معرکہ سبدان : سرمچاروں نے دشمن کے پاؤں اکھاڑ دیے | خصوصی رپورٹ

ایڈمن
ایڈمن
19 Min Read

بلوچستان کے ضلع کیچ کے دشت سبدان میں گذشتہ روز پاکستانی فورسز پر بلوچ سرمچاروں کے حملے کی یہ خصوصی رپورٹ ّّریڈیو زرمبش "نے ترتیب دی ہے ہم ان کی شکریے کے ساتھ اسے ” سنگر” کے قارئیں کی دچسپی کے پیش نظر شائع کر رہے ہیں، ادارہ سنگر

پچیس جنوری ، شام 6 بجے : جب سورج کی مدھم ہوتے کرنوں میں سرخ شعلہ بھڑکا

موسم سرما میں مکران کے ان علاقوں میں وقفے وقفے سے سردی کی لہریں چلتی ہیں ہر لہر چند دن یا ہفتہ بھر تک ہوتی ہے۔بلوچستان کے شمالی علاقوں میں برف باری کی وجہ سے منگل کے روز بھی سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا۔شام ڈھلنے کے قریب تھا لیکن سورج کی چمک ابھی باقی تھی۔ضلع کیچ کی تحصیل دشت کے گاؤں سبدان سے قریبا ڈیڑھ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع کہیر کور میں پاکستانی فوج کے چیک پوسٹ پر تعینات سپاہی سورج کی مدھم پڑتی کرنوں کو عافیت جان رہے تھے۔ تناؤ کی حالت میں دن بھر چوکنا رہنے کے بعد رات کو بہت سے ذہنوں میں آرام کا خیال آرہا ہوگا کہ یکایک ان پر بلوچ سرمچاروں نے کئی اطراف سے حملہ کردیا یہ حملہ اتنا شدید اور غیر متوقع تھا کہ پاکستانی فوجیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا پہلے ہی ہلے میں اکثر فوجی ڈھیر ہوگئے اور وہاں موجود صرف ایک اہلکار جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔سرمچاروں نے کمک کے آنے سے پہلے ہی ہتھیاروں پر قبضہ کرکے چیک پوسٹ کو جلا دیا۔ جس کا دھواں ڈیڑھ کیلومیٹر کے فاصلے پر مقامی آبادی سے نظر آنے لگا۔

اس حملے میں چیک پوسٹ پر موجود 13 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ایک جان بچا کر بھاگ گیا۔فوجیوں کی مدد کے لیے آنے والے مزید دستوں پر بھی بلوچ سرمچاروں نے حملہ کیا جس سے دو موٹر سائیکل تباہ ہوئے اور ان پر سوار مزید چار اہلکار بھی ہلاک ہوئے مجموعی طور پر دشمن فوج کے 17 اہلکاروں کا خاتمہ کیا گیا۔

بی ایل ایف مستقل مزاجی، صبر ، ثابت قدمی اور خود تنقیدی کی اصول پر کار فرما ہے

اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی ، بلوچستان لبریشن فرنٹ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ تنظیم بلوچ سیاسی کارکنان کی ایسی پہلی مسلح مزاحمتی تنظیم ہے جس کی قیادت کسی با اثر قبائلی یا طاقتور شخصیت کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے اجتماعی قیادت کے اصول پر کاربند ہے۔اس تنظیم کے کارکنان کا دعوی ہے کہ تنظیم کے فیصلے ادارہ جاتی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔اس تنظیم کی بدولت قبائلی شخصیات کے ماتحت مسلح آزادی پسند تنظیموں میں سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے کارکنان نے اپنی تنظیموں میں بلوچ قومی مفادات کے برخلاف فیصلوں پر اختلاف رکھتے ہوئے علیحدگی اختیار کی اور بعد ازاں بی ایل ایف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادارہ جاتی بنیاد پر اپنی تنظیموں کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بلوچ صحافی قاضی داد محمد ریحان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’بی ایل ایف مستقل مزاجی ، صبر اور خود تنقیدی کے اصولوں پر کارفرما ہے۔‘ بی ایل ایف کے مضبوط ادارے کیڈر کے لیے ان اصولوں پر عمل کو یقینی بتاتے ہیں۔

