بلوچ طلبا کے حصول علم پرریاستی قدغن، جبری گمشدگیوں میں اضافہ | سنگر ماہانہ رپورٹ

0
655

ماہِ جون میں 60سے زائد فوجی آپریشنز میں 43افرادلاپتہ،23افرادقتل،105 گھرلوٹ مارونذر آتش

سنگر کا تجزیاتی رپورٹ چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

پاکستانی فورسز کی بلوچ سرزمین پر جارحیت جون کے مہینے میں بھی بدستور جاری رہی،جون2022 کے مہینے میں قابض ریاستی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں 60 سے زائد فوجی آپریشنز کیے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق فورسز نے دوران آپریشنز و چھاپوں میں 43 بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا۔
اسی مہینے فوجی جارحیت کے دوران70 سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو زدکوب و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ35 گھروں کو پاکستانی فوج نے نذر آتش کیا۔پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے 100 سے زائد مویشیاں مارے گئے۔
جون کے مہینے میں 23 نعشیں ملیں،9 لاشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے،دو لاشوں کی شناخت نہ ہو سکی،ایک شخص چمن میں فوجی فائرنگ سے ہلاک ہوا اور پاکستانی فورسز نے زیر حراست تین بلوچوں کو قتل کیا،جبکہ8 بلوچ سرمچار مادریں وطن کی دفاع میں شہید ہوئے۔
اسی سال مئی اور جون کے مہینے میں فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار بننے والے 17 افراد بازیاب ہوئے۔جبکہ پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج نے7 افراد کو جو فورسز نے اغوا کیے تھے سی ٹی ڈی اور پولیس کے حوالے کیے۔
مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے کچھ عرصوں سے بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگیوں اور حراست بعد لاپتہ کرنے میں تیزی واقع ہوا ہے،نہ صرف مقبوضہ بلوچستان بلکہ قابض ریاست کے دیگر علاقوں خاص کر پنجاب میں بلوچ طلباء کی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا میں تیزی سامنے آیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ علم،جہالت اور غلامی کی زنجیروں کو تھوڑنے سمیت سماجی یکجہتی کا نصب العین بھی ہے۔علم اور تربیت نہ ہوتے تو آج دنیا نے جو ترقی کی اور آج انسانیت کی بھلائی خدمت اور آسانیاں ہیں وہ کبھی ممکن نہ تھیں۔ علم اور نئے علوم کی خاطر دنیا کے لوگوں نے بہت قربانیاں دیں، جلاوطنیاں قید و بند جسمانی اور ذہنی سزاؤں اور سزا پانے والوں میں ہراول دستے کے عالم سقراط نے تو کمال کر دیا تھا۔ منصور نے پھانسی چڑھ کر اپنے آپکو امر کردیا تھا۔ رینسنس تحریک میں ادب فلسفہ تاریخ اکٹھے ہو کر لڑے تو یورپ کی تقدیر بدل دی۔ ترکی نے پانچ سالوں تک چھاپہ خانے جو کافر کرار دیکر اپنے قریب نہ آنے دیا نئے علوم کے مقابلے میں فرسودہ رواج اور تعلیم نے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا۔
غلامی اور معاشرتی برائیوں کے خلاف جنگ کے لیے علم سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ریاست نے علم دوست بلوچ نوجوانوں کو زندانوں میں رکھنے کی پالیسی کو وسعت دی ہے جو یقینا سامراج اور غلامانہ سوچ کی موت کا سبب بنے گا۔
آج مقبوضہ بلوچستان،جہاں بھی دنیا بھر میں بلوچ آباد ہیں قابض ریاست کی ان پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں،جس سماج اور خطے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں ایک کھوکھلا مذہبی سوچ کو سماج میں بدل دیا گیا ہے جو یقینا زندہ قوموں اور ایک بہترین سماجی تبدیلی پر قدفن ہے،ایسے میں بلوچ خواتین کا پیش پیش رہنا قومی جہد میں اول دستے کا کردار نبھانا بلوچ قوم کی روشن مستقبل کا ضامن ہے۔

یکم جون
۔۔۔بلوچستان کے علاقے چاغی میں گردی جنگل کے علاقے میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جبکہ دو افراد شدید زخمی ہوگئے۔ فائرنگ سے امین اللہ شیدائی سکنہ چاغی ہلاک ہوگئے اور دو افراد شدید زخمی ہو گئے۔ واقع کے محرکات سامنے نہ آسکے۔

