آج 8 جون2021 کوبلوچ طلباتنظیم(بی ایس او آزاد) کے سابقہ وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کو12سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے۔ جہاں وہ ان تاریک کوٹھڑیوں میں مہذب دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو پکار رہا ہے کہ وہ معاہدات جن کی پاسداری کرنے کو تم لوگ اپنا نصب العین قرار دیتے ہولیکن آج تم لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے فرعونیت میں شدت آرہی ہے۔
ذاکر مجید کو 12سال پہلے 8جون2009کومستونگ سے پاکستان کے سیکورٹی فورسزنے جبری طور پر لاپتہ کردیا تھا۔اور اس وقت وہ بی ایس او آزاد کے وائس چیئرمین تھے۔
ذاکر مجید بلوچ کی سیاست کا محور بلوچ نوجوانوں کو تعلیم کی جانب گامزن کرنا، قلم اور کتاب کے ذریعے بلوچوں میں قومی حقوق کی سوچ کو پروان چڑھانا، بلوچ سماج کو قومی حقوق کی سیاست کے جمودی کیفیت کے خول سے نکال کر متحرک کرنا، بلوچ قوم بلخصوص نوجوان طبقے کو اپنی تاریخ سے آشناکرنا اور قومی حقوق کی جدوجہد کے لیے قوم کو ذہنی طور پر مسلح کرناتھا۔
ذاکر مجید اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق ہی بلوچ قوم کو ان کے حقوق کی جانکاری دے رہا تھا جہاں وہ انسانی حقوق کا منشورجو اس جانب ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ”غلامی کی کوئی بھی شکل ہو وہ ممنوع قرار دی جاتی ہے۔“
ذاکر مجید بلوچ کا جرم یہی ہے کہ انہوں نے قوم کو زیور تعلیم سے آشناء کرنے کی کوشش کی، اس کا جرم یہی ہے کہ انہوں نے قومی حقوق کی بات کی، اس کا جرم یہی ہے کہ اس نے سیاست کو حقیقی روپ میں دھارنے کی کوشش کی اور وہ اس لیے مجرم ہے کہ انہوں نے ان مظالم کے خلاف قوم کو متحرک کرنے کی کوشش کی اور اس کا جرم یہی ہے کہ انہوں نے غلامی کی تذلیل زدہ زندگی کے خلاف قوم پہ طاری جمود کو توڑ نے کی کوشش کی جو ہر مہذب انسان کا فطری حق ہے۔
ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے خلاف اْن کی بہن فرزانہ مجید نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے منعقد کی گئی کراچی سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ میں شرکت کی اور بھائی کے جبری گمشدگی کے کیس کو عالمی سمیت ملکی عدالتوں میں پیش کیا۔ عالمی اداروں اور ملکی عدالتوں کی جانب سے مختلف یقین دہانیوں کے باوجود ذاکر مجید بلوچ تاحال لاپتہ ہیں اور اْن کی عدم بازیابی نے خاندان میں کہرام جیسے ماحول کو جنم دے رکھا ہے۔
اسی طرح ذاکر مجید کی ماں بھی گذشتہ 12سالوں سے اپنے لخت جگر کی بازیابی کیلئے لاپتہ افراد بازیابی تحریک کا حصہ ہے اور احتجاج کرتی آرہی ہیں۔
رواں سال انہوں نے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کرتے ہوئے ڈی چوک پر احتجاجی دھرنا دیا۔ اسلام آباد کے سرد سڑکوں پر کئی راتیں گزارنے کے باوجود انہیں حکومت کی جانب سے کوئی خاطرخواہ کاروائی کی یقین دہانی نہیں کی گئی۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو بارہ سال کا طویل دورانیہ مکمل ہونے پر اْن کی والدہ نے بیٹے کی عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیٹے کی بازیابی کے لیے ضعیف، کمزور اور بوڑھی ہونے کے باوجود کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد تک احتجاجی مظاہرے کرتی رہی ہوں جبکہ تاحال اْن کے بازیابی کی راہ دیکھ رہی ہوں۔
ُُاُنہوں نے کہا کہ بیٹے کی بازیابی کیلئے آج بھی میں کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد کے سڑکوں پر آس لیے بیٹھی ہوں جبکہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ نوجوان بیٹے کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے میں اور میرے خاندان کے افراد ایک کربناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا دنیا کے وہ ممالک جو مہذب ہونے کاواویلا کرتے ہیں، دنیا کے غاصب حکومتوں کے ہاتھوں عالم انسان پہ ہونے والے مظالم پہ ان کی خاموشی ان کی مجرمانہ غفلت کو ظاہر کرتی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اقوام متحدہ اور جنیوا کنوشنز کے معاہدات انسانی حقوق کی پاسداری کا انہیں پابند کرتی ہے جہاں وہ ان ممالک کے خلاف سخت اقدامات کریں جو ان معاہدامات کی پاسداری نہیں کرتے،لیکن ان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آئے روز ان مظالم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