تاریخ کا مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے سے ہم انمول کرداروں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ تاریخ کے مضمون کو خوبصورتی انہی کرداروں سے ملی ہے جنہوں نے اپنے ادوار میں منفرد کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ایک ایسے ہی کردار کے بارے میں آج قلم کو جنبش دے رہاہوں۔ اپنی کم علمی کے باعث ممکن ہے کہ میں اس فرد کے کردار کو جو انہوں نے ادا کیا انہیں الفاظ خزینہ سے بہرآور نہ کرسکوں لیکن پھر بھی ایک کاوش ہے کہ وہ منفرد کردار جنہوں نے ساٹھ سال سے زائد عرصے تک ثابت قدمی سے مادروطن کا دفاع کیا۔ وہ راہ حق کے مجاہد تھے جنہیں ان کے اسی کردار کے سبب رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
اس کرہ عرض میں اربوں ایسے انسان گزرے ہیں جن کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا لیکن ان میں چند انمول ہیرے ایسے بھی ہیں جن کے کردار کے آئینے میں اترنے جی چاہتا ہے اور لب پہ دعا رہتی ہے کہ اے رحمن مجھے کچھ ایسا بنادے کہ میں بھی علی بخش بن جاوں۔ یہی رول ماڈل ہوتے ہیں جن کے سانچے میں ڈلنے کے لیے انسان تگ و دو کرتا ہے۔ اس تگ و دو کے بعد بھی ہزاروں میں کوئی ایک علی بخش کے روپ لیے جنم لیتاہے۔
زندہ رہنے کےلئے صرف جینا نہیں، بلکہ سدا زندہ رہنے کے لیے انمول کارنامے میں زندگی کا حصہ ہونے چاہیے جن سے آب حیات ملتی ہے۔
علی بخش بڈانی مری کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس نے اپنی پوری زندگی بلوچ آجوئی کےلئے وقف کیا۔ لیکن قدرت نے اسے آزاد وطن میں سانس لینے کی مہلت ہی نہیں دی جو اس کی خواہش تھی کہ آزاد وطن دیکھوں اور قوم کی خوشحالی۔ الغرض! موت تو برحق ہے اسے کو ٹال نہیں سکتا لیکن جو کردار انہوں نے ادا کیا وہ علی بخش کو صدیوں زندہ رکھیں گے۔
علی بخش کا جنم 1950 میں کاہان کے علاقے بھمبھور میں نورھان کے گھر ہوا۔ ابھی بچپن ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ علی بخش نے کوہستان مری اور خاص کر اپنے آبائی گاؤں بھمبھور میں ایوب خان کی فوجی تباہ کاریاں، ظلم و بربریت کو بہت قریب سے دیکھا۔ یہ حالات دیکھ کر انہوں نے کم سنی می ہی اپنی سرزمین پہ غیروں کی یلغار کو روکنے کے لیے بابا مری کی سربراہی میں ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ ملکر دشمن پہ بہت سے سارے مواقعوں پر کاری ضربیں لگائی۔ دشمن نے علی بخش کے حوصلوں کو کمزور کرنے کے لیے بڈانی طائفہ کے بزرگ، ورنا زندانوں کے نظر ہو گئے لیکن علی بخش ان تمام مصائب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا رہا اور کھبی اس کے پایہ استقلال میں لرزش پیدا نہیں ہوئی بلکہ دشمن کے ان اوچھے ہتکھنڈوں سے وہ اور بھی مضبوط تر ہوتا گیا۔
عظیم انقلابیوں کی طرح صبر و حوصلہ آپ کے مضبوط ہتھیار تھے جن کی وجہ سے آپ اپنے ساتھیوں میں اپنا ہردلعزیز مقام بناچکے تھے۔ اسی صبر و استقامت کی وجہ سے آپ نے پوری زندگی جہدآزادی میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔
ایوب خان کے بعد بھٹو کی حکومت میں آپ نے اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ ملکر یزیدی لشکر پہ کاری ضربیں لگائی خاص کر اپنے قبیلے بڈانی طائفہ کو کبھی بھی سرکاری زر خریدوں کےسامنے جھکنے نہ دیا، نہ جھکے نہ بھکے۔ اگر دیکھا جائے مری قبائل میں بڈانی قبیلے نے ہمیشہ ہراول دستہ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا اور ان ادوار میں کسی بھی قربانی سے دریخ نہیں کیا میں سمجھتا ہوں اس میں سب بنیادی کرداد علی بخش کا ہی تھا جو حوصلہ، صبر اور نظریاتی پختگی میں اپنی مثال آپ تھا۔ نظریاتی پختگی اور وطن سے عشق کی بدولت اپنے لوگوں کو منظم کیا، شعور کے ہتھیار سے لیس کر کے قبضہ گیر دشمن کو للکارا، ریاست کے ایوانوں کو یہ پیغام پہنچایا کہ بلوچ قوم کسی بھی غیر کو اپنی سرزمین پر قبول نہیں کرے گا۔ جب بھٹو دورمیں نواب خیر بخش مری اپنے ہمنواوں کے ہمراہ جلاوطن ہوئے تو ان میں علی بخش مری بھی اپنے بڈانی طائفہ کے ساتھ جلاوطن ہوا۔
افغانستان میں ایک طویل عرصہ گزار کر سویت یونین کے ٹوٹنے کے تین سال بعد پھر بلوچستان کا رخ کیا۔
مشرف کے دور میں نواب صاحب اور ہم خیال دوستوں کو زندانوں کی نظر کیا گیا علی بخش بڈانی نے پھر سے دشمن کے خلاف جنگ کو ترجیح دی اس جنگ میں علی بخش مری نے بہت سی قربانیاں دی جانی مالی اپنے خاندان کے کہیں افراد قربان کیے، شہادت سے لیکر دشمن کے زندانوں تک جبر و ظلم کو خندہ پیشانی اپنا کر دشمن کے سامنے استقلال بنا رہا اور آخری سانس تک اپنے موقف پہ ڈٹا رہا اور یوں یہ روشنیوں کا یہ مینار 26 مئی 2022 کی صبح دل کا دورہ پڑنے سے ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگیا، لیکن اس کی سوچ نظر یہ تاابد زندہ رہے گا۔
***