قاضی ریحان نے مزید بتایا کہ وہ اپنے صحافتی اور سیاسی سفر میں تمام تنظیموں کا ان کے بیانات اور عمل کے ذریعے مشاہدہ کرتے آئے ہیں بلاشبہ تمام مسلح آزادی پسند تنظیموں کے سرمچار یکساں اخلاص ، جذبہ اور پختگی کے ساتھ میدان عمل میں دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں لیکن جس طرح ہر تنظیم کی انفرادیت ہے بی ایل ایف بھی اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ بی ایل ایف میں ایک تنظیمی انکساری موجود ہے بی ایل ایف کے بیانات میں جنگی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ اپنی حکمت عملی کے ذکر سے بھی دانستہ گریز کیا جاتا ہے۔ بی ایل ایف کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے شروع کی گئی میڈیا مہم یہاں تک کہ تنظیم کے کمانڈ کونسل کے ممبر رحمدل مری کے اغوا اور شہادت کے باوجود تنظیم کی قیادت نے بردباری کا مظاہرہ کیا۔اس سے بلوچ قومی تحریک کو بڑی تباہی کی طرف دھکیلنے والی قوتوں اور سازشی عناصر کو ناکامی ہوئی اور بالآخر بی ایل ایف نے ماضی کے مخالفین کے ساتھ مل کر ’براس‘ کے نام سے اتحاد بنانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔

سبدان کا محل وقوع

یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ سبدان ’ایران ۔ پاکستان‘ بارڈر پر نہیں بلکہ نزدیک تریں علاقے سے بھی بارڈر 181 کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ فوجی نکتہ نگاہ سے قبضے کا اندرونی 5 کیلومیٹر کا فاصلہ بھی کافی زیادہ ہے جس میں دراندازی کی کہانی بنائی جاسکتی ہے لیکن اسے ثابت کرنا آسان نہیں۔ بلوچ سرمچار ان علاقوں میں گاڑیوں کا استعمال نہیں کرتے اگر انھوں نے قبضے میں لیے گئے ہتھیار اور اپنے شہید ساتھی کے جسد کے ساتھ بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی ہوتی تو انھیں بغیر رکے ہوئے بھی لگ بھگ 36 گھنٹے لگتے لیکن ظاہر ہے یہ ایک فرضی دعوی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

سبدان تربت سے محض 60 کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں عام گاڑی سے بھی ایک گھنٹے میں بآسانی پہنچا جاسکتا ہے جبکہ اس بیچ پاکستانی فوج کے کیمپ اور چیک پوسٹس بھی موجود ہیں جہاں سے فوجیوں کو مدد بھیجنا آسان ہے اور کہیر کور چیک پوسٹ کو بروقت مدد پہنچائی بھی گئی لیکن بلوچ سرمچاروں نے نہ صرف انھیں پسپا کردیا بلکہ مزید جانی نقصان بھی پہنچایا۔

سبدان کا علاقہ میرانی ڈیم کے قریب پڑتا ہے۔بلوچستان کے یہ علاقے گنجان آبادی والے علاقے نہیں لیکن یہاں دور تک چھوٹے چھوٹے گاؤں موجود ہے۔میرانی ڈیم پر بھی پاکستانی فوج کی بڑی تعداد تعینات ہے اور یہ سیکورٹی کے حوالے سے پاکستانی فوج کے لیے ایک اہم مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔بلوچستان کے اکثر ڈیموں اور پانی کے ذخائر پر پاکستانی فوج تعینات ہے جس کی وجہ بآسانی سمجھ آتی ہے کہ وہ کسی بھی غیر معمولی حالات میں پانی کو مقامی آبادی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سوچ رکھتی ہے۔

