بھارت کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز نوآبادیاتی دور کے غداری کے قانون کو معطل کردیا ہے اور قراردیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس پرنظرثانی تک اس پر عمل درآمد بھی معطل رہے گا۔اس متنازع قانون کے بارے میں کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کواکثر وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت آزادیِ اظہار اوراختلاف رائے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو ان کی حکومت نے بہت سے صحافیوں، کارکنوں اور طلبہ کے خلاف ناجائزطور پراستعمال کیا ہے۔برطانیہ نے ہندوستان پر قبضے کے وقت اس قانون کو آل انڈیا کانگریس کے لیڈر مہاتما گاندھی اور دوسرے حریت پسند رہ نماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے عام استعمال کیا تھا۔
تعزیراتِ ہند کی شق 124 اے پولیس کو ایسے لوگوں کو گرفتار کرنے کے وسیع اختیارات دیتی ہے اور انھیں ایک ایسے عمل (یا تقریر) پرعمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے،جو ”حکومت سے نفرت سے پھیلانے یا توہین کرنے یا جوش دلانے یا حکومت سے ناپسندیدگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے“۔
اس متنازع قانون کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے تین ججوں کی بنچ میں شامل بھارت کے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ دفعہ 124 اے کی سختیاں موجودہ سماجی ماحول کے مطابق نہیں اور اس کا نفاذ اور مقصد ایک ایسے وقت کے لیے تھا جب یہ ملک نوآبادیاتی حکومت کے تحت تھا۔
رمنا نے حکومت سے کہا کہ وہ غداری کے الزام میں کوئی نئے مقدمات درج نہ کرے اور اس قانون کے تحت درج مقدمات کی جاری تحقیقات کو روک دے۔
عدالت نے کہا کہ غداری کے تحت درج تمام زیرالتوا مقدمات، اپیلیں اور کارروائیاں اس وقت تک مؤخر رکھی جائیں جب تک کہ ”اس شق کی دوبارہ جانچ مکمل نہ ہو جائے“۔
حکومت نے پیر کو کہا تھا کہ اس نے قانون کا ”دوبارہ جائزہ لینے اور اس پر نظر ثانی“ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ نافذالعمل رہا۔
اعلیٰ عدالت نے غداری کے الزام میں جیل میں قید لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی ضمانتوں کے لیے مقامی عدالتوں سے رجوع کریں۔
بھارت میں جرائم کے سرکاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2018ء سے 2020ء تک 236 افراد کوغداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے اقتدار کے دوران میں اس قانون کا غلط استعمال کیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقلیتوں اور نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس قانون کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
بی جے پی کے سخت گیرانتہاپسند وزیراعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ کی قیادت میں بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کی حکومت نے اس قانون کو خاص طور پر سب سے زیادہ استعمال کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی ”پرجوش صارف“ رہی ہے۔
گذشتہ سال یوپی میں پولیس نے ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے تین طلبہ کو کرکٹ میچ میں حریف پاکستان کی بھارت کے خلاف فتح کا جشن منانے کی پاداش میں گرفتار کر لیا تھا اور ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ درج کرکے انھیں جیل بھیج دیا تھا۔
بھارت نے گذشتہ سال 22 سالہ ماحولیاتی تبدیلی کی کارکن دیشا روی کو حکومت مخالف کسانوں کے مظاہروں میں مدد کے لیے مبیّنہ طور پر”ٹول کٹ“بنانے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا اور ان کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ان کی گرفتاری پرعالمی سطح پرسخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا تھا۔