سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
آج کل شہ سرخیوں میں کورونا وائرس ہے جس کا پہلا تصدیق شدہ کیس31دسمبر2019ء کو چین کے شہر ووہان میں ہوا۔ اس کے بعد تو اس وائرس نے ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرلی۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق دو سو سے زائدممالک میں یہ وباء تباہ کاریاں پھیلارہی ہے۔جس کی زد میں اب تک بارہ لاکھ سے زائد افراد آچکے ہیں جن میں سے 65000سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔جانی نقصانات کے علاوہ اس وباء نے دنیا کی سماجی اور اقتصادی زندگی بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس وباء کی روک تھام اور احتیاطی تدابیر کا جائزہ لیتے ہیں تو پوری دنیا میں آج کرفیو کا سماں ہے۔اسی لاک ڈاؤن نے ہی معاشرتی اور اقتصادی زندگی کو آج داؤ پہ لگا دیا ہے۔اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ترقی پذیر ممالک کے وہ باشندے ہیں جن کا گزر اوقات روزانہ کی بنیاد پہ کام کرنے پہ ہوتا ہے۔ ایک جانب اس وباء (کورونا) نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے لیکن دوسری جانب پاکستانی ریاست بلوچوں کی نسل کشی میں شدت لاچکا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایسے حالات میں دنیا سے جنگ بندی کی اپیل بھی کی ہے لیکن پاکستان جو کہ ہمہ وقت عالمی جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اب کے بار بھی انہوں نے اقوام متحدہ کی اپیل کو خاطر میں لائے بغیر اپنی بربریت نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اس میں مزید شدت لاچکا ہے۔
کورونا
(corona)
لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام "کورونا وائرس” رکھا گیا ہے۔کورونا وائرس) Coronavirus) ایک وائرس گروپ ہے جس کے جینوم کی مقدار تقریباً 26 سے 32 زوج قواعد تک ہوتی ہے۔یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، مثلاً: گائے اور خنزیر کے لیے اسہال کا باعث ہے، اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ عموماً اس کے اثرات معمولی اور خفیف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لیے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ کورونا وائرس، جسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا ہے،اس سے مراد 2019 میں کرونا وائرس انفیکشن سے پیدا ہونے والا نمونیا ہے۔
سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960 ء کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا گیا تھا، اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔لیکن موجودہ وائرس جسے کوڈ19کہا جاتا ہے گزشتہ عرصے میں رونما ہونے والے وائرس سے زیادہ خطرناک تصور کیا جارہا ہے۔اسی لیے اس وائرس سے ہونے والے نقصانات کے سبب عالمی ادارہ صحت
(WHO)
نے اسے ایک عالمی وباء قرار دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ نامزد کردہ
NCovid
-2019 نامی کورونا وائرس کی ایک نئی وبا 31 دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں عام ہوئی۔کہا جا رہا ہے کہ نومبر میں کورونا کے کیس سامنے آ نے لگے۔
جو آہستہ آہستہ وبائی شکل اختیار کر گیا۔ یہ وائرس اس لیے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان کے درمیان میں تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس وائرس کے سبب سے پہلے یعنی25 جنوری 2020 ء کو چین کے 13 شہروں میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے یعنی اس وباء کی تصدیق کے دو ہفتوں بعد دنیا کی سب بڑی آبادی رکھنے والے ملک کے 13شہروں میں ہنگامی صورتحال نافذ کی گئی۔ جبکہ آج یہ بیماری قریباً پوری دنیا میں پھیل چکی ہے جس کی زد میں دنیا کے دو سو سے زائدممالک کے بارہ لاکھ سے زائد افراد آچکے ہیں جن میں 65000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس وائرس کے سبب آج قریباً پوری دنیا میں لاک ڈاؤن جبکہ بعض ممالک میں نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ انہوں نے کرفیونافذ کردی ہے جس سے معاشرتی زندگی کے ساتھ عالمی اقتصادیات بری طرح متاثر ہورہی ہے، اور اس کے اثرات آنے والے دنوں میں پوری دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ سماجی اور اقتصادی زندگی کے ساتھ ساتھ اس وباء نے نفسیاتی الجھنیں بھی پیدا کی ہیں جو یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔
اس خطرناک وائرس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ معاشی جنگ کا حصہ ہے اور اس وائرس کو چین میں تیار کیا جارہا تھا