2 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع خضدار میں بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباو طالبات نے احتجاجی ریلی نکالی۔پرامن ریلی سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اس ریلی کا مقصد دنیا کو اس غیرسنجیدگی اور ہونے والے کرپشن کو سب کے سامنے عیاں کرنا تھا۔ جب ہم ان مسائل کے حل کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ طلباکو ہراساں کرتے ہیں۔
۔۔۔ جمعرات کو کوئٹہ کے علا قے جناح رود ٹیکسی اسٹینڈ سے نا معلوم شخص کی نعش ملی ہے جسے شناخت کے لئے سول ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے گچک سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے شیر خوار بچہ سمیت دو خواتین اور دو مرد آج رہا ہوگئے۔بلوچ خاتون شاہ بی بی، ان کی بہو شہزادی اور شہزادی کے شیر خوار بچے کو رہا کر دیا گیا ہے۔اہل خانہ کے مطابق پاکستانی فوج کے اہلکار اپریل 2022 میں گچک، پنجگور سے دونوں خواتین اور بچے کو اٹھا کر لے گئے تھے۔
۔۔۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فورسز نے دس افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔لاپتہ کئے گئے افراد کو فورسز نے مشکے، حب چوکی اور کوئٹہ سے حراست میں لیا ہے۔
فورسز نے گذشتہ ہفتے بلوچستان کے علاقے مشکے سے ایک ہی جاندان کے چھ افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے جنکی شناخت خدا بخش، علی خان ولد خدا بخش، قادر ولد خدا بخش، ثناء اللہ، شبیر ولد ثناء اللہ اور حسن ولد ثناء اللہ ناموں سے ہوئی ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اپنے ایک بیان کہا ہے کہ دوست محمد ولد خدا بخش مری، محمد اسیمل ولد کریم خان مری کو 25 مئی 2022 کو نیوکاہان سے رات تین بجے اور 31 مئی کو ان ہی کے رشتہ دار منگل ولد غلام حیدر مری گلزار ولد علی مردا مری کو حب نادار بائی پاس سے اغوا کیا۔
۔۔ مستونگ سے چار مئی کو سماجی و فلاحی تنظیم المدد فاؤنڈیشن کے لاپتہ کارکن عرفان بنگلزئی بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔

3 جون
۔۔بلوچستان کے علاقے سبی کے علاقہ لیویز تھانہ لونی کی حدود میں نامعلوم مسلح افراد نے جدید اسلحہ سے فائرنگ کرکے ثنا اللہ ولد غلام محمد گولہ نامی شخص کو ہلاک کردیا۔ ہلاکت کی وجوہات معلوم نہ ہوسکی۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع آواران میں ایک اور بلوچ خاتون کو اغوا کرلیا گیا۔
ضلع آواران کی تحصیل مشکے کے علاقے تنک سے 28مئی 2022 کوریاستی حمایت یافتہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے نذیر ولد حضوربخش نے مالدار حکیم نامی شخص کے گھر میں گھس کر ان کے بہو کو جبراً اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اغواکی گئی خاتون مالدار حکیم کے بیٹے کی بیوی ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق اس سے قبل مذکورہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کارندہ مالدار حکیم کے گھر سے لاکھوں روپے نقدی پیسے اور دیگر قیمتی اشیا لوٹ کر فرار ہونے میں بھی ملوث تھے۔

4 جون
۔۔۔پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار قاضی نعمت اللہ نیچاری بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔قاضی نعمت اللہ نیچاری کورواں سال 2 جنوری کو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں نیچاری روڑ سے جبراً لاپتہ کیا گیا تھا۔
۔۔۔کوئٹہ کے سریاب لنک روڈ بادینی اسٹاپ کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ ہلاک شناخت جلال الدین ولد حاجی ابراہیم قوم رودینی سکنہ کیچی بیگ سریاب روڈ کے نام سے ہوئی ہے۔ وجوہات معلوم نہ ہو سکے۔

5 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل مشکے کے علاقے کھندڑی کے رہائشی عبدالغفور ولد بادین کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے حمایت یافتہ گروہ کے ایک مقامی کارندے شیرا ولد احمد نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر شدید تشدد کا نشانہ بنایاجس سے اس کے چہرے پر کافی چوٹیں آئیں جبکہ اس کاجبڑا اور دانتیں ٹوٹ گئیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع نوشکی اور قلات کے پہاڑی سلسلے میں پاکستان فوج کیجانب سے آپریشن کی جارہی ہے۔علاقائی ذرائع کے مطابق نوشکی کے پہاڑی سلسلوں دو سئے، منجرو، پاچناناور قلات شور پارود و گردنواح کے علاقوں میں فوجی آپریشن کی جارہی ہے۔

