شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔4
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن
”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)
(چوتھی قسط) 4
دیارِ غیر:۔
سیکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ 1981ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کراچی گئے۔ آپ نے سندھ مسلم کالج کراچی میں داخلہ لیا۔جہاں آپ نے ایف ایس سی کی کلاس لینا شروع کیا۔یہاں آپ کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ اس بڑے شہر میں جہاں کا تعلیمی نظام بھی بلوچستان کے کسی بھی علاقے کے تعلیمی ادارے سے بہتر تھا اور اس وقت کراچی سیاست کے حوالے سے بھی ایک اہم مقام رکھتا تھا۔ جہاں سیاسی میدان میں بڑے بڑے نام تھے اور بی ایس او کے اکثر مرکزی دوستوں کا یہاں آنا جانا معمول کی بات تھی۔یہ سنہری موقع جو آپ کے ہاتھ آیا تھا آپ اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ کیونکہ آپ کو اس بات کا ادراک تھا کہ ایک بہترین سیاسی زندگی کا دارمدار دورِطالب علمی کے انہی چند سالوں میں پوشیدہ ہے جہاں مستقبل کا ایک بہترین سیاسی کارکن اپنا سیاسی اپروچ بہتر بناسکتا ہے۔انہی باتوں کو مدِ نظر رکھ کر آپ نہ صرف بی ایس او کے مرکزی اور دیگر سیاسی علم رکھنے والے دوستوں سے استفادہ کرتے رہے بلکہ سیاست کے اس میدان میں آپ نے ترقی کے لیے دیگر سیاسی تنظیموں کے کارکنان کے ساتھ بھی بہتر روابط رکھنا شروع کیا۔ جن کے علم اور تجربے سے آپ مستفیدہوتے رہے۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ سیاسی علم رکھنے کی وجہ سے آپ نے بی ایس او عوامی کو کراچی کے دوستوں کے ساتھ مل کر فعال ومتحریک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اپنی محنت اور سیاسی علم رکھنے کی وجہ سے آپ (شہید غلام محمد) نے بہت جلد کراچی کے دوستوں کا اعتماد حاصل کرلیا جس کی وجہ سے آپ1982ء میں کراچی زون کے جنرل سیکر ٹری منتخب ہوئے۔ بحیثیت ایک زونل رہنماء آپ کی کارکردگی کافی متاثر کن رہی جہاں آپ اور آپ کے کابینہ کے دوستوں کی محنت کی وجہ سے کراچی زون میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک متحرک قوت بن کے ابھری۔
جنرل سکیرٹری منتخب ہونے کے بعدآپ کوکراچی میں کارنرمٹینگز،سٹڈی سرکلز، جلسے جلوس اور قومی شعور و آگاہی کے دیگرپروگراموں میں نہ صرف شرکت بلکہ عملی طور پرحصہ داری کا موقع بھی ملا جہاں آپ نے خود کو مقرر اور سہولت کار کی حیثیت سے منوالیا۔جس نے آپ کے اعتماد کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کراچی کی سیاست نے آپ کی زندگی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ قومی سطح پہ سیاست کرنے کے لیے اس شہر کی سیاست کا آپ کی آنے والی زندگی میں سب سے اہم کردار رہا ہے۔جہاں بڑی محفلوں میں جگہ بنا کے آپ نے اپنی صلا حیتوں سے قوم کا اعتماد حاصل کرلیا،یہی اعتماد تھا جس نے آنے والے چند سالوں میں آپ کو ایک عظیم ہستی کاروپ عطاء کیا۔
بی ایس او کا نضمام:۔
کراچی جو کہ قابض ریاست کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل شہر ہے اورجہاں آج بھی دوسری بڑی آبادی بلوچوں کی ہے۔ لہذا آپ کی خواہش تھی کہ کراچی جو کہ بلوچ سیاست کے حوالے سے اہم کردار کا حامل شہر ہے یہاں بسنے والے لاکھوں بلوچوں کو بلوچ قومی جدوجہد کے لیے تیار کرنا بلوچ سیاست میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔
