پاھار – سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

ایڈمن
ایڈمن
14 Min Read

……پاھار……
بلوچستان کے قبضے کو 72سال مکمل
فورسز کی ظلم وبربریت میں شدت، تعلیمی ادارے بند
ماہِ فروری میں 50 سے ز ائدفوجی آپریشنز میں 44 افرادلاپتہ،18لاشیں برآمد،
200 سے زائدگھروں میں لوٹ مار،50سے زائدگھر نذر آتش

سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے


فروری 2020ء کی رو سے عالمی اور علاقائی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں مشرق وسطیٰ کے حالات اب تک گھبیر صورتحال کا شکار ہیں۔ بالخصوص ایران امریکہ تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔اس کے ساتھ ترکی کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے پورا مشرق وسطیٰ مزید ابتری کا شکار ہورہا ہے۔امریکی صدر ڈونل ٹرمپ کا دورہ انڈیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ پاکستان بھی اس مہینے شہ سرخیوں میں رہے۔ان کے علاوہ جرمن صدر کا روس،امریکہ اور چائنا کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دینا اہمیت کا حامل ہے۔


جب کہ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والا امن عمل بھی معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو معاشی حوالے سے وہ اب مزید زبوحالی کا شکار ہے جس سے نکلنے کی امید بہت کم ہے۔معاشی طور پر زبوحالی کا شکار ہونے کے باوجود اس ملک کا محکوم اقوام پہ ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔


جس طرح عالمی صورتحال اس مہینے بھی ابتری کا شکار رہا جس میں بہتری کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں اسی طرح بلوچستان میں پاکستانی مظالم کی داستانوں میں بھی روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ فروری کے مہینے میں 50 سے زائد فوجی آپریشنوں میں 44 افراد لاپتہ اور 5 افراد شہید کئے گئے، 200سے زائد گھروں میں لوٹ مار اور 50 سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا، اٹھارہ نعشیں برآمد ہوئیں۔


ایک جانب پاکستان بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف سرگرم ہے تو دوسری جانب بلوچوں پہ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے لیے نت نئے ہتکھنڈوں کا استعمال کررہا ہے۔


مشرق وسطیٰ آج عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کی وجہ سے پوری طرح متاثر ہوچکا ہے۔اس خطے میں شاید ہی کوئی ایسا ملک بچا ہو جو عالمی سازشوں سے متاثر نہ ہوا ہو۔ چاہے وہاں شام، عراق اور یمن کی طرح انسانی لہوبہانے کی کہانیاں ہوں، انہیں آپس میں دست و گریبان کرنے کی عالمی سازشیں بالخصوص امریکی پالیسی جن کی وجہ سے سعودی، یمن، سعودی شام اور ایران آج ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہیں یا ان عالمی پالیسیوں کی وجہ سے ایران معاشی طور پر ابتری کا شکارہے۔ الغرض اس خطے کو متاثر کرنے کے لیے ہر وہ طریقہ کار اپنایا گیا جو عالمی طاقتوں کا شیوہ رہا ہے۔


امریکہ ایران اختلافات آج آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہیں جہاں اس ملک کو پورے خطے کے لیے کینسرجیسے موذی مرض کے القابات سے نوازہ جارہا ہے جس سے امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی حکومت ایران کی موجودہ حکومت کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے آخری حد تک جائے گی۔ایران کی معاشی زبوحالی انہی امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کا اظہار آج ایران کا سربراہ مملکت بھی کررہا ہے کہ ایران آج معاشی حوالے سے ابتری کا شکار ہوچکا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ترکی کی جارحیت کی وجہ سے اس خطے کے حالات مزید گھمبیر ہوچکے ہیں جہاں اس کے قدم آج شام کی سرزمین سے آگے نکل چکے ہیں یہ حالات یقیناً نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا عالم کے لیے خطرناک اشارہ ہیں۔