6 جون
۔۔۔ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے ایک طالب علم لاپتہ ہوگئے ہیں۔لاپتہ ہونے والے طالب علم کی شناخت عبداللہ ظہیر بلوچ کے نام سے ہوگئی ہے جو بلوچستان یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم بتائے جاتے ہیں۔

7 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں وشبود کے رہائشی پولیس ملازم باب جان کی جبری گمشدگی کیخلاف اہالیان وشبود اور لواحقین کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
۔۔۔بلوچستان کے مستونگ کے علاقے کردگاپ میں مل گرگنہ کے مقام پر نامعلوم افراد مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو ہلاک کردیا۔جس کی شناخت عبدالمنان سرپرہ ساکن مل گرگینہ کے نام سے ہوگئی۔ وجوہات سامنے نہ آ سکے۔
۔۔۔فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی کیخلاف راولپنڈی میں طلباکا احتجاجی مظاہرہ،پاکستا ن کے شہر راولپنڈی میں پیر مہر علی شاہ ائیریڈ ایگری کلچر یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کی جانب سے ساتھی طالب علم کی جبری گمشدگی و عدم بازیابی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔طلباء نے یونیورسٹی وائس چانسلر کی آفس کے سامنے دھرنا دیکر احتجاج پر بیٹھ گئے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع نوشکی میں دوسرے روز بھی پاکستان فوج کی جانب سے آپریشن جاری ہے۔فوجی آپریشن کا آغاز گذشتہ روز ہوا جس میں گن شپ و دیگر ہیلی کاپٹروں سمیت جاسوسی طیارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔ نوشکی کے پہاڑی سلسلے سمیت قلات کے علاقے بھی آپریشن کی زد میں ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع مستونگ میں فورسز نے گھر پر چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بناکر گھر میں توڑ پوڑ کی ہے۔مستونگ کے علاقے کاریز سور میں گذشتہ روز فورسز نے مرحوم استاد امید خان شاہوانی کے چھاپہ مارکر گھر میں موجود خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ گھر میں توڑ پوڑ کیا گیا۔

8 جون
۔۔۔۔گزشتہ رات 4 بجے کے وقت کراچی کے علاقے لیاری میراں ناکہ میں سیکورٹی فورسز نے ضلع پنجگور کے رہائشی شوکت ولد حاجی حضور بخش نامی نوجوان کو جبری طور پر گھر سے اٹھاکر لاپتہ کردیا۔
۔۔۔ گزشتہ دن 7 جون صبح 5بجے کے وقت کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہٰی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے سراوان، تسپ اور گرمکان میں نامعلوم افراد نے کھجور کے باغات کو آگ لگا دی ہے۔ سراوان میں نامعلوم افراد نے ماسڑ اکبر نامی شخص کے کجھور کے باغات کو آگ لگا دیا، جس سے کجھور کے درخت جل کر خاکستر ہوگئے۔ تسپ اور گرمکان میں بھی کجھور کے باغات کو نامعلوم افراد نے آگ لگا دی ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے تمپ سے تعلق رکھنے والے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سوشیالوجی کے طالب علم کلیم اللہ کو گذشتہ رات گلستان جوہر میں گھر سے جبری طور لاپتہ کیا گیا۔
۔۔۔ مارچ کے مہینے میں لاہور سے جبری گمشدگی کا شکار نوشکی کا رہائشی ہارون بادینی ولد شاہنواز خان بادینی بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا جب کہ ان کے ہمراہ لاپتہ ہونے والا سلال بادینی ولد حاجی عبد الباقی بادینی تاحال بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔مذکورہ نوجوان تبلیغ کے لیے نکلے تھے جن کی تشکیل پنجاب کے شہر لاہور میں ہوا تھا جنہیں مسجد سے حراست میں لیکر لاپتہ کیاگیا۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے بولان میں پاکستان فوج کی جانب سے آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، پاکستان فوج کے پیدل دستے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کررہے ہیں جبکہ انہیں فضائی کمک بھی حاصل ہیں۔ بولان، ہرنائی اور کوئٹہ سے متصل مختلف علاقوں زرغون، میڑداری، جمبرو میں فورسز کی جانب سے صبح سے پیش قدمی کی جارہی ہے۔

9 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے چتکان بازار غریب آباد روڈ پر ایک دکان پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے کلیم ظفر نامی شخص شدید زخمی ہوگیا۔ذرائع بتاتے ہیں کہ زخمی کو ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔مرنے والے شخص کا تعلق پنجگور کے علاقے عیسئی سے بتایا جاتا ہے۔
۔۔کراچی میں زیر تعلیم ایک اور بلوچ طالب علم شہداد بلوچ ولد دوشمبے جبری گمشدگی کا شکار ہوگئے ہیں – جبری گمشدگی کا شکار شہداد بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے ہے اور وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں شعبہ ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