ضیاء کے دورِ حکومت میں آپ نے یہ محسوس کیا تھا کہ بلوچوں پہ ایک اور جنگ مسلط ہورہی ہے اگر نہ بھی ہو تو اآزادی کے لیے جدوجہد بلوچ اپنی منشاء سے کرینگے۔ اس لیے آپ نے آنے والے دنوں کا رخ قومی مفادات اور یکجہتی کی جانب موڑنے کے لیے دن رات ایک کرکے سیاسی موبلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے۔ اور بی ایس او کی منتشرقوت کو ایک بار پھر نئے سرے سے یکجاہ کرنے کی کوششوں میں شہید فدا احمد بلوچ اور دوسرے سنیئر دوستوں کے اس سفر میں ہمراہ داری کی۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جو1967ء میں وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد نام نہاد بلوچ قوم پرستی کے دعویداروں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ان نام نہاد قوم پرستوں نے بلوچ طلباء تنظیم کو تقسیم کرکے بلوچ سیاست میں انتشار پیدا کرکے تقسیم درتقسیم کی ا بتداء کی تھی جس کی جھلک ہم آج تک دیکھ رہے ہیں۔
شہید فدا احمد اور اس کے دوستوں کی محنت کی بدولت بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکن1984ء میں ایک ہی پلیٹ فارم پہ متحد ہوگئے۔ 1984ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے انضمام کے بعد اسی سال تنظیم کے قومی کونسل سیشن کا انعقاد ہوا۔بلوچوں کے لیے یہ ایک تاریخی کامیابی تھی جس کاسہرا بلوچ طلباء تنظیم کے اس وقت کی لیڈر شپ کے سر جاتا ہے۔ اس پروقار قومی کونسل سیشن کی صدارت شہید کامریڈ فدا جان کررہے تھے۔جبکہ مہما ں خاص عظیم بلوچ گوریلہ کمانڈر جنرل شیروف مری تھے۔ اس کونسل سیشن میں آپ (شہید غلامحمد) سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔1984ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اس عظیم قومی کونسل سیشن کے بعد آپ غلام محمدشہید کوبلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سندھ کا صوبائی صدر منتخب کیاگیا۔ آپ نے صوبائی صدر کے فرائض سنبھالتے ہی تنظیم کو مذید متحریک اور مستحکم کرنے میں سر گرم ہوگئے۔اس دوران آپ نے تمام قوم پرست طلباء تنظیموں کے ساتھ روابط رکھے۔جن میں سندھی قوم پرست،فلسطینی،ظفاری طلباء اور دیگرتنظیمیں شامل تھیں ان تنظیموں کے ساتھ اپنی تنظیم کا مضبوط رشتہ جوڑا۔ان تنظیموں کے ساتھ بہتر روابط رکھنے کی وجہ سے تجربات کے تبادلے کاعمل جاری رہا جس نے آپ کے نیشلزم کے نظریے کو مزید فروغ دیا۔
آپکی یہ خواہش تھی کہ بلوچ تحریک میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہراول دستے کا کردار ادا کرے اور اس کا مشعل، ستارہ والا جھنڈا سب نمایاں نظر آ جائے۔اسی لیے آپ شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے دوستوں کی ہمراہی میں بلوچ قومی حق حوداراریت کے فلسفے کو اپنا نسب العیں بناکر بلوچ جدوجہداور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کواندرونِ، سندھ کراچی اور بلوچستان میں ایک منظم سیاسی تنظیم کی شکل دینے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پہ بھی تنظیم کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آپ کو شاعری کے ساتھ گلوکاری کا شوق بھی تھا جسے پورا کرنے کے لیے آپ نے اپنی تعلیم اور سیاست کے ساتھ ساتھ کراچی میں اکثر بلوچ گلوکاروں استادشفع بلوچ، استاد ستار بلوچ اور استاد امام بخش مستانہ کے کلبوں میں جاکر ان حضرات سے موسیقی کی تربیت لیتے تھے جس طرح قدرت نے سیاست اور شاعری میں مہارت بخشا تھا آپ کی گلوکاری بھی آپ کی مسرور آواز کی وجہ سے کافی متاثر کن تھا۔ اس عمر میں ایک بہترین مقرر شاعر اور گلوکار ہونے کے ساتھ اچھے ادیب بھی تھے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ ایک اچھے رہنماء تصور کیے جاتے تھے۔
پہلی گرفتاری:۔