ایسے حالات میں امریکی صدر کا دورہ ہندوستان جس میں تین ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ ہوا،ہندوستانی دفاع کو مزید مستحکم کرے گی ایسی صورتحال چائنا اور پاکستان کے لیے یقیناً قابل قبول نہیں۔ان حالات میں پاکستان جیسا معاشی طور پر زبوں حال ملک چائنا اور روس کی جانب توجہ مبذول کرسکتا ہے جس سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مزید خراب ہونگے، جو پاکستانی معیشت کے لیے دھچکا بھی ہوگا۔ اور افغان امن عمل جس میں موجودہ افغان حکومت بھی شامل ہے ہو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کی امیدیں مانند پڑجائیں۔ایسی صورتحال میں پاکستان حرکت میں آئے گاکیوں کہ پاکستان کی پالیسی یہی رہی ہے کہ امن عمل میں فقط طالبان کو ترجیح دی جائے۔
طالبان امن معاہدئے کے طے پانے کے بعد اب یہ سوال اہم ہے کہ افغان قوم کی شناخت،اسکی نسلوں کو تباہ کرنے والے ان طالبان کو جو مذہبی شدت پسندی کا منبہ ہیں کیونکر انھیں سیاسی حیثیت دی جا رہی ہے،یقینا یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی یا خود افغان موجودہ سیاست کی اندرون خانہ پالیسی کا حصہ ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا طالبان پھر سے افغانستان میں بیرونی خاص کر پاکستانی پروکسی کا حصہ نہیں بنیں گے،کیا افغان عوام پاکستانی شر سے بچ پائیں گے،اب یہ وقت بتائے گا۔ مگر معاہدے کے بعد پاکستانی آئی ایس آئی کا دخل کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ انہوں نے افغان عوام اور فورسز پر حملے پر سے شروع کر دے،جن کا ڈیمانڈ یہی ہے کہ پانچ ہزار سے زائد دہشت گرد جو حکومت کی جیل میں ہیں رہا کیا جائے،کہا یہ جارہا ہے کہ ان قیدیوں میں سے80 فیصد وہ افغان طالبان ہیں جو آئی ایس آئی کے زیر کنٹرول تھے اور ہیں اور باقاعدہ پاکستان ہی ان کو آپریٹ کرتا تھا۔


ایک ایسے موقع پہ جہاں امریکہ،چائنا اور روس طاقت کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں سرگرم ہیں،جرمن صدر کا بیان سامنے آیاجس میں ان کا کہنا تھا کہ آج دنیا کے لیے ان تینوں ممالک کی پالیسیاں خطرناک صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔
اسی مہینے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا۔بظاہر تو اس دورے کا مقصد افغان قوم کی چالیس سالہ جلاوطنی پہ ان سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرنا تھا لیکن افغانوں کو اس وقت ناامید ہونا پڑا جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ان سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ حالانکہ افغان مہاجرین کی 90فیصد سے زائد آبادی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مقیم ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اس رویے سے نہ صرف افغان قوم کو مایوسی ہوئی بلکہ اس خطے میں آباد دیگر اقوام کو بھی شدید مایوسی ہوئی جو آج پاکستان جیسی غیر فطری ریاست کے جبر کا سامنا کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اس اقدام کو قوم پرست اور انسان دوست حلقے انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیوں کہ انہیں یہ امید تھی کہ جناب انتونیوگیتریس حکومت پاکستان سے اس غیر انسانی عمل کے بارے میں بازپرس کرے گی۔اس دورے کو مزید شک کی نگاہ سے اس وقت دیکھا گیا جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خطے کو پس پشت ڈال کر فقط کشمیر کی بابت بات کی اسی لیے بعض حلقے اس دورے کو انسان دوستی کی بجائے سیاسی دورہ قرار دے رہے ہیں۔


پاکستان جو ایک جانب بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے معاشی اوراپنی دوغلا پالیسیوں کی وجہ سے سفارتی حوالے سے آج زبوں حالی کا شکار ہے دوسری جانب محکوم اقوام کے تحاریک نے اس ملک کو مزید خستہ حال بنادیا ہے۔اس خطے میں آج بلوچ، سندھی اور کراچی کے مہاجر تو مکمل آزادی کا علم بلند رکھے ہیں جبکہ پشتون قوم میں بھی آج آزادی کی تحریک کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے۔البتہ اب تک انہوں نے آزادی کی بابت کوئی سلوگن تو نہیں دیا لیکن پاکستان کی بربریت دیکھ کر آنے والے دنوں میں ان کے لیے بھی آزادی کے حصول کی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
اس خطے کے اقوام بالخصوص بلوچ اور سندھی اپنے مقبوضہ ممالک کی جدوجہد میں ایسے مقام پہ پہنچ چکے ہیں جو انہیں کامیابی سے منزل کی جانب لے جانے کا سبب بنے گا۔ اور دوسری جانب پشتون اور کراچی کے مہاجراس ظلم و جبر کے خلاف متحرک ہوگئے ہیں۔ان اقوام کے یہ تحاریک پاکستان جیسی ریاست کی جڑیں اکھاڑ دیں گے بشرطیکہ ان کا تسلسل آنے والے دنوں میں برقرار رہے جس کی امید بھی کی جارہی ہے۔ان تحاریک میں شدت اور ان کی کامیابیوں سے پاکستان حواس باختہ ہوچکا ہے جہاں بلوچ، پشتون، سندھی اور مہاجرآئے روز اس کی جبر کا نشانہ بن رہے ہیں۔