10 جون
۔۔۔ گزشتہ رات کیچ کے مرکزی شہر تربت کولوائی بازار آبسر میں پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر ایک شخص کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت حفیظ بشیر ولد بشیر احمد کے نام سے ہوئی ہے جو کیچ آبسر کولوائی بازار کا رہائشی بتایا جارہا ہے۔
۔۔۔ ضلع مستونگ سے عیدالفطر کے تیسرے روز لاپتہ ہونے والے ساجد ساسولی جبکہ گزشتہ روز کراچی سے لاپتہ ہونے والے کلیم اللہ نور بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔کوئٹہ سے ایک نا معلوم شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔پو لیس کے مطابق جمعہ کو کوئٹہ کے علا قے ایئر پورٹ رڈ چشمہ اچو زئی کے قریب سے ایک شخص کی لاش ملی ہے جسے شناخت کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
۔۔۔بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں کیخلاف کراچی میں احتجاجی کیمپ قائم
کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف جمعہ کے روز کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ کا انعقادکیا گیا۔

11 جون
۔۔۔بلوچستان کے علاقے خضدار ومشکے آواران اور کراچی سے پاکستانی سیکورٹی فورسزنے مزید 5 بلوچ نوجوانو ں کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔لاپتہ کئے گئے نوجوانوں کی شناخت نور بخش ولد حبیب، غوث محمد ولد گل شیر، ولی ولد الم جان، کمیسہ ولد صوالی اور ثاقب زہری کے ناموں سے ہوگئی ہے۔
نوربخش کو گذشتہ شب رات گئے دو بجے کراچی کے علاقے رئیس گوٹھ میں گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیا گیا جبکہ غوث محمد ولد گل شیر، ولی ولد الم جان، کمیسہ ولد صوالی کو ضلع آواران کے علاقے مشکے سنینڑی سے حراست میں لیا گیا ہے جن کے حوالے سے تاحال کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
اسی طرح ثاقب زہری کوخضدار سے لاپتہ کیا گیا۔ نور بخش کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے بل نگور سے ہے اور وہ متحدہ عرب امارات میں مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں جو دو سال بعد چھٹیاں گزارنے کی غرض سے آیا ہوا تھا جنہیں فورسز نے حراست میں لیا، جبکہ مشکے میں حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی بارے میں بتایا جارہا ہے انہیں فورسز کے ساتھ سرکاری حمایت گروہ یعنی ڈیتھ اسکواڈ نے حراست میں لیا ہے۔خضدار سے لاپتہ کئے گئے نوجوان ثاقب زہری کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اسے گذشتہ روز خضدار کے مرکزی بازار سے ایک دکان سے حراست میں لیکر جبراً لاپتہ کیا گیا۔

12 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے عیسیٰ میں نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ایک شخص کوہلاک کردیا۔ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت سعید حسن کے نام سے کردیا۔
۔۔۔پاکستانی فورسز نے کراچی میں عارف ولد عبدالقادر کو دوران حراست تشدد اور قتل کر دیا۔
۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے دشت سے پاکستانی سیکورٹی اداروں نے تین افراد کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد کی شناخت اعظم ولد نبی بخش، نادر ولد رحیم بخش اور مسلم ولد حمید کے ناموں سے ہوئی ہے۔ تینوں افراد کو دشت سبدان سے دو روز قبل فورسز نے لاپتہ کیاتھا۔
۔۔۔چھ سال سے لاپتہ شخص کی لاش چمن سے برآمد
بلوچستان کے علاقے کے ڈیرہ بگٹی کے رہائشی،6سال سے لاپتہ شخص یاسین بگٹی ولد غلام نبی کی تشدد زدہ لاش چمن سے برآمدہوگئی ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق یاسین بگٹی کو 16 جنوری 2016 کو کوئٹہ ناشناس کالونی بشیر چوک سے لاپتہ کیا گیا تھا۔
۔۔۔نوشکی میں شہید ہونیوالے افراد کی میتیں ورثا کے حوالے کردی گئیں۔ 6 جون کو پاکستانی فوج نے نوشکی میں ایک جارحیت کے دوران دو نوجوانوں کو شہید کیا تھا، جن میں سے ایک کی شناخت نوشکی کے رہائشی شہزاد عالم جبکہ دوسرے کی شناخت خاران کے رہائشی ندیم قادر کے نام سے ہوئی ہے۔
۔۔۔بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کی سندھ اسمبلی سامنے دھرنا، پولیس کی تشددو گرفتاریاں،بلوچ طالب علم دودا بلوچ، غمشاد بلوچ اور دیگر کی باحفاظت بازیابی کیلئے ان کے اہلخانہ اور طلبہ سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کراچی پریس کلب کے سامنے دوسرے دن بھی دھرنا دیا۔اس موقع پر مظاہرین نے سندھ اسمبلی کی طرف جانے کی کوشش کی تو سندھ پولیس نے مظاہرین کو سندھ اسمبلی کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دیدیا۔مظاہرین کراچی سے بلوچ نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔

13 جون
۔۔۔بلوچستان کے علاقے خاران میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔
ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت اشفاق شاہوانی کے نام سے ہوگئی۔ گزشتہ روز خاران میں واپڈا کالونی محلہ میں نامعلوم مسلح افرادنے فائرنگ کرکے اشفاق شاہوانی ولدحاجی ثنااللہ شاہوانی نامی شخص کو ہلاک کردیا اس موقع پر ایک بچی بھی زخمی ہوگئی ہے۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے بولان کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج نے زمینی و فضائی جارحیت کا آغاز کر دیا ہے۔ بروز پیر کوصبح پاکستانی فورسز نے بولان کے علاقے تاوے، ہنہوں، جری شم، اور زرغون چڑاہی میں جارحیت کا آغاز کر دیاہے۔
۔۔۔کراچی: بلوچ خواتین و بچوں پر سندھ پولیس کا تشدد،متعدد گرفتار، شیر خوار بچے بھی زخمی ہوئے۔
کراچی یونیورسٹی کے دو بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرین پر سندھ پولیس نے تشددکرکے متعدد گرفتارکوکرلیا جبکہ تشددسے شیر خوار بچوں بھی شدیدزخمی ہوئے۔
۔۔۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے زرغون کے علاقے ولی تنگی اور گردونواح کے علاقوں میں پاکستانی فوج کی جارحیت جاری ہے جہاں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے آبادیوں پررات گئے شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔کوئٹہ کے علاقے ولی تنگی، ہنہ اُڑک اور گردونواح کے پہاڑی سلسلوں میں فوج کی جانب سے آج صبح سے شروع ہونے والا آپریشن تاحال جاری ہے۔

14 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے شاہو کہن میں پاکستانی سیکورٹی فورسزنے ایک گھر میں چھاپہ مارکر2 سگے بھائیوں کو گرفتارکرکے جبراً لاپتہ کردیا۔فورسز کے ہاتھوں دونوں بھائیوں کی جبری گمی کیخلاف ان کے خاندان کی جانب سے پنجگور میں سی پیک روڈ کو بلاک کرکے دھرنا دیا گیا۔
خاندانی ذرائع کا کہناہے کہ 11 جون کی رات ایک بجے سیکورٹی فورسز نے گھر میں گھس کر دونوں سگے بھائیوں ارشاد اور شرافت پسران محمد عوض کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
۔۔۔پر امن بلوچ مظاہرین کو بغیر جواز مارا پیٹا گیا، چیئرمین ایچ آر سی پی
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے کراچی میں گذشتہ رات لاپتہ بلوچ طالب علموں کی بازیابی کیلئے پر امن احتجاج کرنے والے مظاہرین پر سمدھ پولیس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے بلوچ طلباء کو غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھا کر کسی مجاز عدالت میں پیش کرنے کے غائب کر دیا ہے۔
۔۔۔کراچی یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم دودا اور غمشاد بلوچ رہا ہوگئے۔ کراچی یونیورسٹی کے دولاپتہ بلوچ طالب علم دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔واضع رہے کہ دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کوپاکستانی سیکورٹی فورسز نے 7 جون 2022 کو کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ ان کے گھر پر چھاپہ مارکر جبری طور پرلاپتہ کیا گیاتھا۔
۔۔۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے 6 افراد کو حراست میں لینے کے بعدجبری طور پرلاپتہ کردیا ہے۔
لاپتہ ہونے والے افراد کو مختلف اوقات میں کوئٹہ کے علاقے موسی کالونی سے حراست میں لیا گیا۔ جنکی شناخت شہزاد ولد خدابخش سکنہ قلات، عتیق الرحمان ولد بیبرس خان ساسولی سکنہ لجے، احمد ولد بادر خان پندرانی سکنہ نال، ڈاکٹر مختیار احمد ولد عبدالحی باجوہی سکنہ خضدار، طاہر ولد عبدالسلام سکنہ نیمرغ اور علی حسن ولد سردار انور ساسولی کے ناموں سے ہوئی ہے۔لاپتہ ہونے والوں میں شہزاد، عتیق الرحمان اور احمد کو فورسز نے چار جون کو جبکہ ڈاکٹر مختیار احمد، طاہر اور علی حسن کو گیارہ جون کو کوئٹہ کے علاقے موسیٰ کالونی سے حراست میں لیا گیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بل نگور میں پاکستانی فورسز نے ایک لاپتہ نوجوان کی تشدد زدہ لاش اہلخانہ کے حوالے کردیا۔نوجوان محمد امین کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے 7 جون 2022ء کو ضلع کیچ کی سب تحصیل بل نگور کے گاؤں سِبدان سے رات گئے سیکورٹی فورسز نے 3 دیگرنوجوانوں کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔ذرائع بتاتے ہیں کہ لاپتہ کئے گئے تینوں نوجوانوں میں سے محمد امین ولد احمد ساکن دشت پِٹّوک کی تشدد زدہ لاش سیکورٹی فورسزنے اہل خانہ کے حوالے کی ہے جبکہ ان کے ساتھہ لاپتہ کئے گئے دیگر دو نوجوان تاحال فورسز کے زندانوں میں ہیں۔