محل وقوع کے لحاظ سے کہیر کور میں واقع یہ چیک پوسٹ دشمن کے لیے نسبتا محفوظ اور بلوچ سرمچاروں کے لیے ایک مشکل ہدف تھا لیکن بلوچستان میں عموما محفوظ ٹھکانوں پر بھی پاکستانی فوجی بے چین رہتے ہیں کیونکہ بلوچ سرمچار دنیا کے سب سے خطرناک جنگی تکنیک گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔ماضی میں مقامی آبادیوں پر پاکستانی فوج کے پے در پے حملوں ، عام شہریوں پر تشدد اور حراست بعد جبری گمشدگی اور مسخ لاشیں پھینکنے کے تسلسل کے دوران بلوچ سرمچاروں نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کردیا جو کہ گوریلا جنگ کی ہی ایک خاصیت ہے۔پاکستانی فوج کو ہمیشہ سے معلوم ہے کہ وہ پہاڑوں میں بلوچ سرمچاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس نے سارا زور شہری آبادیوں میں بلوچ سرمچاروں کے ہمدردوں اور آزادی پسند سیاسی کارکنان کے خاتمے کے لیے کھپایا۔ ان بے رحم کارروائیوں میں گھر جلائے گئے ، عورتوں کا ریپ کیا گیا اور اجتماعی سزائیں دی گئیں۔اس کے بعد علاقوں میں مقامی ڈیتھ اسکواڈ کا جال بچھا کر سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا گیا۔جرائم پیشہ افراد کی سہولت کاری سے پاکستانی فوجی منصوبہ سازوں کو یقین ہوگیا تھا کہ انھوں نے بلوچ سرمچاروں کی نظریاتی اور فوجی سپلائی لائن کاٹ کر انھیں کمزور کردیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی طرف سے وقتافوقتا اس طرح کے دعوے سامنے آنے لگے کہ بلوچ سرمچاروں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور وہ بھاگ گئے ہیں۔لیکن یہ وہ دورانیہ تھا جب بلوچ سرمچار اپنی جنگی حکمت عملی میں نئی تبدیلیوں پر غور کر رہے تھے۔ انھوں نے جلد ہی پاکستانی فوج کے بھرم کو خاک میں ملا دیا۔بلوچستان کے طول و عرض میں پاکستانی فوج پر پہلے سے زیادہ جان لیوا حملے ہونے لگے۔ تمام بلوچ مسلح آزادی پسندوں نے منظم حملے کیے اور دشمن کو بھاری نقصان سے دوچار کیا۔سی پیک کی وجہ سے مکران پہلے ہی دشمن کے لیے اہمیت اختیار کرچکا تھا بلوچ نے بھی اسے اپنا جنگی مرکز بنا دیا۔مکران میں پاکستانی فوج کی خاص حکمت عملی کے تحت قائم کیے گئے آؤٹ پوسٹس کے جال کو پے درپے حملوں کا نشانہ بنایا گیا جو کہ مرکزی کیمپ اور چیک پوسٹس کے سیکورٹی کے لیے قائم کیے گئے تھے ، ان حملوں نے پاکستانی فوج کی حکمت عملی کو ناکام کردیا اور چند ہی حملوں میں پاکستانی فوج کی یہ حکمت عملی ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اس کے سیکورٹی پوسٹوں کا جال ٹوٹ گیا۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کلیدی رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ ان کے پاس ہر وقت ایک متبادل آپشن موجود رہتا ہے اسی طرح بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجرگھرام نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اپنی جنگی حکمت عملی حالات کے مطابق طے کرتے ہیں۔لیکن پاکستانی فوجی منصوبہ ساز اور ان کے تھنک ٹینکس ہمیشہ ہوا میں تیر چلاتے ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ بلوچ سرمچار ہمیشہ بیرونی مدد پر انحصار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان کے حملوں کو بھی بیرونی سازش قرار دیتے ہیں اس لیے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد یہ خوش فہمی پالی گئی کہ اب بلوچ سرمچاروں کے حملے میں کمی واقع ہوگی لیکن جب ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ حملے گولڈ اسمتھ لائن پر ہونے لگے تو اب ان کی الزام تراشیوں کا رخ ایران کی طرف ہوگیا ہے ۔اب وہ ایران کو بلوچ سرمچاروں کے حملے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

پاکستان کا بھارت کے ساتھ دیگر ہمسایہ ممالک اور بلوچ مہاجرین پر غصہ

یہ بات نہ کبھی چھپائی گئی ہے اور نہ ہی اسے کسی راز کی طرح رکھا گیا ہے کہ بلوچستان کا افغانستان اور ایران دونوں ممالک سے تاریخی اور ثقافتی گہرے رشتے ہیں۔جب پاکستانی فوج نے مقامی آبادیوں کو حملے کا ہدف بنایا بلوچ سرمچاروں کے رشتہ داروں اور خاندانوں کو جبری جلا وطنی پر مجبور کیا گیا تو ہزاروں کی تعداد میں متاثرہ خاندان افغانستان اور ایران کے زیر انتظام مغربی بلوچستان منتقل ہوگئے۔

پاکستان کی نظر میں یہ بچے اور خواتین ہی اس جنگ کی وجہ ہیں اس لیے پہلے انھیں اپنے گھروں سے بیدخل کیا گیا اور جب انھوں نے ہمسایہ ملک اور مغربی بلوچستان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس پناہ لی تو اب ان کی رہائش گاہوں کو سرمچاروں کے محفوظ ٹھکانوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور مغربی بلوچستان میں بلوچ مہاجرین کو بھی پاکستانی فوج اپنے آلہ کاروں کے ذریعے قتل کر وا رہی ہے۔زیادہ تر حملوں میں بلوچ سرمچاروں کے رشتہ داروں یا سیاسی کارکنان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی تشہیر پاکستانی فوج کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایک اہم ٹارگٹ کے طور پر کرتے ہیں۔ میڈیا پر یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے کسی اہم بلوچ جنگی کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