ضیاء دور کے ظلم وبربریت میں آپ پہلی مرتبہ اس وقت گرفتار ہوئے جب1984ء میں ضیاء مارشل لاء کیخلاف چاکیواڑہ کراچی میں کا جلسہ ہورہا تھا۔جلسے پر کراچی پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا تو آپ شہیدغلام محمد بلوچ کو غوث بخش بیزنجو کے ساتھ گرفتار کرکے کراچی کے الگ الگ جیلوں میں ڈالا گیا۔ بیزنجو کوپرو پاکستانی ہونے کے ناطے جیل میں تکالیف سے مبراء سمجھاگیالیکن آپ شہید کو جیل میں انتہائی سخت حالات میں رکھاگیا جہاں آپ کو بد ترین تشددکا نشانہ بنایا گیا۔حکومتی اداروں کے تشدد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی گرفتاری کے دوران ہونے والے تشدد کے یہ نشانات شہادت تک آپ کے جسم پر نقش تھے۔تشدد کے انہی نشانات کی وجہ سے آپ کی لاش کی شناخت ممکن ہوئی جو کہ انتہائی مسخ حالت میں تھی۔ قید و بند کے ایک ہفتے بعد سخت تنظیمی اور عوامی ردِعمل اور احتجاج کی وجہ سے کراچی پویس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو آپ کو مجبوراًرہا کرنا پڑا۔
کہتے ہیں کہ کسی سیاسی کارکن کے لیے دوسرا تعلیمی ادارہ جہاں اسے اپنی قدر و قیمت احساس ہوتا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں اور دشمن کے اصل عزائم کو دیکھ کے ان کے بارے میں سیکھتا ہے وہ دشمن کے عقوبت خانے ہیں۔ آپ بھی اس پہلی گرفتاری میں جہاں آپ اذیت ناک تشد د کا شکار ہوئے تھے۔بجائے آپ کے حوصلے پست کرنے کے آپ کو بلوچ قومی آزادی کے لیے مزید اکسایا۔جس کے بعد آپ نے منزل کے حصول کے لیے کوششیں مزیددتیز کردی۔آپ نے دشمن کا درندہ صفت روپ عملی طور پہ اب جا کے دیکھا تھا، اس کے اصل عزائم کا نظارہ اب جا کے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ آخر وقت تک بلوچ قومی تحریک سے نہ صرف منسلک رہے بلکہ اس تحریک کو ایسے خطوط پہ استوار کیا جہاں شکست دشمن کا مقدر بنے گی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تشدد اور بربریت روک نہ سکا اور نہ آپ کی وہ خواہش پوری ہورہی تھی جو آپ بچپن سے دل میں لیے بیٹھے تھے کہ بلوچ جہدِ آزادی کی جدوجہد شروع ہوجائے۔ ہر طرف بلوچ قوم پرستی کے دعویداروں پہ سکوت طاری تھا۔ جس سے آپ کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اب ان نام نہاد لیڈران سے کچھ حاصل نہیں ہوگا لیکن آپ نے امید کا دامن تھامے رکھا۔ اسی امید پہ کہ ایک دن بلوچ اپنی آزادی کے لیے عملی تحریک ضرور چلائیں گے،اور اس میں ہراول دستے کا کردار بلوچ نوجوان ہی ادا کرینگے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو مستحکم بنیادوں پہ اور مسلسل جدوجہد کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی جہاں بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے نوجوانوں کی اپنی پہچان بنانے کے لیے انہیں ہر گلی، کوچہ اور گدانوں تک رسائی حاصل کرنے کا درس دیتے رہیں تا کہ بلوچ قوم آنے والے دنوں کے لیے ذہنی طور پہ تیار رہیں۔
شہید غلام محمد سے اکثر میری خط و کتابت ہوتی تھی اور جب میں چھٹی پہ گھر آجاتا تو شہید سے ملنے ضرور چلاجاتا یا کبھی کبھار شہید گھر آجاتا۔ تواس دوران شہید کی باتیں ہمیشہ بلوچ سیاست کے گردگھومتی اور وہ پر امید کھائی دیتا کہ آنے والے دنوں میں بلوچ اپنی آزادی کے لیے عمل کا راستہ ضرور اختیار کرینگے۔ شہید کی اس سوچ سے روح کو سکون ملتا تھا اورہمیشہ غلامی کی ان زنجیروں کو یاد کرتا اور خود سے اکثر یہ کہتا کہ میں تو سیاست نہ کرسکا مگر آپ آپنے عمل سے ضرور ایسا کارنامہ سرانجام دوگے جس پہ بلوچ ہمیشہ نازاں ہونگے اور محکوم قوموں کی تاریخ میں آپ کے کارنامے ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھے جائیں گے۔
یہاں رہتے ہوئے میں ہر وقت اخباروں میں آپکے لکھے ہوئے باحوصلہ اخباری بیانات پڑھاکرتا تھا اور آپ کے انقلابی اشعار سنتاتھا۔تو مجھے بے حد فخر محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک ایسے نڈر اور انقلابی صفت کے عامل انسان کا بھائی ہوں جو وطن اور قوم کے لیے اپنی زندگی، اپنی خوشیاں اور اپنی خواہشات سب کچھ داؤ پہ لگا چکا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہورہاتھا کہ غلام محمد مستقبل میں اپنے انقلابی عمل اور کردار کی وجہ سے دنیا کے تمام محکوموں کے لیے ایک مثال بن جائے گا۔
1985ء میں آپ نے سندھ مسلم کالج کراچی سے گریجویشن کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔کراچی سے شال کا سفر ایک اچھی پیش رفت تھی کیونکہ اب آپ اپنے مقبوضہ وطن میں تھے جہاں آپ کے لیے اپنے قوم کی حالت دیکھنا،ان سے ملنا، انہیں سننا اور ان کے درد کو شدت کے ساتھ محسوس کرنا آسان ہوگیا تھا۔حالانکہ اس وقت تک آپ سندھ کے صوبائی صدر تھے۔ لیکن بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد آپ نے سندھ کی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے علاقوں میں بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مرکزی کونسل سیشن اور مرکزی ذمہ داریاں:۔
1986ء میں بی ایس او کا آٹھواں مرکزی کونسل سیشن منعقد ہوا۔ اس کونسل سیشن میں ڈاکٹریٰسین مرکزی چیئرمین،کہور خان سنیئروائس چیئرمین اور آپ(شہیدغلام محمد) جونیئروائس چیئرمین منتحب ہوئے۔ کونسل سیشن کے بعد بلوچ قومی سیاسی پارٹی کے مسئلے پر تنظیم کے موجودہ قائدین اور تنظیم سے فارغ التحصیل دوستوں نے بلوچ قوم پرست لیڈرو ں اور رہنماوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے اورایک بلوچ قومی سیاسی پارٹی تشکیل دینے کا مثبت فیصلہ کرکے بلوچ قوم کو ایک نظریاتی پلیٹ فارم فراہم کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ جہاں اس کے بعد باقائدہ پریس کانفرنس کرکے ان دوستوں نے اپنی اس خواہش کے اظہار کو بلوچ قوم تک پہنچایا۔اس کے بعد پارٹی کی تشکیل میں شہید کامریڈ فد احمد بلوچ اوردیگر چند ایک رہنماؤں کے ساتھ آپ (شہیدچیئرمین) نے اہم کردار ادا کیا۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پھر تقسیم:۔
اس وقت بلوچستان میں ایسی کوئی بلوچ سیاسی قوم پرست نظریاتی جماعت موجود نہیں تھی جو بلوچ قومی سوال اور بلوچستان کی آزادی کی بنیاد پر سیاست کرکے قوم کی ترجمانی کرسکے۔بلوچ قومی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعدچھوٹی موٹی نوکریوں کے چکر میں پڑھتے تھے یا اگر کسی کو سیات کا شوق ہوتا تو وہ غیر بلوچ اور پاکستان نواز پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتا جس سے ان کا اور ان کی صلاحیتوں کا ضیاع ہوتا اور ان کی وہ سوچ جو انہیں بلوچ طلباء تنظیم نے دی تھی اسے وقت و حالات دیمک کی طرح چھاٹتے تھے۔
بلوچ نوجوانوں کوان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے بلوچ قوم کو ایک قومی سیاسی پارٹی کی ضرورت تھی بلکہ یہ ضرورت تو اس سے بہت پہلے تھی۔اگر ایک منظم بلوچ قومی پارٹی کا وجود ہوتاتو پاکستان کو بلوچستان پہ قبضہ کرنے اور اس قبضہ کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا، اگر قومی پارٹی کا وجود ہوتا تو پاکستان کا ان تحریکوں کو جو بلوچوں نے ماضی میں چلائی تھی انہیں یوں کچل نہیں سکتا۔غیر سیاسی یا سیاسی جماعت کے بغیر جدوجہد یقیناً بلوچوں کے لیے ایک المیہ سے کم نہیں۔ ماضی میں بلوچ رہبروں نے شعوری یا لا شعوری بنیاد پہ اس سوچ کو پروان نہیں چڑھایا۔جس کا نقصان ہم ہردور میں دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اسی سوچ کو جس میں بلوچ قوم کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیاء کرنا تھا شہید فداحمد بلوچ اور ان کے دیگر نظریاتی دوستوں کی سوچ تھی جسے بعد میں عملی جامہ بھی پہنایا گیا۔