15 جون
۔۔۔جبری گمشدگیوں وسندھ پولیس کی تشددکیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی و ریلی و مظاہرہ
بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں اورکراچی میں سندھ اسمبلی کے باہر لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے والی پرامن خواتین مظاہرین اور طلبہ پر سندھ پولیس کے تشدد اور گرفتاریوں کیخلاف بلوچستان یونیورسٹی سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
۔۔بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز تواتر کے ساتھ فضائی و زمینی کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں عام لوگوں کو جانی و مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کوئٹہ سے متصل علاقے بولان و ہرنائی میں پاکستان آرمی کی زمینی فورسز نے رات پیش قدمی کرتے ہوئے زردآلو اور تور ڈبر و گرد و نواح میں عسکری آپریشن کا آغاز کیا ہے اور زمینی فورسز کو اس وقتتین ہیلی کاپٹروں کی مدد سے فضائی کمک بھی حاصل ہے۔

16جون
۔۔۔ضلع ماشکیل سے نامعلو م مسلح افراد کی فائرنگ سے فضل اللہ ولد برکت اللہ نامی شخص ایک ہلاک جو خاران کارہائشی اور پیشے کے لحاظ سے ایک مزدور بتایا جاتاہے۔ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کو مقامی اسپتال میں منتقل کردیا گیا۔
۔۔۔ ڈسٹرکٹ خضدار کی تحصیل وڈھ کے علاقے پلی ماس میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائر نگ سے ایک شخص زخمی ہوگیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے 2 مشتبہ افراد کی گرفتاری و اسلحہ برآمدگی کا دعویٰ کیا ہے۔واضع رہے کہ بلوچستان میں ماضی میں سی ٹی ڈی و ایف سی سمیت پاکستان کی دیگرسیکورٹی فورسزکی جانب سے جعلی آپریشنز و جعلی مقابلوں میں متعدد ایسے افراد کو قتل کیا گیا جو پہلے سے جبری گمشدگی کے شکار تھے۔

17 جون
۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی فورسز کے نقل و حرکت میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ کیچ کے علاقے کولواہ اور بالگتر میں فوج کی بڑی تعداد جمع ہورہی ہے، جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بھی پچھلے دو دنوں سے مذکورہ علاقے میں جاری ہیں۔
۔۔کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں پاکستان فوج کی جانب سے آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، فوجی آپریشنوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کواستعمال میں لایا جارہا ہے۔ کوئٹہ کے نواحی علاقے زرغون میں فوجی آپریشن کی گئی جہاں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے زرغون کے پہاڑیسلسلے، پی ڈی ایم سی ڈیم و گردنواح میں کئی گھنٹوں تک شیلنگ کی جبکہ دھماکوں کی آواز بھی سنی گئی۔
دوران آپریشن فورسز اہلکاروں نے پشتون قومیت سے تعلق رکھنے والے مقامی شخص کے گھر سے اسکے دو کمسن بچوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے جبکہ مال مویشیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس سے متعددمویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔
گذشتہ دنوں کوئٹہ کے نواحی علاقے ولی تنگی و گردنواح میں بھی فوجی آپریشن کی گئی۔ علاقائی ذرائع کے مطابق دوران آپریشن گنشپ ہیلی کاپٹروں نے مقامی آبادی کو نشانہ بنایا بمباری کے نتیجے میں ایک گھر جل کر خاکستر ہوگیا تھا۔