حال ہی میں افغانستان میں قوم دوست سوچ رکھنے والی شخصیت رزاق کو اغواء کے بعد قتل کردیا گیا۔ پاکستانی فوج نے اپنے زرخرید میڈیا کو خبر پہنچائی کہ افغانستان میں بی ایل اے سے وابستہ ایک اہم کمانڈر کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ایسا پاکستانی فوج کے افسران خود اپنے ہی سسٹم کو دھوکا دینے کے لیے بھی کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بنائے جاسکے۔

بلوچ سرمچاروں کے حملے کے ردعمل میں ایران دشمن بیانیہ

پاکستان کی ایران دشمنی کے پیچھے سنی اور شیعہ تضادات ہیں۔ بظاہر پاکستان یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ دونوں بردار ممالک کے درمیان گہری دوستی اور کوئی مسئلہ نہیں لیکن درپردہ خطے میں شیعہ سنی تضادات کی وجہ سے دونوں مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے پاکستان اس تنازع میں کھل کر سامنے آنے سے کتراتا ہے لیکن فوج کی بالادست سنی نظریاتی اسٹبلشمنٹ کی آنکھوں میں ایران کھٹکتا ہے اور اس کے خلاف پس پردہ کارروائیوں میں بخوشی شامل ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو رول بیک کرنا۔ کلبھوشن یادو کا کیس اس وقت سامنے لانا جب ایران اور پاکستان کے اعلی سطحی قیادت کی ملاقات ہو ، سب کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہے۔اب معرکہ سبدان کے بعد بھی ایسا ہی بیانیہ سامنے آ رہا ہے۔

ایسے شواہد سامنے آئے ہیں پاکستانی فوج ایران کے عدم استحکام کی صورت مغربی بلوچستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ایران کے خلاف عالمی طاقتوں کے اقدام کو پاکستان ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے کہ ترکی شام کی صورتحال میں شامی کردستان میں کرد قومی طاقت کے ابھرنے سے پریشان ہے یا اسے عراق میں خودمختار کرد حکومت کھٹکتی ہے۔ ایران کی فوجی تنصیبات سے متعلق درست نقشے بنانے کے لیے بھیجے گئے پاکستانی فوج کے جاسوسی مشن افشاں ہوتے آئے ہیں جن کے پیچھے پاکستان کی جارحیت پسندانہ عسکری سوچ کی جھلک ملتی ہے۔یہ ماضی میں ایرانی حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کے طرز پر بنائی گئی پالیسی ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان غیرمستحکم ہوگیا تو وہ مشرقی بلوچستان پر قبضہ کر لے گا۔وہ بلوچستان کو ایران کا بفر زون سمجھتا تھا جس کے لیے انھوں نے اس وقت چراگاہ کا لفظ استعمال کیا تھا کہ بلوچستان ایران کی چراگاہ ہے۔پاکستانی فوج میں یہ سوچ پیدا ہونے اور زمین پر مغربی بلوچستان سے کارامد مہرے دستیاب ہونے کے بعد اس حوالے سے خود اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔جنگ کا ماحول پرورش دینے کے لیے فوجی منصوبہ ساز ایران کے خلاف محتاط انداز میں کنٹرولڈ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں تاکہ بوقت ضرورت ایران کے خلاف محاذ کھولا جاسکے۔اب وہ بلوچ سرمچاروں کے حملوں کو بھی جواز بنانا چاہتے ہیں۔

سبدان جنگ کے شہید ممتاز عرف بالاچ

ہر کامیابی قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔بلوچ سرمچاروں کی اس کامیابی پر جہاں بلوچ قوم خوشی منا رہی ہے وہاں وطن کے ایک ہونہار سپوت گلزمین کا چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔نوجوان سرمچار ممتاز عرف بالاچ معرکہ سبدان میں پہلے صف میں لڑتے ہوئے دشمن کے جوابی حملے میں شہید ہوئے۔

میجر گھرام کے مطابق انھیں منگل کی رات کو ہی بلوچ سرمچاروں نے ایک محفوظ مقام پر سپرد گلزمین کیا۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں ایسے کئی شہزادے دفن ہیں جو یقینا آزادی کے سنہرے دور میں آپ ہی اپنے عظمت کی کہانی بیان کریں گے۔

معرکہ سبدان مکمل جیت یقینا نہیں لیکن بلوچ قوم کے حوصلوں کو بلند کرنے کا ضرور سبب بنے گا ، قوم دیکھ رہی ہے کہ کیسے وطن کے سپاہی تعداد اور وسائل میں کم ہونے کے باوجود اپنے سے کئی گناہ فوجی طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔پاکستانی کی معاشی ، سیاسی اور ریاستی بدحالی کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے بلوچ قوم سے جنگ ، جسے وہ اپنی انا کی وجہ سے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ چنگاری اب آگ بن کر ریاست پاکستان کے وجود کو بھسم کرنے والی ہے۔

Share This Article
Leave a Comment