تاکہ اس کا ویکسن بھی تیار کیا جا سکے مگر اس کی مکمل ویکسن کی تیاری سے قبل یہ وائرس کسی وجہ سے باہر پھیل گیا،جبکہ کچھ لوگ اسے امریکہ کی پیداوار بھی بتاتے ہیں۔
چین کو لے کر اگر اس وائرس کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو رپورٹس کے مطابق2019 کے درمیانی مہینوں میں ایک چینی
ڈاکٹر نے اس بارے بات کی اور اس وائرس کی خطرناک حد تک پھیلنے کی پیش گوئی کی جس پر چینی سرکار نے اسے جیل میں ڈال دیا اور پھر گزشتہ ماہ وہ ڈاکٹر اسی وبا کورونا کی زد میں آیا یا لایا گیا جس سے اسکی موت ہوئی،اس طرح اس وائرس کے پھیلنے سے قبل ایک چینی صحافی نے اس حوالے مقامی میڈیا میں اس بارے ایک رپورٹ لکھا جسکے بعد اسے گرفتار کیا گیا۔ یہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس وائرس کے ذریعے چین دنیا کی معیشت پر حکمرانی کے لیے شاید اس وائرس کو پھیلانے اور اسکے بعد اسکی ویکسن بنانے کی پلاننگ میں تھا۔اگر باریک بینی سے اس مسئلے پر غور کیا جائے کہ جس طرح 23 جنوری کو اس وبا کے بڑی تعداد میں پھیلنے کا اعلان ہوا اور چین نے24 جنوری سے وہان شہر جو مرکز تھا کو لاک ڈاؤن کردیا۔ان دنوں کے رپورٹس کے مطابق وہان شہر کی آدھی سے زائد آبادی اس وائرس کا شکار ہو گئی،لیکن چین نے کیسے اور اتنی جلدی اس خطرناک مرض پر قابو پایا اور تمام آبادی کو بچانے کے ساتھ کس طرح یہ مرض چین کے کسی اور شہر میں پھیل نہ سکا،یقینا یہ توجہ طلب بحث ہے،کہا جا رہا ہے کہ اس وبا کی ابتدائی ویکسن چین نے پہلے ہی تیار کر لی تھی،اب یہ وائرس چین کے سوا دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتے ہوئے انسانی المیہ اورمعاشی بربادی کا ذریعہ بن رہی ہے۔
آج پوری دنیا جہاں لاک ڈاؤن سے عالمی معاشی صورتحال برباد ہو چکی ہے اور دنیا معاشی زبوں حالی کاشکار ہے،وہیں چین میں لاک ڈاؤن تقریبا ختم ہو چکی ہے اور اس وائرس کے نئے کیسز بھی سامنے نہ آنے کی وجہ سے چین کی منڈی نے ایک بار پھر سے کام شروع کردیا ہے اور اب دنیا چین کا محتاج بننے جا رہی ہے،اگر یہ سلسلہ مزید تین ماہ تک جاری رہا تو چین دنیا کی معیشت کا بے تاج بادشاہ بننے کے خواب کے قریب پہنچ جائے گا۔
یہ وائرس دنیا کی معاشی جنگ میں کسی ایٹم بم سے بھی زیادہ اثر انداز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس وباء کی شدت اور دنیا میں ایمرجنسی کی صورتحال کودیکھ کر گزشتہ گیارہ برسوں سے لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والی تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ،اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے ذریعے بتا یا کہ وہ حکومتی لاک ڈاؤن کے سبب اپنا احتجاج 4 اپریل تک موخر کررہے ہیں۔
اس وباء کے حوالے سے جب بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو بلوچستان میں حالات روز بروز سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ایک ایسا خطہ جو عہد غلامی میں ہو، ایسے لوگ جن کا معاشی زندگی زبوں حالی کا شکار ہو، ایک ایسا خطہ جو ریاستی بربریت کا شکار ہو وہاں اس وباء سے حالات مزید سنگین ہونگے۔ اس ضمن میں بعض قوم پرست حلقوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ قابض ریاست اس وباء کو بلوچ قوم کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پہ استعمال کرے گا۔قابض ریاست کے ہاتھوں بلوچوں کی نسل کشی کی جو داستانیں بلوچ سرزمین پہ رقم ہوئیں یا ہورہے ہیں انہیں دیکھ کر بھی یہ گمان کیا جاتا ہے کہ ریاست اس وباء کو بلوچوں کے خلاف استعمال کرے گی۔حالانکہ اس حوالے سے بلوچ قوم پرستوں نے عالمی اداروں سے آگاہی کے لیے اپیل بھی کی ہے کہ وہ ان گھمبیر حالات میں بلوچ کو اس وباء سے محفوظ رکھنے کے لیے کردار ادا کریں۔
ایسے گھمبیر حالات میں جہاں پوری دنیا آج ایک عالمی وباء کی لپیٹ میں آچکا ہے جس کی شدت دیکھ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان دنوں دنیا سے جنگ بندی کی اپیل کرنے پر مجبور ہوا، لیکن پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس غیر فطری ریاست نے کبھی بھی عالمی اصولوں کی پیروی نہیں کی بلکہ اس نے ہمیشہ ایسے حالات سے فائدہ اٹھا کرظلم و بربریت کو مزید ہوا دی ہے۔آج بھی جب ہم بلوچستان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پاکستان کے زیر قبضہ پورا خطہ پاکستانی بربریت کی زد میں ہے جہاں آئے روز آبادیوں پہ دھاوا بولنا، لوگوں کو جبری طور پہ لاپتہ کرنا، خواتین اور بچوں کو زد وکوب یا اکثر اوقات انہیں بھی لاپتہ کرکے بربریت کا شکار بنانا وغیرہ روز کا معمول بن چکا ہے۔