18 جون
۔۔۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ اور بعدازاں پولیس کے حوالے کئے جانے والے تین نوجوان آج پولیس کی تحویل سے رہا ہوکر گھر پہنچ گئے۔رہا ہونے والے نوجوانوں کی شناخت ہارون ولید ولد حاجی نثاراحمد سرپرہ، سدیس احمد ولد حاجی نثاراحمد سرپرہ، محمد عاقب ولدحاجی نوراللہ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
لاپتہ ہونے والا نوجوانوں کو چار ماہ بعد فورسز نے خاران و چمن میں پولیس کے حوالے کیا تھا، جن میں ہارون، سدیس احمد اور محمد عاقب کو خاران اور ثاقب زیب اور فرہاد کو چمن میں پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، ہارون، سدیس اور عاقب پولیس کی تحویل سے آج رہا ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔
۔۔۔۔بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں ایک گھر سے ایک کی شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق ساکران روڈ پرچڑھائی کے قریب ایک گھر سے ایک شخص کی لاش برآمدہوئی ہے۔ایدھی ریسکیو ٹیم نے نعش کوحب اسپتال منتقل کردیاہے جسے محمد ظاہر ولد محمد اکبر کے نام سے شناخت کرلیا گیاہے۔

21جون
۔۔۔بلوچستان کے علاقے چاغی میں پاکستانی سیکورٹی فورسز فرنٹیر کور (ایف سی) کی فائرنگ سے عوام نے مشتعل ہوکر ایک اہلکار کو ہلاک کردیا۔ چاغی کے علاقے دالبندین کے قریب ڈھڈر کے مقام پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے زمباد گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک خاتون زخمی ہوگئی۔واقعہ کے ردعمل پر عوام مشتعل ہوگئی اور انہوں نے ایف سی کی گاڑی کو آگ لگا دی۔جبکہ مشتعل افراد کے تشدد سے ایک ایف سی اہلکار ہلاک ہوگیا۔
۔۔۔پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار8بلوچ فرزند منظر عام پر آگئے۔
رواں سال 25مئی کوبلوچستان کے شہرتربت سے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے طالب علم حفیظ بشیر اور ابرار بلوچ گزشتہ روز بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔
نوشکی میں چار لاپتہ افراد منظر عام پر آگئے جنہیں پاکستانی خفیہ اداروں نے سی ٹی ڈی پولیس کے تحویل میں دے دیا ہے۔
سی ٹی ڈی پولیس کے تحویل میں دیئے گئے افراد میں پیرجان ولد سردو سکنہ ایرو، پسند علی ولد چار شمبے سکنہ کساک بلیدہ، عبدالصمد ولد رحیم بخش سکنہ ایریکان، پھلان حان ولد خدا بخش کے نام شامل ہیں۔جبکہپولیس کی جانب سے ان افراد پر عائد کئے گئے کسی بھی طرح کی کیس کی تفصیلات میڈیا کو فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔
پنجگور سے لاپتہ کئے گئے دو سگے بھائی ارشاداور و شرافت ولد محمد عوض سکنہ شاہو کہن بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔دونوں کو چند روز قبل فورسز نے حراست میں لیکر ایف سی کیمپ منتقل کردیا تھا۔ارشاد اور شرافت کی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے خلاف انکے لواحقین نے سی پیک روٹ بلاک کیا تھا۔

23 جون
۔۔۔پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں جبری گمشدگی کے شکار 3افراد بازیاب ہوکر گھرپہنچ گئے۔
بازیاب ہونے والوں کی شناخت علی ولد بخشی، اصرار ولد انورعمر اور نواز علی ولد ناصر کے ناموں سے ہوگئی ہے۔
۔۔۔بی ایل ایف نے پنجگور میں شہات پانیوالے سرمچاروں کی تفصیلات جاری کردیں۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے شہید ظہور بلوچ عرف بالی اور ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 19 جون 2022 بروز اتوار پنجگور کے علاقے پروم میں انجیر کوہ کے مقام پر پاکستانی فوج نے مقامی جاسوسوں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ مل کر سرمچاروں کو گھیر لیا جس سے فوج اور سرمچاروں کے مابین جھڑپ شروع ہوئی۔ اس جھڑپ میں پاکستانی فورسز کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور تنظیم کے پانچ ساتھی سرمچار ظہور حمل عرف بالی، اکبر عرف حمل، ساجد محمود عرف سمیر، صابر قادر عرف تاہیر،عطاء عرف ناصر ولد واحد بخش اور بی این اے کا ایک ساتھی سرمچارساجد عرف سگار وطن کی دفاع میں دشمن فوج اور اس کے مقامی مسلح دلالوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع قلات کے پہاڑی سلسلے میں پاکستان فوج کی جانب سے آپریشن کے دوران جھڑپیں ہوئی ہیں۔آپریشن کا آغاز گذشتہ روز نرمک و گردنواح کے پہاڑی سلسلے میں کیا گیا۔ علاقے میں فورسز کے قافلوں کو دیکھا گیا جبکہ بعدازاں مسلح جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کاہان میں جمعرات کے روز مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کی گئی۔ پاکستان فوج کیجانب سے کاہان کے مختلف علاقوں گْورانڈانی، کیتغی، سارتاف، منھا وڈ میں آپریشن کی جارہی ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق دوران آپریشن لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گھروں کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔ تاہم ابتک کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں۔

