل، مہیم خان ولد علم خان گمشادزئی مینگل، بلوچ خان ولد علم خان گمشادزئی مینگل، مراد خان ولد علم خان گمشادزئی مینگل،عبدالکریم ولد حسین خان، دین محمد ولد مراد خان گمشادزئی مینگل، سید خان گمشادزئی مینگل، احمد ولد فتح محمد گمشادزئی مینگل، پیارا ولد علی محمد گمشادزئی مینگل ، حسن خان ولد بلوچ خان گمشادزئی مینگل، نورا ولد ہیبت خان گمشادزئی مینگل، حسین خان ولد گمشاد گمشادزئی مینگل ، محمد ولد دوست محمد گمشادزئی مینگل، جنگی خان ولد دوست محمد گمشادزئی، جان محمد ولد موسیٰ خان حملزئی، علی مراد ولد حمزہ حملزئی، محمد ولد کامبو حملزئی، حسین خان ولد میر محمد حملزئی، عبداللہ دولت خانزئی، میر گہرام خان ولد حسن خان حملزئی، شہداد ولد یار محمد چھٹو۔
بلوچ قوم کی تاریخ، نفسیات اور روایات سے پنجابی جنریلوں کی بےخبری دیکھیں کہ وہ ان سرمچاروں کو فوج کے سامنے اپنی بندوقیں پھینک دینے کا احمقانہ حکم دیتے ہیں جن کے ہیروز نے جدید بندوقوں سے لیس لشکر کے سامنے اپنی تلواریں پھینکنے سے انکار کیاتھا
کہتے ہیں کہ جب نورا مینگل کو دودکی پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ اپنے 21 ساتھیوں سمیت شدید بارش میں گاج سے وڈھ تک پورے 50 میل کا سفر پیدل طے کرکے ایک تنگ پہاڑی مقام پر اپنے ساتھیوں سمیت گھات لگاکر حملہ آور لشکر کی واپسی کا انتظار کرنے لگا نورا مینگل کے اس گوریلا دستہ میں صرف نورا مینگل اور میر خان محمد گرگناڑی کے پاس برطانوی ساختہ بندوق تھے پانچ ساتھیوں کے پاس تلواریں اور باقیوں کے پاس مقامی ساختہ ڈھاڈری بندوق تھے جن کی بارود بارش کے باعث نم ہوکر آگ پکڑنے کے قابل نہیں رہے تھے جب انگریزی لشکر دودکی اور قریبی پہاڑی گاؤں کو تاراج کرنے کے بعد اس تنگ مقام پر پہنچا تو نورا مینگل اور اور خان محمد گرگناڑی نے نشانہ بازی کے ایسے جوہر دکھائے کہ دو انگریز کپتانوں اور رسالہ جمعدار سمیت ایک سو سے زائد حملہ آور لقمۂ اجل بن گئے اور ان کا لشکر تتر بتر ہوگیا۔


دودکی کے معرکہ میں نورا مینگل کو خان محمد گرگناڑی جیسے بلند حوصلہ سرمچار کا ساتھ حاصل تھا تو پروم کے تاریخی معرکہ میں سرمچار میجر نورا بلوچ کو لیفٹیننٹ نواز بلوچ عرف گلاب جیسے باہمت و بہادر سرمچار کا ساتھ میسر تھا جس نے میجر نورا عرف پیرک اور دوسرے سرمچار ساتھیوں کی شہادت کے بعد گھنٹوں تن تنہا لڑتے ہوئے دشمن کو نزدیک پھٹکنے نہیں دیا اور اس سخت گھڑی میں بھی اپنے صوتی پیغام کے ذریعے اپنے دوستوں کو سلام بھیجااور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جانے اور انجانے میں سرزد ہونے والے غلطیوں کے لئے معافی طلب کی۔ کثیرالتعداد دشمن کے زمینی دستے نہ تو اسے پکڑ سکے اور نہ مار سکے آخرکار گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شیلنگ کرکے نواز جان کو شہید کردیا۔


ڈیہو ( کرنل ڈیوڈ) نے جہلاوان کا چپہ چپہ چھان مارا مگر نہ تو وہ نورا مینگل کو پکڑ سکا اور نہ مار سکا لیکن ایک غدار بلوچ سردار نواب حبیب اللّہ نوشیروانی نے نورا کے ساتھ وشواس گھات کرتے ہوئے اسے اپنے کارندوں کے ذریعے اس وقت قابو کرکے گرفتار کیا جب نورا مینگل گہری نیند سورہاتھا نورا مینگل اپنے بندوق کی مرمت کیلئے خاران گیا تھا کیونکہ نواب حبیب اللّہ اس کا دیرینہ شناسا تھا نواب نے اپنے انگریز آقاؤں کو خوش کرنے اور ان سے انعامات و اعزازات حاصل کرنے کے لئے نورا مینگل کو گرفتار کرکے ان کے حوالہ کیا تھا اسی طرح سرمچار میجر نورا کی مخبری بھی نواب حبیب اللّہ جیسے بےضمیر غداروں نے کر کے دشمن کو اس کے ٹھکانے پر لائے تھے مگر میجر نورا بے خبر سویا نہیں تھا اس لئے وہ زندہ حالت میں پاکستان آرمی جیسے غیر مہذب اور وحشی دشمن کے ہاتھ نہیں آیا بلکہ دشمن کو تاریخی سبق سکھا کر خود تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا۔


سرمچار میجر نورا بلوچ عرف پیرک نے اپنے نام کا لاج رکھ لیا۔ اس نے بلوچ تاریخ حریت کے چمکتے ستارے "نورا” نام کو اپنے خون سے نئی درخشندگی عنایت کی۔

.-

رحیم بلوچ ایڈوکیٹ بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے سابق سیکریٹری جنرل،بی ایس او کے سابق چئیرمین اور بلوچ دانشور ہیں۔

@RahimBalochh

وہ اس ٹیوٹر ہینڈل سے ٹیوٹ کرتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment