نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے شہید نواب اکبر بگٹی کی 17 ویں برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تراتانی کے پہاڑوں میں جسمانی طور پر نواب اکبر خان بگٹی کو ہم سے جدا تو کیا لیکن وہ بھول گئے کہ نواب اکبر خان بگٹی ایک شخصیت یا صرف قبائلی سردار نہیں بلکہ وہ ایک ایسی قوم کے سیاسی رہنما تھے، جس کے سرشت میں مزاحمت پنہاں ہے۔ آج بلوچ قوم کے پیرو جواں، خواتین اور نئی نسل اس بات کو کبھی بھی نہیں بھلا سکتے کہ 79 سالہ بزرگ رہنما نے بیماری اور پیری کے باوجود اپنی سرزمین کے دفاع اور قومی نجات کی خاطر مزاحمت کے راستے کا انتخاب کیا۔ میدان جنگ میں نہایت دلیری کے ساتھ طاقتور دشمن کے جدید اور بھاری ہتھیاروں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ بلوچ تاریخ میں یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں لیکن بے مثال ضرور ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ آج جس طرح بلوچ وسائل کا کھلے عام اور خفیہ معاہدوں کے تحت سودا لگانے، منصوبے کے تحت بلوچ ترقی کو روکنے، چادر و چار دیوالی کو پامال کرنے، آئے دن جبری گمشدگیوں میں اضافہ، ڈیتھ اسکواڈ قائم کر کے امن و امان خراب کرنے، منشیات فروشی کو فروغ دینے، مذہبی شدت پسند کو بڑھانے، قبائلی تنازعات پیدا کرنے، ٹارگٹ کلنگ اور مقابلوں کے نام پر ڈرامائی قتل کرنے اور ان جیسے بے شمار ہتھکنڈوں کے تحت بلوچ نسل کشی کی جارہی ہے، بلوچ تاریخی ہیروز، روایات، ثقافت، زبان سمیت بلوچ قومی بقا کو خطرے سے دوچار کیا جارہا ہے، جس کا مقابلہ نواب اکبر خان بگٹی کے نقش قدم پر چل کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ شہید نواب بگٹی نے بلوچوں پر واضح کردیا تھا کہ اگر وہ متحد نہیں ہوتے تو انکو اپنے پرکھوں کی سرزمین پر ریڈ انڈینز بنا دیا جائے گا۔
انہوں نے بلوچ قوم کے سامنے سنگل بلوچ پارٹی کی تجویز بھی رکھی لیکن تاسف کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن کے مظالم میں اضافہ ہورہا ہے، اب تو بچوں اور خواتین کو بھی جبراً اغواءکرنے کا سلسلہ جاری ہے اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ اقدار اور بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ پر ضربیں لگائی جارہی ہیں۔ دوسری جانب بلوچوں کی زبانوں سمیت کلچر اور قومی تشخص کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کوئی ایسا دن یا ہفتہ نہیں جاتا کہ بلوچ نوجوانوں کو جبری اغواءیا مسخ شدہ لاشوں کے تحفے بلوچ قوم کو نہیں ملتے۔
اس مظالم کے باوجود بلوچ اشرافیہ، بیورو کریسی، پارلیمانی سیاسی جماعتیں اسلام آباد کے بغل بچے کے کردار ادا کرنے پر شرمندہ ہونے کے باوجود اس پر اتراتے ہیں، بلوچ سیاسی رہنماؤں، نام نہاد ادیب اور شاعروں بیورو کریسی، ڈیتھ سکواڈ چلانے والوں کو یاد رکھنا چائیے کہ آج وہ سب الف ننگے ہوچکے ہیں، تاریخ انکو معاف نہیں کرے گی اور انہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ جونہی انکی ضرورت پوری ہوئی تو انکے آقا خود ہی انکو سبق سکھائیں گے، جیسے کہ پہلے بہت سے اوروں کو بھی سکھایا گیا۔ دوسری جانب متوازی خطوط پر بلوچ قومی تحریک کا سفر جاری ہے جو شہید نواب بگٹی اور دیگر امر بلوچ رہنماؤں کی تقلید میں ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔
نواب بگٹی کو شہید کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نواب کی شہادت سے تحریک ختم ہوجائے گی۔لیکن اس کے برعکس ہوا، آج نہ صرف پوری بلوچ قوم، مزاحمتی تحریک کی پشت پر کھڑی ہے بلکہ گھریلو خواتین کی بھی اسے حمایت حاصل ہے نوجوان پڑھا لکھا بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچ نسل کشی کو جذباتی ہونے کی بجائے سیاسی شعور کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، اس تمام صورت حال اور بلوچ قوم میں شعوری بیداری کے لئے نواب بگٹی نے اپنا لہو دیکر بلوچ قومی تحریک کو ایک سو سال تک کا ایندھن فراہم کیا۔