25 جون
۔۔۔پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے جیکب آباد میں فورسزنے ایک بلوچ کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے سیاحتی مقام ہنہ اوڑک کے زمینوں پر پاکستانی فوج کے قبضے کیخلاف عوامی احتجاج جاری ہے۔
۔۔۔بلوچستان سے مختلف اوقات میں جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے پانچ افراد بازیاب ہوگئے ہیں – بازیاب افراد کو مختلف اوقات میں حراست بعد لاپتہ کردیا گیا تھا-
رواں سال 25 اپریل کو آبسر تربت سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے طالب علم کلیم شریف اور 23 اپریل کو گومازی سے فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے یوسف اکبر منظر عام پر آگئے ہیں،دونوں نوجوانوں کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے ہے اور گزشتہ روز بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔
پنجگور لاپتہ راشد ولد واحد بخش آج بازیاب ہوگئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع کیچ،مند گوبرد کے رہائشی لاپتہ دو نوجوان وسیم ولد سلیم اور وسیم ولد شوکت آج بازیاب ہوکر گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔

26 جون
۔۔۔بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پیرا ملٹری فورس ایف سی نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو قتل جبکہ دو گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیاہے۔فائرنگ سے قتل ہونے والے شخص کی شناخت نور اللہ ولد خالق داد سکنہ چمن کے نام سے ہوئی ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں وائس چانسلر کی تعیناتی کیخلاف یونیورسٹی آف مکران کے طلبانے کلاسوں کا بائیکاٹ کرکے مین روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور احتجاج کیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے پاکستانی فورسز نے نوجوان طالب علم سمیت دو افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی شناخت خلیل ولد جلیل اور جیئند ولد خلیل سکنہ دشت جان محمد بازار کے ناموں سے ہوئی ہے۔لاپتہ ہونے والوں میں سترہ سالہ خلیل تربت یونیورسٹی میں بلوچی لٹریچرل کا طالب علم ہے جبکہ اٹھارہ سالہ جیئند سرحد پر ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ ہیں جنہیں فورسز نے گوادر کے علاقے گٹھی ڈور سے 23 جون کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔
۔۔۔کچھ لاپتہ افراد مارے گئے، پاکستانی وزیر برائے انسانی حقوق کا دعویٰ

27 جون
۔۔۔کوئٹہ سے لاپتہ نوجوان کی گرفتاری ڈیرہ بگٹی سے ظاہر کردی گئی ہے، کاؤنٹر ٹیرریزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے ایک شخص کو گرفتار کرکے قبضہ سے پستول سمیت بارودی مواد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے گرفتار شخص کی شناخت خضدار کے رہائشی عبدالباسط ولد عبدالغنی سے ہوئی ہے تاہم گرفتاری ظاہر کئے گئے مذکورہ نوجوان کے قریبی ذرائع کے مطابق عبدالباسط چار ماہ قبل کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے۔عبدالباسط کے قریبی ذرائع کے مطابق 17 فروری کو کوئٹہ کے علاقہ جیور کالونی میں پاکستانی ایف سی و خفیہ اداروں نے گھر پرچھاپہ مارتے ہوئے انھیں حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔

28 جون
پاکستانی فورسز نے ایک ضعیف العمر شخص کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت حمزہ ولد شکاری سکنہ لیس، بولان کے نام سے ہوئی ہے۔ مذکورہ شخص کو گذشتہ روز مچھ ڈگاری کراس سے فورسز نے مسافر بردار گاڑی سے اس وقت اتار کر حراست میں لیا جب وہ کوئٹہ جارہا تھا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے کردگاپ میں 28 جون کی رات فورسز نے کردگاپ شہر میں واقعہ عبدالمطلب سرپرہ کے گھر پر چھاپہ مار گھر میں توڑ پھوڑ کی گھر میں موجود افراد کو زدوکوب کیا۔رائع کے مطابق گھر پر چھاپہ کے دؤران فورسز ایک نوجوان کو زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے تاہم نوجوان کا نام معلوم
نہیں ہوسکا ہے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here