اس قومی ضروت کو مدِ نظر رکھ کر شہید فداحمد بلوچ اور اس کے نظریاتی دوستوں نے جن میں شہید غلام محمد کا نام قابلِ ذکر ہے قومی سیاسی پارٹی تشکیل دینے کی کو شش کی۔مگراس ضمن میں منعقد ہونے والے کانفرنس میں کہورخان اوراس کے حواریوں نے یہ کہہ کرمخالفت شروع کردیا کہ سرداروں، نوابوں سے مل کرسیاست کرنا بلوچ قومی نظریہ اوربلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پروگرام سے انحراف ہے۔حالانکہ قومی پارٹی کے حوالے سے شہید فدا احمد بلوچ اور دیگر دوستوں کو بھی ان سرداروں میں ماسوئے نواب خیر بخش مری کے کسی اور پہ اعتماد نہیں تھا اور نہ ان کی یہ کوشش تھی کہ یہ نام نہاد بلوچ قومی پارٹی کو اپنے مفادت کی تکمیل کے لیے استعمال کریں۔
کہور خان کی سوچ کے برعکس بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بیشتر قائدین جن میں شہید غلا محمد بلوچ کا نام سرِفہرست ہے نے شہید کامریڈ فدا احمد بلوچ کے قومی پارٹی کی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے دیگر دوسرے سنئیر دوستوں کے ساتھ مل کر بلوچ قومی لیڈران کو ایک پلیٹ فارم پرمتحد کرنے کے لیے دن رات کوشش کی اور اس عمل کو جس میں قوم کی بقاء وابستہ تھی عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد جاری رکھا۔
اسی سال یعنی1986ء میں آپ نے شادی کرلی۔ لیکن چند روز گھر میں قیام کرنے کے بعد آپ کی سوچ اور نظریے نے آپ کو پھر سیاسی میدان کا رخ کرنے پہ مجبور کیا۔یہ آپ کی پہلی شادی تھی جس سے آپ کے دو بیٹے محمد ایوب اور بالاچ جبکہ ایک بیٹی مہرجان ہے۔
رفتہ رفتہ کہور ٹولے کے اختلافات مزید بڑھتے گئے۔جس سے بلوچ سماج میں مایوسی کے آثار نظر آنے لگے اور ایک بار پھربلوچ طلباء تنظیم کے منقسم ہونیکا اندیشہ پیداہونے لگا۔
ان حالات میں آپ (شہید غلام محمد)اور کامریڈ فدا جان ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہوگئے اور تنظیم کے تناوردرخت کوکاٹنے کی ان سازشوں کوناکام بنانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ تنظیم کے اس وقت کے سینئروائس چیئرمین کہور خان اور اس کے ساتھ شامل چند سازشی عناصرنے تنظیم کے بٹوارے کا چونکہ مصمم ارادہ کرچکے تھے اور اس حوالے سے وہ قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کے اپنے اس مکروہ چال کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور یوں چند ایک نا عاقبت اندیش عناصر کی وجہ سے بلوچ سٹوڈنٹس اڑگنائزیشن1987ء میں ایک بار پھر سے منقسم ہوا۔
پاکستانی ریاست نے تو روزِ اول سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ارادے جان کر نوجوانوں کی اس تنظیم سے خائف تھا اور اس حوالے سے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت کے ریاستی فوجی جنرل رحیم الدین جو مقبوضہ بلوچستان کاگورنرتھا۔تو اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ” 1986ء87ء میں بلوچ نوجوانوں کی اس تنظیم کے وجود کو ختم نہ کرسکا تو میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشنکا ممبر بنونگا”۔اس کا یہ بیان اس زمانے کے اخبار روزنامہ تکبیر سمیت دیگر اخباروں میں شائع ہوا تھا۔
جنرل رحیم الدین بلوچ طلباء تنظیم کے وجود اور نظریہ کو تو ختم کر نہ سکا مگر نا عاقبت اندیش عناصرکے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کی مضبوط قوت کو تقسیم کرنے میں ضرور کامیاب ہوگیا جس کاگناہ اس وقت کے بلوچ طلباء جن میں ڈاکٹر کہور خان، رازق اور جالب سر فہرست تھے کے سر جاتا ہے۔یوں ریاستی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کہور خان نے1987ء میں اپنا الگ گروپ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(سہب) کے نام سے بنا کر،میں سمجھتا ہوں انہوں نے بلوچ قوم خاص کرنوجوانوں میں انتشاری سیاست کو پروان چڑھایا۔
جاری ہے