اگر ہم اس ضمن میں بلوچستان کا جائزہ لیں تو ماہ فروری بھی گزشتہ مہینوں کی طرح ظلم وجبر کی داستان لیے اختتام پذیر ہوا۔ جہاں پاکستان کے عسکری اداروں کی بربریت کی وجہ سے مسخ شدہ لاشوں کا ملنا، بلوچ فرزندوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا، گھروں کو مسمار کرنا،بنا جنس و عمر کی تفریق بلوچوں پہ جبر ڈھانا اور مقامی آبادیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنا وغیرہ جیسے واقعات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس مہینے ایک جانب ریاستی جبر شدت کے ساتھ جاری رہا تو دوسری جانب بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے ریاست کو اپنے کامیاب حملوں کے سبب حواس باختہ کردی بالخصوص دو سال قبل قائم ہونے والی تنظیم ”براس‘‘ جو چار تنظیموں پہ مشتمل ایک اتحاد ہے، گوادر سے غالباً پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع آرمی کے ایک کیمپ میں نہ صر ف ان کے اہلکاروں کو شکست دیا بلکہ اس حملے میں جس کی وڈیوبھی شائع ہوچکی ہے اس آرمی کیمپ میں موجود سولہ اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے عسکری سامان بھی اپنے قبضے میں لیتے ہیں۔ ایک ایسے علاقے میں جو ریاستی ساکھ کے لیے موت و زیست کا مسئلہ بن چکا ہے ایسا کامیاب حملہ ریاست پہ ایک مہلک وار ثابت ہوگا۔ اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے اس خطے میں جس میں یہ غیر فطری ریاست(پاکستان) سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہی ہے لیکن بلوچ فرزندوں کے اس حملے نے پاکستانی پروپیگنڈے کا پردہ بھی فاش کردیا اور اگر آنے والے دنوں میں جن کی امید بھی کی جارہی ہے کہ اس نوعیت کے مزیدحملے ہوتے ہیں تو پاکستان کے لیے مقابلہ کرنا وبال جان ہوگا۔


اس کے علاوہ بلوچ نوجوانوں پہ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے لیے بھی عسکری ادارے کافی متحرک دکھائی دیے جس کی وجہ سے بی ایم سی کے طلبا جن میں ایک بڑی اکثریت طلبہ کی تھیں انہیں ان کے پرامن احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کے انسانیت دشمن پالیسیاں بلوچ قوم اوراس خطے کے دیگر اقوام بالخصوص پشتونوں کی آنے والی نسلوں پہ تعلیم کے دروازے بندکرنا مکمل ریاستی سازش ہے جو آج قابض ریاست کی انٹرنل پالیسی کا ہے۔ کیوں کہ ریاست کو اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ موجودہ بلوچ تحریک جس کی رہنمائی انہی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کررہے ہیں اور اگر ان پہ تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے گئے تو ان اداروں سے نہ جانے اور کتنے، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، شہید غلام محمد بلوچ،، شہید ڈاکٹر منان جان، اور ان ہستیوں کی مانند نہ جانے کتنے نوجوان راہ حق کو زندگی کا مقصد گردانیں گے۔ لہذا آباد کار کبھی بھی کسی ایسے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کریگی جو اجتماعی طور پر کسی قوم کے مفاد میں ہو۔ ریاستی جبر اپنی جگہ اس میں کمی کی امید کرنا بھی احمق پن ہوگا لہذا ان حالات میں تعلیمی اداروں سے وابستہ طلبا کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کے تسلسل کو بہرصورت برقرار رکھیں۔

ماہ فروری 2020 پر
بی این ایم کی
تفصیلی بیان

Share This Article
Leave a Comment